امام احمد رضا ۔ عبقری الھند

امام احمد رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ(1856۔1921) کی کل تصانیف کی تعداد کوئی ایک ہزار ہے جن میں سے تقریبا چار سو سے پانچ سو کے بیچ مطبوعہ ہیں اور بقیہ غیرمطبوعہ ہیں۔ آپ کی یہ تصانیف براہ راست پچاس سے زائد علوم و فنون سے متعلق ہیں۔
اللہ رب العزت نے امام احمد رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ(1856۔1921) کی طبیعت کو علم و عمل سے کچھ ایسا مربوط فرما رکھا تھا کہ آپ کی گفتار کو بجا طور پر علم اور کردار کو عمل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ لکھتے لکھتے اور پڑھتے پڑھتے آپ کے مزاج میں کچھ ایسا رنگ پیدا ہو گیا تھا کہ آپ کی ہر تحریر اور ہر قول بجاے خود ایک عظیم برہان کی حیثیت رکھتا ہے۔’’فتاوی رضویہ‘‘ کے نام سے تیس ضخیم جلدوں کو محیط آپ کی زندگی کے ایک چوتھائی فتاوی آپ کی جس علمی مہارت اور عبقریت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، وہ غیر معمولی مہارت مدتوں بعد کسی خوش نصیب کا حصہ ہوا کرتی ہے۔ جبکہ چار حصوں پر مشتمل ’’الملفوظ‘‘ نامی آپ کے ملفوظات بھی بلا شبہ عظیم علمی شاہ کار ہیں۔

آپ کی کل تصانیف کی تعداد کوئی ایک ہزار ہے جن میں سے تقریبا چار سو سے پانچ سو کے بیچ مطبوعہ ہیں اور بقیہ غیرمطبوعہ ہیں۔ آپ کی یہ تصانیف براہ راست پچاس سے زائد علوم و فنون سے متعلق ہیں۔
یوں تو امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ نے جن موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کی ہے، ان پر آپ کے قلم حق رقم کو حرف آخر لکھنے کا شرف حاصل رہا ہے۔بلکہ بسا اوقات تو یہ کمال بھی نظر آتا ہے کہ آپ نے بعض ان فنون پر بھی قلم برداشتہ تحقیقات پیش کی ہیں جن کا سر رشتہ اسلامی درس گاہوں سے منقطع تھا اور بظاہر ان میں آپ کا کوئی استاذ نہیں تھا، پھر بھی نہ صرف آپ نے ان پر لکھا ہے بلکہ لکھنے کا حق ادا کیا ہے ۔

سائنس جسے آج تک اسلامی درس گاہوں میں مقبول فن کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکی ، آپ نے اپنے زمانے میں اس نوپید فن میں کئی کتابیں تصنیف فرمائیں۔ ’’فوز مبین در رد حرکت زمین‘‘آپ کی نادر تحقیقات کاوہ گراں قدر علمی تحفہ ہے، جس میں آپ نے ایک سو پانچ عقلی دلیلوں سے اس شرعی نقطہ نظر کو ثابت کیا ہے کہ چاند اور سورج گھوما کرتے ہیں ، زمین اپنی جگہ ساکن ہے۔اس سلسلے میں کمال علمی کی انتہا یہ ہے کہ ان ایک سو پانچ دلیلوں میں سے نوے دلیلیں تنہا آپ کی استنباط کردہ ہیں اور پندرہ دلیلیں وہ ہیں جو اکابر و اسلاف سے مستفاد ہیں۔ اس طرح کے خشک موضوع پر یہ کمال علمی محض عطیہ ربانی ہو سکتا ہے اور بس۔

اسی موضوع پر نقلی دلائل سے بھرپور آپ کے دو رسالے اور بھی ہیں۔لگ بھگ ٹھیک یہی صورت حال علم توقیت، نجوم، ہیئت، ہندسہ اور لوگارثم وغیرہ کی ہے۔

