خواجۂ اعظم کی تعلیمات کامحور:خدمت خلق اور احترامِ انسانیت
(Ata Ur Rehman Noori, India)
صوفیا کی انسانیت نوازی،غربا پروی اور خدمت خلق سے متاثرہوکر ہر خاص وعام نے مذہب اسلام قبول کیا
|
|
خد مت خلق کے لغوی معنی مخلوق خداکی خدمت کرناہے اور
اصطلا ح اسلام میں خدمت خلق کا مفہوم یہ ہے : ’’رضا ئے حق حاصل کر نے کے
لیے تمام مخلوق خصوصاً انسانوں کے سا تھ جائز امور میں مدد دینا ہے‘‘۔لوگوں
کی خدمت سے انسان نہ صرف لوگوں کے دلوں میں بلکہ بارگاہ صمدیت میں بھی بڑی
عزت واحترام پاتا ہے اوراﷲ تعالیٰ کی رضا اور قرب کا حقدار بن جاتا ہے۔خدمت
خلق میں صرف مالی امدادواعانت ہی شامل نہیں بلکہ کسی کی رہنمائی کرنا،کسی
کی کفالت کرنا، کسی کو تعلیم دینا، کوئی ہنر سکھانا،اچھا اور مفید مشورہ
دینا،کسی کی علمی سرپرستی کرنا،مسجد اور مدرسہ قائم کرنا،نیکیوں کا حکم
دینا اور برائیوں سے روکنا ، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا وغیرہ یہ تمام
اُمور خدمت خلق میں آتے ہیں۔ ہمدردی اور احترامِ انسانیت جس کا ہمارا دین
مطالبہ کرتا ہے ، وہ ایک معاشرتی اصلاح کا کامیاب نسخہ ہے، جس کی بدولت
معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک
اسلامی وفلاحی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور امن وسکون کا گہوارہ بن جاتا
ہے۔بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
صوفیائے کرام نے محبت الٰہی کی اس عملی راہ کو اختیار کیا تھا۔ ملفوظات
مشائخ پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ خدمت خلق کو ان بزرگوں نے اپنی زندگی
کا اہم ترین فریضہ بنالیا تھااورہم تو اس ملک کے باشندے ہیں جہاں صوفیائے
کرام نے اپنی انتھک کوششوں سے خانقاہی نظام کو رائج فرمایا،بلا تفریق مذہب
وملت ہر خاص وعام کی دل جوئی کی، ضرورت پڑنے پرہر ایک کی مدد کی،خود بھوکے
رہ کر دوسروں کی بھوک دور کی،خود پوری پوری رات اندھیرے میں بسر کی اور
دوسروں کے چراغوں میں تیل کا انتظام کیا۔ مذہب ،ذات ،پات، اونچ ،نیچ، ادنیٰ
اور اعلیٰ کے فرق سے بلند ہوکر انسانیت ،محبت، اخوت، الفت، بھائی چارگی،یک
جہتی اور خلق خداپر شفقت کا درس دیا۔انہوں نے ہماری طرح چوک وچوراہوں پر
بڑے بڑے اجلاس کا اہتمام نہیں کیا،اپنی خدمات کا واویلہ نہیں کیا، نام
ونمود ،جاہ وحشمت اور شہرت کے پیچھے نہیں بھاگے بلکہ اپنے اخلاق حسنہ،اوصاف
حمیدہ اور اعلیٰ خصائص کی بدولت مقامی باشندے متاثر ہوئے اور بغیر کسی
تنازعہ کے انہوں نے خود اسلام کا دامن تھام لیا۔ دونوں کی تہذیب وثقافت جدا
تھی،افکار،نظریات،خیالات اور تصورات میں زمین وآسمان سافرق تھا،زبان وبیان
کا معاملہ لیا جائے تو معلوم ہوگاکہ نہ ہند کے باشندے صوفیائے کرام کی زبان
سے آشناتھے اور نہ ہی داعیان دین ہندوستان میں رائج سنسکرت ، پراکرت، مقامی
بولیاں اور بُرج بھاشاؤں سے واقف تھے،محض صوفیائے کرام کی انسانیت
نوازی،غربا پروی اور خدمت خلق سے متاثرہوکر ہر خاص وعام نے مذہب اسلام کو
قبول کیا۔اسی مذہبی ،سماجی،تہذیبی اور تعلیمی ملاپ کے بدولت زبان
اُردوکاوجود ہواجو ابتدعاًبازاری، لشکری،ہندی اورریختہ کے ناموں سے پکاری
