جہاں تک مجھے یاد پڑ رہا ہے یہ نومبر کامہینہ تھا اور
ابھی تک صحیح طرح سے سردی کا آغاز نہیں ہوا تھامیرا ایک گھریلو ملازم چُھٹی
پر گاؤں جانا چاہ رہا تھااور پچھلے کئی سالوں کی طرح اس بار بھی وہ بضد تھا
کہ میں اُس کے ساتھ چلوں اور کچھ دن گاؤں کی صاف ستھری تازہ آ ب و ہوا میں
گزاروں میری زندگی لاہور جیسے گنجان آباد اور بے ہنگم ٹریفک والے شہر میں
ہی گزر رہی تھی خیر اُس نے مجھے گاؤں کی زندگی کے سنہرے خواب دکھا کر قائل
کر ہی لیا ویسے تو گاؤں جانا، رہنا، دیکھنا میرے بچپن کے خوابوں میں سے تھا
کیونکہ میں سکول کے زمانے حتی کہ کالج دور میں بھی دوستوں سے کھیت ، فصلیں
، کنوئیں، تازی ہوا کا زکر سنتا ہی آیا تھامیرے وہ دوست احباب جن کے آباؤ
اجداد ا بھی گاؤں میں رہتے تھے وہ لازمًا اپنی چھٹیاں گاؤں میں ہی گزارنے
کو ترجیح دیتے تھے میں کئی سالوں سے اس موقع کو انکار کرتا چلا آرہا تھا
اُس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہہ میں خوامخواہ مہمان نوازی یا کسی کو تکلیف
نہیں دینا چاہ رہا تھا لیکن اس بار دو دن کے وعدے کے ساتھ اپنے ملازم جس کا
ویسے تو نام یسین تھا لیکن میں اُس کی ذات کے حوالے سے اُسے بھٹی کہتا تھا
اُس کے ساتھ ایک صبخ ہم سفر پہ روانہ ہوئے اور کچھ گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم
بھٹی کے گاؤں کے قریب مشہور شہر پاکپتن شریف پہنج گئے ظاہر سی بات ہے کہ یہ
شہر جن بزرگ ہستی کی وجہ سے مشہور ہے اُن کی چوکھٹ پہ حاضر ہوئے بغیر بھلا
ہم آگے کیسے جا سکتے تھے اور ویسے بھی بابا صاحب سے میرا ایک خاص اُنس بھی
ہے اور سچ پوچھیں تو اس سفر کی ایک وجہ یہاں حاضری دینا بھی تھی دربار شریف
جو دنیا بھر میں روحانی فیض کے بڑے مرکزوں میں ایک ہے ابھی ہم وہاں موجود
تھے کہ بہت تیز بارش شروع ہو گئی تو بھٹی اور میں نے فیصلہ کیا کہ بارش کے
رُکنے تک انتظار کیا جائے اور پھر باقی سفر طے کیا جائے بارش تھی کہ رکنے
کا نام نہیں لے رہی تھی یہاں تک کہ شام ہونے کو آئی اور خدا خدا کرکے بارش
رکی تو اب ہم جلداز جلد گاؤں پہنچنا چاہتے تھے بھٹی نے مجھے بتایا کہ دربار
سے چنگ چی اور تانگے سیدھا گاؤں کو جاتے ہیں یہ گاؤں جو چک ۷ ۱ کے نام سے
مشہور ہے پاکپتن شریف سے زیادہ فاصلہ پر نہیں تھا تو جنا ب ہم بابا
فریدُالدین گنج شکرؒ کے دربا ر سے باہر آئے اور سواری ڈھونڈنے لگے جو ہمیں
ہماری منزل تک پہنچا دے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ بہت زیادہ بارش ہو جانے کی
وجہ سے معمول کے روٹ متاثر ہو جکے تھے اس لیے کوئی بھی سواری ہمیں گاؤں لے
جانے کے لیے تیار نہیں تھی خیر ایک چنگ چی والے کو شائد ہم پر ترس آیا یا
لوٹنے کا خیال بہر حال جو بھی تھا اُس نے تین گناہ زیادہ پیسوں پر ہمیں
گاؤں لے جانے کی ر ضا مندی ظاہر کی مرتے کیا نہ کرتے دل ہی دل میں اُسے
