منتظر تابوت۔۔۔۔۔ن یا قانون کا

نا انصافی ہر برائی کی جڑ ہے۔ جس کو انصاف مل جائے وہ خوشی کے آنسو نچھاور کرتا ہے اور جس کے لئے انصاف قتل ہو جائے اس کے آنسوؤں کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں۔ اس کے دل میں انتقام اور انصاف خود حاصل کرنے کا جذبہ موجزن ہو جاتا ہے۔ جس کے ساتھ انصاف نہیں ہوتاوہ بے چینی اور اضطراری میں ہر قدم اٹھانے کو تیار ہوتا ہے۔ نا انصافی لوگوں کے دل سے قانون اور انصاف کا خوف اور احترام دور کر دیتی ہے۔دہشت گردی، لاقانونیت، قتل وغارت اور بہت سے دیگر جرائم نا انصافی ہی کا شاخسانہ ہیں۔ان دنوں بہت سے وکلا عدالتوں میں ججوں سے جو بد تمیزی کرتے نظر آتے ہیں اس ساری صورت حال کے ذمہ دار صرف وکلا ہی نہیں ہوتے، زیادہ تر ججوں کی کمزوریاں ہی اس صورت حال کا سبب ہوتی ہیں۔سینئر ججوں کو اس صورتحال کا پوری طرح ادراک ہے۔

ایک سیاسی لیڈر کہتے ہیں کہ تابوت ایک ہے اوروہ تابوت نون یا قانون میں سے کسی ایک کا منتظر ہے۔انہیں یقین ہے کہ ہر عام انسان کو ذلت اور عزت میں سے جب بھی کسی کا انتخاب کرنا پڑے، بلا شبہ عزت ہی کا انتخاب کرتا ہے۔قانون کا ایک صحیح فیصلہ قوم کو بھی سرخرو کر دیتا ہے اور منصفوں کو بھی عزت کی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے اور تھوڑا سا غلط فیصلہ انہیں ذلت کی پاتال میں پھینک دیتا ہے۔اسلئے وہ جج جو حالات پر ہمیشہ گہری نظر رکھتے ہیں وہ کیسے اپنے لئے کسی غلط راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ دوسرا ججوں کے اب تک کے بیانات عوام کے لئے اس قدر حوصلہ افزا ہیں کہ قانون کی عملداری کے سوا کوئی دوسری بات سوچی ہی نہیں جا سکتی۔اس ملک کا مستقبل آج پانامہ کیس کے حوالے سے ججوں کے فیصلے سے منسلک ہے۔ججوں کا ٹھیک فیصلہ اس ملک کو ایک نئی راہ پر گامزن کردے گا،وہ راہ جس راہ کی آس اور امید پچھلے ستر سال سے قوم کو ہے۔

مشہور ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل ہے۔لوگ فکر مند ہیں کہ کہیں یہ تاخیر بھی کسی قتل ہی کا پیش خیمہ تو نہیں۔ایک مشہور وکیل اور سیاسی رہنماآج کل قدرے مایوسی کی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں ججو ں نے میاں نواز شریف اور ان کے بیٹوں کو نہ بلا کر اور ان سے سوال جواب کا موقع ضائع کرکے نواز شریف کی کھل کر مدد کی ہے ۔ ان کے خیال میں یہ چار دن کا کیس تھاجسے غیر ضروری طول دیا گیا۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انہیں فیصلے کے بارے کچھ علم نہیں مگر جس انداز میں اس کیس کو لٹکایا گیااور جس طرح بہت سی چیزوں اور بہت سے بیانات کو نظر انداز کیا گیا ہے اس سے وہ کچھ زیادہ پر امید نہیں۔ان کے بقول تاریخ گواہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے معاملے میں کورٹوں نے ہمیشہ تعصب کا مظاہرہ کیاہے اسی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات ہیں ۔ اسلئے پانامہ کیس میں موجودہ حکمرانوں کے خلاف عدلیہ کا فیصلہ ان کے لئے حیرت کا باعث ہو گا۔