لیکن بایں ہمہ چوں کہ علم فقہ و فتوی آپ کی خاص جولان گاہ تھی اور اسی سے آپ کی طبیعت کوسب سے زیادہ انس بھی تھا ۔ اس لئے اس فن میں آپ نے جس انداز کی علمی مہارت کا مظاہرہ فرمایا ہے اس سے متاثر ہوکر عرب دنیا نے بھی بجا طور پر اپنے وقت کا ابو حنیفہ اور عبقری الھند قرار دیا ۔تیرہ سال کی عمر میں آپ نے مروجہ علوم سے سند فراغ حاصل کی اور مسند افتا کو زینت کو بخشی اور پھر جب یہ سلسلہ چلا ہے تو زندگی بھر چلتا رہا۔آپ کے دار الافتا کی شان یہ تھی کہ پورے بر اعظم کا سب سے بڑا دار الافتا تھا جس میں بیک وقت پانچ پانچ سو استفتا جمع ہو جاتے تھے۔ فتوی نویسی کے سلسلے میں آپ کی عادت تھی کہ سوال کرنے والا جس انداز اور جس زبان میں سوال کرتا آپ اسی کے مطابق جواب دیتے۔ اسی لئے اردو، عربی ، فارسی ، انگریزی اور دیگر زبانوں میں بھی آپ کے فتاوی ملتے ہیں جبکہ شاعری کی زبان میں پوچھے گئے سوالوں کےجواب اشعار کے روپ میں ہیں ۔آپ کے فتووں کی خاص بات یہ ہے کہ آپ سوال کے ہر ہر حصے کو ایسا نچوڑ کر رکھ دیتے ہیں جس کے بعد پوچھنے والے جہاں کسی بھی قسم کی کئی تشنگی نہیں رہ جاتی وہیں ایک مسئلے بغیر پوچھے معلوم ہو جاتے ہیں اور مسئلے کی نوعیت و مکمل صورت حال ذہن میں منتقش ہو جاتی ہے۔آپ کے اس شان افتا کے وہ لوگ بھی مداح ہیں جو نظریاتی طور سے مسلک اہل سنت و جماعت سے منسلک نہیں۔ اس ضمن میں مولانا ابوالحسن علی ندوی کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جنہوں نےجم کر آپ کے فتووں کی تعریف کی ہے۔