بُرا بھلا کہتے ہوئے ہم اس پر سوار ہوئے میں چنگ چی کے پائلٹ کے ساتھ اگلی
نشست پہ جبکہ بھٹی نے پچھلی سیٹ پہ بیٹھنے کا فیصلہ کیاابھی ہم شہر سے باہر
بھی نہیں نکلے تھے کہ بوندا باندی شروع ہو گئی اور اس کی پھوار میرے اُوبر
بھی پڑنے لگی میں بھیگنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ مجھے تھوڑی سردی بھی محسوس
ہونے لگی مشکل اور پانی میں ڈوبے رستوں میں سے ہوتے ہوئے قریبًا ایک گھنٹے
بعد ہم گاؤں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ،میں کافی حد تک بھیگ چکا تھا اور
سردی بھی زیادہ محسوس کر رہا تھا بھٹی نے مجھے بتا رکھا تھا کہ گاؤں میں
اُن کے گھر بھینس ہے اور وہ گھر کا دودھ ہی کھانے پینے میں استعمال کرتے
ہیں میرے دل میں رہ رہ کر گھر کے دودھ کی چائے کا خیال آرہا تھا ایک پیالی
چائے جو میری ساری تھکاوٹ اور سردی کا توڑ ثابت ہو گئی اور مجھے بھی زندگی
میں پہلی دفعہ خالص دودھ کی چائے پینے کو ملے گی بھٹی کے گھر پہنچنے پر اُس
کی والدہ اور بھائیوں نے پُرتپاک خیر مقدم کیا اور مجھے مہمانوں والی بیٹھک
میں لے جایا گیا پتہ چلا کے صبج سے بجلی نہیں آ رہی ہے خیر یہ کوئی بُری
خبر نہیں تھی میں لاہور جیسے بڑے شہر میں رہ کر بھی بارہ بارہ گھنٹے لوڈ
شیڈنگ کا عادی تھا بھٹی کی والدہ نے مجھے کہا کے( تسی آرام کرو تے میں چاہ
پانی دا بندوبست کرنی آں) موم بتی اور دیا جلایا گیا میں چونکہ سردی میں
ٹہرا ہوا تھا اس لیے بیٹھک کی گرمی میں مجھے کافی سکون محسوس ہو رہا تھا
البتہ گیلے کپڑے تھوڑا پریشان ضرور کر رہے تھے ابھی میں خود کو گرما ہی رہا
تھا کہ اچانک بھٹی کا بڑا بھائی ایک ہاتھ میں موم بتی اور دوسرے ہاتھ میں
7-up کی ڈیڑھ لیٹر والی بوتل لے کر کمرے میں داخل ہوااُس کے ہاتھ میں ٹھنڈی
بوتل دیکھ کر میرے جسم میں سر سے پاؤں تک ٹھنڈک کی ایک لہر دوڑ گئی میری
زبان جیسے جم کے راہ گئی تھی میرے سے نہ تو کچھ سوچا جا رہا تھا اور نہ ہی
بولا جا رہا تھا بمشکل میں بس یہ کہہ پایا ۔۔ بھٹی؟ تو اُس کے بھائی نے
بتایا کہ وہ یسین اپنے دوستوں سے ملنے چلا گیا ہے اور وہ کہہ رہا تھا کہ
ایک گھنٹے میں واپس آ جائے گاپھر اللہ بھلا کرے ان بھائی صاحب کا انہوں نے
اسی کمرے میں برتنوں والی ایک الماری سے شیشے کا گلاس نکالااور بوتل سے بھر
کر میرے آگے کر دیامیں نے کہا اس تکلف کی کیا ضرورت تھی تو اُس نے جوا ب
دیا جناب اس وقت ساری دکانیں بند تھیں میں نے اسپیشلی دوکاندا ر کے گھر سے
یہ بوتل منگوائی ہے کیونکہ امی کہہ رہی تھیں (صاحب ہوراں نو بوتل ہی پیانا
کیونکہ شہری لوگ بوتل زیادہ شوق نال پیندے نیں) میں نے کانپتے ہاتھوں سے
گلاس پکڑا اور اُس کے سامنے ایک گھونٹ بھرا بوتل کا وہ ایک گھونٹ مجھے آج
بھی یاد ہے کیونکہ بوتل میرے جسم کے جس جس حصے سے ہوتی گذر رہی تھی مجھے