ماضی کے حوالے سے بات چلی تو پچھلے تمام مارشلاؤں کا سبب دو چیزیں تھیں۔ایک ہمارے حکمرانوں کی نا اہلیاں اور دوسرا قانون اور انصاف کے اداروں کا اپنے فرائض سے پہلو تہی ، ججوں کے کمزور فیصلے ۔اب بظاہر نظر آتا ہے فوج بڑی الگ تھلگ ہے۔ اسے عوام، حکمرانوں اور عدلیہ سے کوئی سروکار نہیں۔ ہر مارشل لا سے پہلے ہمیشہ ایسی ہی صورتحال ہوتی تھی۔ فوج کو کبھی کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا۔مگر ہم نے ہمیشہ فوج کو جواز فراہم کیا۔فوج کو آنے پر مجبور کیا۔ آج بھی فوج کو سیاست سے کوئی سروکار نہیں۔مگر ان کی آنکھیں بند تو نہیں۔وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں۔قربانیاں وہ دے رہے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ حکمران آج بھی نا اہل ہیں۔ اب ججوں کے فیصلے بھی اگر اسی طرح کمزور ہوئے تو خوش فہمیاں کسی کام نہیں آئیں گی۔ کمزور فیصلہ مارشل لا کی راہ ہموار کرے گا۔ افراتفری بڑھے گی۔ خانہ جنگی جیسی صورت حال ہو گی اور کیا پتہ کہ اپنی اپنی قبروں میں لیٹنے کے خواہشمندوں کو اجتماعی قبریں بھی نصیب نہ ہوں۔ فوج کے افسر آج بھی بہت پریشر میں ہیں۔ یہ پریشر ہمارا دیا ہوا ہے۔پھر بھی ہمیں امید ہے کہ حالات سازگار رہیں گے ،ایک خوش فہمی سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔صورت حال یہی رہی تو کسی بھی وقت سب سسٹم سمیٹ دیا جائے گا۔سپریم کورٹ کو جلد فیصلہ دے کر نہ صرف لوگوں میں پائے جانے والی پریشانی دور کرنی ہے بلکہ بگڑتی صورت حال کوبھی سنبھالنا ہے۔

اس ملک میں بہتری کے لئے ایک ایسے کڑے احتساب کی ضرورت ہے کہ جس میں کسی بھی شخص کے مرتبے اور حیثیت کو نظرانداز کرتے ہوئے پوری دیانتداری سے اس کے عمال کا جائزہ لیا جائے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا ایک عظیم خدمت انجام دے رہا ہے۔ وہ بڑے بڑے مکروہ چہروں کو بے نقاب کر رہا ہے۔ اب یہ حکومت کا کام ہے کہ ان چہروں کو عدالتوں میں لائے اور انہیں سزا دلوائے۔ توہین رسالت کے مجرموں کو پکڑنا اور انہیں کیفر کردارتک پہنچانا تمام قوم کی خواہش ہے۔ایسے ننگ دین اور ننگ قوم لوگوں کو کوئی معاف کرنے کو تیار نہیں مگر کہا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر پابندی لگا دی جائے گی۔ایسی باتیں زیادہ تر وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں گلوبل دنیا کے حالات کا پتہ ہی نہیں ۔ پاکستان میں یو ٹیوب پر ایک عرصہ پابندی رہی لیکن براہ راست نہ سہی ، بہت سے دیگر واسطوں سے لوگ یو ٹیوب سے مستفید ہوتے رہے۔اصل چیز برائی پر قابو پانااور مجرموں کو سزا دینا ہے۔اپنی شرمسار حد تک کمزور کارکردگی پر اس طرح پردہ ڈالنے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ سوشل میڈیا پر پابندی ایک بڑا نقصان ہے۔پابندی کی بجائے اداروں کی کارکردگی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

پانامہ لیکس کے حوالے سے ابھی تک لوگوں میں امید قائم ہے گو فیصلے میں تاخیر کے حوالے سے سوشل میڈیا پر اکا دکا باتیں سنائی دیتی ہیں مگر سپریم کورٹ کا احترام پوری طرح قائم ہے۔ مگر مزید تاخیر خرابی کو دعوت دے رہی ہے۔ لوگ اب سچ کہنے سے دریغ نہیں کرتے۔ انہیں کسی جبر اور حکومتی دھمکی سے ڈر نہیں لگتا۔توہین عدالت کی کوئی شخص جرات نہیں کر سکتا، عدالتیں خود گنجائش پیدا کرتی ہیں۔مثبت تنقید تو اصلاح کا عمل ہے ۔ منفی تنقید سے بچنا عدالت کے اپنے طرز عمل پر منحصر ہوتا ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ مزید خرابیوں سے بچنے اور اپنے وقار کو قائم رکھنے کے لئے سپریم کورٹ محفوظ فیصلہ جلد منظر عام پر لے آئیگا۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443036 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More