سر دست موقع کی مناسبت سے بطور مثال آپ کے ایک فتوے کا صرف ایک جز تلخیص اور تسہیل کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ جس میں آپ نے وضو کی ان جگہوں کا ذکر کیا ہے جن پر غفلت کی وجہ سے پانی نہ پہنچنے کا اندیشہ رہتا ہے۔جبکہ حکم شرع یہ ہے کہ اعضاے وضو میں سے اگر کوئی بھی حصہ خشک رہ جاتا ہے تو وضو نہیں ہوتااور جب وضو نہیں تو نماز بھی نہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ وضو میں چار فرض ہیں۔ چہرہ اورکہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھونا۔ چوتھائی سر کا مسح کرنا اور ٹخنوں تک دونوں پاؤں دھونا۔ ان چار اعضا کے اندر اگر ہمیں کوئی دس حصوں کے بھی نام پوچھ لے تو شاید ہم نہ بتا پائیں لیکن امام رضا خاں علیہ الرحمہ کیا فرماتے ہیں، پڑھئے:
وضو میں پچیس 25 جگہیں ہیں جن کی خاص احتیاط مرد اور عورت سب پر لازم ہے:
(۱) پانی مانگ یعنی ماتھے کے سرے سے پڑنا،بہت لوگ لپ یا چُلّو میں پانی لے کر ناک یا ابرو یا نصف ماتھے پر ڈالتے ہیں پانی تو بہہ کر نیچے آیا وہ اپنا ہاتھ چڑھا کر اوپر لے گئے اس میں سارا ماتھا نہ دُھلا بھیگا ہاتھ پھرا اور وضو نہ ہوا۔ (۲) پٹیاں جھکی ہوں تو انہیں ہٹا کر پانی ڈالے کہ جو حصہ پیشانی کا اُن کے نیچے ہے دُھلنے سے نہ رہ جائے۔ (۳) بھووں کے بال چھدرے ہوں کہ نیچے کی کھال چمکتی ہو تو کھال پر پانی بہنا فرض ہے صرف بالوں پر کافی نہیں۔ (۴) آنکھوں کے چاروں کوئے،آنکھیں زور سے بند کرے،یہاں کوئی سخت چیز جمی ہوئی ہو تو چھڑالے۔ (۵) پلک کا ہربال پورا بعض وقت کیچڑ وغیرہ سخت ہوکر جم جاتا ہے کہ اُس کے نیچے پانی نہیں بہتا اُس کا چھڑانا ضرور ہے۔ (۶)کان کے پاس تک کنپٹی ایسا نہ ہو کہ ماتھے کا پانی گال پر اتر آئے اور یہاں صرف بھیگا ہاتھ پھرے۔ (۷) ناک کا سوراخ (ناک کا سوراخ،ہاتھ پاؤں کے چھلّے،کلائی کے گہنے چُوڑیاں) اگر کوئی گہنا یاتنکا ہوتو اسے پھرا پھرا کر ورنہ یونہی دھار ڈالے، ہاں اگر بالکل بند ہوگیا تو حاجت نہیں۔ (۸) آدمی جب خاموش بیٹھے تو دونوں لب مل کر کچھ حصہ چھپ جاتاکچھ ظاہر رہتا ہے یہ ظاہر رہنے والا حصہ بھی دُھلنا فرض ہے،اگر کُلّی نہ کی اور منہ دھونے میں لب سمیٹ کر بزور بند کرلئے تو اس پر پانی نہ بہے گا۔ (۹) ٹھوڑی کی ہڈی اُس جگہ تک جہاں نیچے کے دانت جمے ہیں۔ (۱۰) ہاتھوں کی آٹھوں گھائیاں۔ (۱۱) انگلیوں کی کروٹیں کہ ملنے پر بند ہوجاتی ہیں۔ (۱۲) دسوں ناخنوں کے اندر جو جگہ خالی ہے، ہاں مَیل کا ڈر نہیں۔ (۱۳) ناخنوں کے سرے سے کُہنیوں کے اوپر تک ہاتھ کا ہر پہلو،چُلّومیں پانی لے کر کلائی پر اُلٹ لینا ہرگز کافی نہیں۔ (۱۴)کلائی کا ہربال جڑ سے نوک تک۔ایسا نہ ہو کہ کھڑے بالوں کی جڑ میں پانی گزر جائے نوکیں رہ جائیں۔ (۱۵) آرسی، چھلّے اور کلائی کے ہر گہنے کے نیچے۔ (۱۶) عورتوں کو پھنسی چُوڑیوں کا شوق ہوتا ہے اُنہیں ہٹا ہٹا کر پانی بہائیں۔ (۱۷) چوتھائی سرکا مسح فرض ہے پوروں کے سرے گزار دینا اکثر اس مقدار کو کافی نہیں ہوتا۔ (۱۸) پاؤوں کی آٹھوں گھائیاں۔ (۱۹) یہاں انگلیوں کی کروٹیں زیادہ قابلِ لحاظ ہیں کہ قدرتی ملی ہوئی ہیں۔ (۲۰) ناخنوں کے اندر کوئی سخت چیز نہ ہو۔ (۲۱) پاؤوں کے چھلّے اور جو گہنا گٹوں پر یا گٹوں سے نیچے ہو اس کے نیچے سیلان شرط ہے۔ (۲۲) گٹّے۔ (۲۳) تلوے۔ (۲۴) ایڑیاں۔(۲۵) کونچیں (خاص طور مردوں کی)
فائدہ: وضو میں پانچ مواقع اورہیں جن کی احتیاط خاص مردوں پر لازم:
(۲۶) مونچھیں۔ (۲۷) صحیح مذہب میں ساری داڑھی دھونا فرض ہے یعنی جتنی چہرے کی حد میں ہے نہ لٹکی ہوئی کہ ہاتھ سے گلے کی طرف کو دباؤ تو ٹھوڑی کے اُس حصّے سے نکل جائے جس پر دانت جمے ہیں کہ اس کا صرف مسح سنّت اور دھونا مستحب ہے۔ (۲۸ و ۲۹) داڑھی مونچھیں چھدری ہوں کہ نیچے کی کھال نظر آتی ہو تو کھال پر پانی بہنا۔ (۳۰) مونچھیں بڑھ کر لبوں کو چھپالیں تو انہیں ہٹا ہٹا کر لبوں کی کھال دھونا اگرچہ مونچھیں کیسی ہی گھنی ہوں۔ (العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ، جلد دوم، کتاب الطہارۃ)
قارئین! امام احمد رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے فتاوی میں جا بجا اس قسم کی نادر علمی تحقیقات اور باریک بینیاں آپ کے ہر قاری پر روز روشن کی طرح ظاہر ہیں۔ آپ نے غسل کی احتیاط کے زمرے میں جسم کے ستر حصوں کی تفصیل بیان کی ہے۔ حقوق العباد کے ذکر میں والدین کے اسی حقوق برجستہ ذکر کیا ہے۔ پانی کی ڈیڑھ سو قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ آپ کے فتاوی کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر قاری کو یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ آپ کے فتاوی یقیناعطایاے نبویہ ہیں۔
khalid Ayyoob Misbahi
About the Author: khalid Ayyoob Misbahi Read More Articles by khalid Ayyoob Misbahi: 4 Articles with 3826 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.