صاف محسوس ہو رہی تھی وہ بھائی مجھے کمپنی دینے کے لیے میرے سامنے ہی بیٹھ
گیا اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد مجھے بوتل پینے کا کہتا جائے میں بوتل پی رہا
تھا اور ساتھ میں سوچ رہا تھا کہ پتہ نہیں انجانے میں میرے سے بھٹی پہ
کیاظلم ہوا تھاجس کا بدلہ اُس کے گھر والے اس وقت میرے سے لے رہے ہیں خیر
جی کسی طرح میں نے بوتل ختم کی اورگلاس اُس کے بھائی کے آگے کر دیا اس نے
گلاس کو دوبارہ بھرنے کی کوشش کی تو میں نے پوری بد لحاظی سے کام لیتے ہوئے
صاف منع کر دیاکیونکہ اُس کی والدہ کی بوتل منگوانے کی منطق کے آگے تو میں
کچھ نہ کر سکا البتہ یہاں میں اب اپنا دفاع کر سکتا تھااُس نے کمرے سے باہر
جاتے ہوئے کہا اگر آپ نے کپڑے بدلنے ہیں تو بدل لیں میں آپ کے لیے
بسترلگاتا ہوں اور کھانے کا بندوبست کرتا ہوں میں نے دروازہ بند کیا کپڑے
تبدیل کیے اور تھوڑی ہی دیر میں وہ بستر کندھے پہ اُٹھائے کمرے میں داخل
ہوا اور بولا یہ سپیشل بستر ہے جو ہم صرف خاص مہمانوں کے لیے ہی استعمال
کرتے ہیں اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ خاص مہمانوں میں کون کون ہو سکتا ہے تو
اتنے میں بھٹی آگیاسب اکھٹے کھانے پہ بیٹھ گئے کھانے کے دوران بھٹی کا
بھائی ایک دفعہ پھر بولا کہ یہ گھر کی پلی دیسی مرغی کا سالن ہے میں نے اُس
کی یہ بات بھی پہلی بہت سی باتوں سمیت کھانے کے ساتھ ہی ہضم کر لی کھانے کے
بعد میں بیٹھک میں آ کر لیٹ گیاجلد ہی مجھے نیند آگئی اور میں سو گیا۔
صبح جلد ہی بہت سی آوازوں سے میری آنکھ کُھل گئی کیونکہ گاؤں کی زندگی صبح
سویرے ہی شروع ہو جاتی ہے بھٹی نے آ کر مجھے بتایا کہ اُ س کی خالہ نے ہمیں
اپنے یہاں ناشتے پر بلایا ہے سو فریش ہو کر ہم بھٹی کی خالہ کے گھر چلے گئے
اُنہوں نے گھر کے صحن میں ہی ہمارے بیٹھنے کا بندوبست کر رکھا تھاباورچی
خانے سے دُھواں اٹھ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ دیسی گھی کی خوشبو نے سارے
گھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ہمارے بیٹھنے کے کچھ ہی دیر بعد لسی کے
بڑے بڑے گلاس ایک ٹرے میں رکھ کر اُس کی خالہ آتی دکھائی دیں لسی کے اتنے
بڑے گلاس دیکھ کر ایک دفعہ پھر میں منجمدسا ہو گیادراصل لسی کا واسطہ میرے
ساتھ زندگی میں کم ہی پڑا تھا اور اتنا بڑا گلاس تو ویسے بھی پورے ایک ماہ
کا کوٹہ تھااُنہوں نے باری باری سپ کو لسی کا گلاس پیش کیا میں نے بھی
پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے حصے کا گلاس اُٹھایااور بھٹی کی طرف دیکھا
تب تک بھٹی اپنا آدھا گلاس ایک سانس میں ختم کر چکا تھامجھے نہیں یاد کے
میں نے وہ لسی کا گلاس کتنی دیر میں ختم کیا لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ اُس
کے بعد مجھے عجیب عجیب سی ڈکاریں آنا شروع ہو گئیں تھیں جیسے میرا معدہ
مجھے اپنی ہی ذبان میں کچھ بُرا بھلا کہہ رہا ہواور اس ظلم کے کچھ ہی دیر
بعد میز ناشتے سے سجا پڑا تھا جس میں پراٹھے ،انڈے اور اچار نمایاں تھے
میرے پاس الفاظ تو نہیں ہیں لیکن بس میں اور میرا خدا ہی جانتا ہے کہ میں
نے اپنے حصے کا وہ ایک پراٹھا کیسے ختم کیا گھر کے مین دروازے سے بھٹی صاحب
کے خالو تشریف لائے سب سے مصافحہ کرنے کے بعد اپنی بیگم صاحبہ سے مخاطب ہو
کر بولے( او باؤ ہوراں نوں کوئی چاہ پانی وی دیتا جے کہ کوئی نہ) چاہ کا
نام سُن کے تو جیسے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے ہوں اور میرا دل کیا کہ رو
رو کے خالو جی کو ساری داستاں سُناؤں لیکن پھر اپنی اور اُن کی عمر کا لحاظ
کیا خیر جی چائے یہاں بھی قسمت میں نہیں تھی واپسی پر میں نے بھٹی سے کہا
او بھٹی تو میرے سے کس بات کا بدلہ لے رہا ہے؟ بھٹی نے حیرانگی سے میری طرف
دیکھا اور پوچھا کیا ہوا سر جی؟ میں نے کہا بھٹی کل صبح گھر سے نکلتے چائے
پی تھی سارے رستے اور سردی میں ٹھٹھرتے بھی صرف اور صرف چائے کی طلب تھی
اور اب یہ وقت آگیا ہے کہ میں چائے کو ترس گیا ہوں بھٹی نے بڑے جوشیلے
انداز میں جواب دیا( سر جی توسی چاہ پینی سی پہلے دس دیندے میں تہاڈے آستے
چاہ بنوا لیندا) میں نے کہا بھٹی یہ کوئی بتانے والی بات ہے تجھے نہیں پتہ
کہ مجھے چائے کی عادت ہے لسی یا بوتل کی نہیں اُس نے کہا سر جی آپ ٹینشن نہ
لیں ہماری تو اپنی مج ہے میں آپ کو خالص دودھ کی چائے پلواتا ہوں میں نے
کہا بھٹی اللہ تیری عمر دراز کرے اور تیری مج کی بھی، خیر جی آج کے پلان کے
مطابق ہم نے سارا دن گاؤں بھر کی سیر کی، کھیتوں میں گھومیں، نہر پہ گئے
،جانورں کوچارہ کھلایا ٹریکٹر چلایا غرض یہ کہ دن بھر کی تھکا دینے والی
سیر کے بعد ہم شام کو گھر پہنچے بھٹی نے بیٹھک کھولی اور کہا سر جی آپ
بیٹھیں میں آپ کے لیے چائے کا کہہ کر آتا ہوں اور پھر کھانا کھائیں گئے،
واہ چائے کا زکر تو اس وقت ایسا تھا جیسے جنگل کے اندھیرے میں دیے کی روشنی
، میری تو جیسے آدھی تھکان چائے کے نام سے ہی اُتر گئی تھی اور مجھے ایسے
لگ رہا تھا جیسے میری بچپن کی گاؤ ں گھومنے کی نہیں چائے پینے کی خاہش پوری
ہونے جا رہی تھی میں نے بستر پر لیٹ کر تھوڑی دیر کمر سیدھی کی کیونکہ میں
اتنا پیدل چلنے کا عادی نہیں تھا اور گاؤں کے کچے پکے رستوں پر چلنا بھی
کسی ہنر سے کم نہیں ہوتامیں سارے دن کی خش گوار سیر کو اپنے ذہن میں دوہرا
کے لطف اندوز ہو رہا تھاکہ دروازے سے بھٹی کے وہی بھائی صاحب ہاتھ میں
pepsi کی ڈیرہ لیٹر کی بوتل لیے پھر نمودار ہوا ویسے تو میں نے بلڈ پریشر
کا صرف نام سُن رکھا تھا لیکن مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ جب بلڈ میں
پریشر زیادہ ہو جائے تو دل و دماغ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں میں نے غور
سے اسے دیکھا گویا میں اُس کا دماغی توازن جانچنے کی کوشش کر رہا تھاپھر
میں نے دھڑک سے اُس سے پوچھا بھٹی کہاں ہے اُس نے کہا وہ کھوتی کو دوائی
کھلانے گیا ہے میں نے حیرانگی سے پوچھا کھوتی کو دوائی؟ اُس نے کہا جی ہاں
! ویسے بھٹی تو آپ کے لیے چائے کا کہہ کر گیا تھا لیکن امی نے پہلے ہی آپ
کے لیے بوتل منگوا کے رکھ لی تھی اور امی کہہ رہی ہیں آپ ہمارے مہمان ہیں
اور ہم آپ کی خاص توازہ ہی کریں گئے ابھئی آپ بوتل پےئیں صبح ہم آپ کو خاص
پیڑوں والی لسی پلائیں گئے لسی کا نام سنتے ہی مجھے کمرہ گھومتا ہوا محسوس
ہوا خیر ہمت کر کہ میں نے اُسے کہا بوتل یہاں چھوڑ جاؤ اور بھٹی جب آئے تو
اُسے میرے پاس بھیجنا وہ بوتل رکھ کر کمرے سے باہر چلا گیا تھوڑی دیر بعد
بھٹی کمرے میں آیا تو میں نے بوتل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا یہ کیا ہے؟
تو اُس نے معصومیت سے جواب دیا سر جی امی نے اپنی خوشی سے منگوائی ہے اس
لیے میں نہ منع نہیں کیا میں نے اُسے کہا چل بیٹا اب امی کی خوشی کی خاطر
تو ہی اسے چپ کر کہ پی لے اور امی کو یہی بتانا کے سر جی نے پی ہے اُس نے
بخوشی دو گلاس بوتل پی لی پھر ہم نے اکھٹے کھانا کھایا اورمیں سونے کے لیے
لیٹ گیا جلد ہی میری آنکھ لگ گئی۔
حسبِ توقع صبخ صبخ میری آنکھ کھلی تو سوچا تھوڑی تازی ہوا لی جائے اور میں
اکیلا ہی کھیتوں کی سیر کو نکل گیا انتحائی خوبصورت صبخ جو میں نے پہلے
کبھی نہیں دیکھی تھی ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی مٹی کی لاجواب خوشبو
اور ایک ایک زرہ تروتازہ لگ رہا تھا میں کھیتوں کے ساتھ ساتھ کچے رستے پہ
چل رہا تھاکہ اچانک کھیتوں سے ایک سیاہ رنگ کا کتا نمودار ہوا میں کچھ
گھبرا سا گیا ویسے میں ڈرتا ورتا نہیں ہوں بس کبھی کبھی تھوڑا گھبرا جاتا
ہوں میں نے اسے اگنور کرنے کی کوشش کی لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظر اس
پر گھوم جاتی میرا اندازہ صیخ تھا کتے کا مجھے اگنور کرنے کا کوئی ارادہ
نہیں تھا پھر اچانک وہ بھونکا مجھے ایسا لگا جیسے میری روح میرے جسمِ فانی
کو چھوڑ کر پرواز کرگئی ہواور ساتھ ہی اس نامعقول جانور نے میرے پیچھے دوڑ
لگا دی اب کوئی اس جانور سے پوچھتا بھلا اس کا اور میرا بھاگنے میں کیا
مقابلہ؟ اس کی چار ٹانگیں اور میری دو ٹانگیں اور وہ بھی خوف کے مارے ساتھ
میرا ساتھ نہیں دے رہی تھیں خیر دوڑتے ہوئے مجھے اور توکچھ نہ سوجا میں نے
زور زور سے چِلانا شروع کر دیا اللہ کا کرم ایسا ہوا کہ شائدمیرے چیخنے
چلانے کی وجہ سے جلد ہی اُس نے میرا پیچھا چھوڑ دیااور واپس ہو لیا میں نے
اللہ کا شکر ادا کیا اور خوف اور شرمندگی کے ملے جلے تاثرات سے ادھر اُدھر
دیکھا کہ میرا یہ تماشا کسی انجان شخص نے انجوائے تو نہیں کیا لیکن یہاں
بھی میں خوش نصیب رہا اور آس پاس کوئی بھی موجود نہ تھامیں نے چُپ کر کے
سیدھا بیٹھک کی راہ لی وہا ں پہنچا تو ناشتے پہ میرا انتظار ہو رہا تھا سب
سے پہلے مجھے پیڑوں والی خاص لسی پیش کی گئی یہ لسی زائقے میں پہلی لسی سے
مختلف تھی اور زیادہ گاڑھی بھی تھی سو اس لسی کا ایک بڑا سا گلاس پینے کے
بعد میں نے بھی صاف طور پر کہہ دیا کے میں فِل حال اور کچھ نہیں کھاؤں گا
البتہ تھوڑی دیر بعددیکھیں گئے اگر کچھ کھایا گیاحیران کُن طور پر سب نے
میری بات سے اتفاق کر لیاشائد اُن کے لیے بھی یہ ڈرنک معمول کا حصہ نہ تھا،
لسی پئیے کچھ ٹائم ہی گزرا تھا کہ میرے پیٹ میں اچانک درد محسوس ہوا میں نے
واش روم کا چکر لگایا بس پھر کیا تھا اب میرے واش روم کے چکر پہ چکر لگ رہے
تھے اور بھٹی اینڈ فیملی مجھے دیسی ٹوٹکوں پے ٹو ٹکے مہیا کر رہی تھی چند
گھنٹوں بعد جب مجھے کچھ آرام محسوس ہواتو میں نے وہاں سے اب گھر جانے میں
ہی اپنی خیریت جانی کیونکہ مجھے نہیں لگ رہا تھا کہ میرا شہری معدہ گاؤں کی
خوراکوں کے سامنے اور زیادہ مذاحمت کر پائے گا سو میں نے ایک پلان کیا اور
پلان کے تحد خود ہی کو ٹیلفون کیا اور بھٹی کو بتایا کہ تیری مالکن کا فون
تھا کچھ ضروری کام آگیا ہے مجھے آج ہی گھر پہچنا ہو گا بھٹی نے پوچھا سر جی
ایسا کیا ضروری کام آگیا ہے میں نے کہا وہ تو خیر گھر جا کر ہی پتہ چلے گا
تو ایسا کر مجھے بس اڈے تک چھوڑ آ اور تو خود کل پرسوں تک آجانا اُس نے کہا
اچھا سر جی میں ابھی کھوتی نکالتا ہوں اور میرے منہ سے پھر نکلا۔۔ کھوتی؟
بھٹی کی والدہ کو میرے اچانک جانے کی خبر ملی تو وہ بھی میرے سے ملنے آئیں
اور بولیں بیٹا اتنی کیا جلدی ہے جانے کی ایک آدھا دن اور ٹہر جاؤ میں نے
اُن سے بھی بہانا کیا معذرت کی اور دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے بھٹی کے ساتھ
اُس کی کھوتی ریڑھی پر سوار ہو کر شہر کی طرف روانہ ہوا اب کھوتی ریڑھی کا
زکر کیا سناؤ پہلی دفعہ میں اس سواری پہ بیٹھا تھا اور وہ بھی گاؤں کی کچی
سڑک پہ خراب پیٹ کے ساتھ تو بس ایک ہاتھ سے میں نے بھٹی کو پکڑا ہوا تھا
اور دوسرا ہاتھ پیٹ پہ تھا شہر بس سٹاپ پہنچے کے بعد میں بھٹی سے بغل
گیرہوا اُس کی مہمان نوازی پہ تہہ دل سے اُس کا شکریہ ادا کیااور گھر کے
لیے بس میں سوار ہو گیادوپہر تک میں گھر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا بیگم
صاحبہ نے بغیر اطلاع کے ایسے مجھے دروازے پردیکھا تو حیران ہو کرمیرے اچانک
آنے کی وجہ پوچھی میں نے وہاں گاؤں میں دل نہ لگنے کا بہانہ کیا میں شدید
تھکاؤٹ محسوس کر رہا تھا، کمرے میں آ کر بیٹھا تواُنہوں نے کھانا کھانے کا
پوچھا میں نے انکار میں سر ہلایا تھوڑی ہی دیر بعد بیگم صاحبہ کے ہاتھوں
میں پانی اور چائے کی پیالی یعنی چاہ پانی اپنی طرف آتا دیکھ کرمیری ساری
تھکاؤٹ اور تکلیف ایک دم غائب ہو گئی۔ |