گئی مگر صوفیائے کرام نے اس زبان کے آغاز وارتقاء میں ایساکردار نبھایاکہ
بازاری بولی جانے والی زبان میں شاہی روزنامچے تحریر کیے جانے لگے۔ اسی لیے
داغؔ نے کہا
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
ہندوستان میں اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگاکہ مختلف ادوار
میں سلاطین، فاتحین، مجاہدین ،خود مختار حکمراں یہاں آئے تو سہی مگر
ہندوستان میں اسلام کو استحکام ایک ایسے درویش نے عطا کیاجس نے ﷲیت،دربانیت،عشق
خدا،ذوق اتباع سنت ،حب رسول ،دل سوزی ،بلند ہمتی،تازگی فکر،نور بصیرت،فراست
ایمانی،حقیقت پسندی،اعتقاد صحیح،عمل صالح،وسعت قلب ونظراور اخلاص وایثار کی
متاع گراں بہاسے شمع اسلام کو بقاکی تابندگی عطاکی۔جسے دنیا قطب
الاقطاب،معین الملۃ والحق،خواجۂ خواجگاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری
کے نام سے جانتی ہے۔نائب النبی فی الہند نے یہاں صبحِ قیامت تک کے لیے
اسلامی بنیادوں کومضبوط ومستحکم فرمادیا۔ خواجۂ اعظم نے دنیاسے بے رغبتی،
غرباپروری،فیاضی ودریادلی، عفووبرد باری، تواضع وانکساری،ریاضت
ومجاہدہ،عقیدت ومحبت اور پردہ پوشی جیسے اوصاف سے ہندوستانیوں کو مزین
فرمایااور اسی کا نتیجہ ہے کہ نوے لاکھ لوگوں نے آپ کے دست حق پر اسلام
قبول کیا۔سرکار غریب نواز علیہ الرحمہ کے زہد وقناعت اور دنیاسے بے رغبتی
کا یہ عالم تھاکہ سلطان وقت اور امراوحکام آپ کے عقیدت کیش تھے مگر آپ نے
کبھی ان کے سامنے اپنی حاجت کااظہار نہیں فرمایا،اگر کوئی عقیدت مند وجاں
نثار کوئی نذر پیش کرتاتو اسے اپنے ذاتی مصارف میں نہ لاتے بلکہ غریبوں میں
تقسیم فرمادیتے۔آپ فرماتے ’’جو بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اﷲ تعالیٰ قیامت
کے دن اس کے اور جہنم کے درمیان سات پردے حائل کردے گا۔‘‘
آپ کریمانہ اخلاق وعادات کے مظہر اتم اور سیرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے
پیکر جمیل تھے۔غریبوں اور مسکینوں کے حوالے سے ہمیشہ مریدوں اور عقیدت
مندوں کو نصیحت فرمایاکرتے کہ ’’درویشوں اور غریبوں سے محبت رکھو،جوان کو
دوست رکھتاہے اﷲ عزوجل اس کودوست رکھتا ہے۔‘‘غریبوں پر بے پناہ شفقت
ومہربانی کرنے کے سبب آپ مشائخ وصوفیاکی تاریخ وسیرت سمیت پورے عالم
انسانیت میں ’’غریب نواز‘‘کے معززوممتاز لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔مرزاداغ
دہلوی نے کیاخوب کہاہے
لائی ہے مجھے امید کرم اس خاک کی اور اس در کی قسم
آیا ہوں پئے حاجت طلبی سلطان الہند غریب نواز
فریاد تمہیں سے ہے میری تکلیف سہی کیسی کیسی
ہو داد طلب کی داد رسی سلطان الہند غریب نواز
سرکار غریب نواز علیہ الرحمہ کی عطا،بخشش، فیاضی اوردریادلی کایہ عالم
تھاکہ کبھی کوئی سائل آپ کے در سے محروم نہیں جاتا۔آپ کے لنگر کھانے میں
روزانہ اتنا کھاناتیار کیاجاتاتھا کہ شہر کے تمام غرباومساکین خوب سیر ہوکر
کھاتے ۔خادم حاضر،بارگاہ ہوکر جب یومیہ خرچ کا مطالبہ کرتاتو آپ مصلیٰ
کاایک گوشہ اٹھا کر فرماتے ’’جس قدر آج کے خرچ کے لیے ضروری ہو لے لو۔‘‘آپ
کے دربار سے یتیموں ،مسکینوں ،ضرورت مندوں کی کفالت کی جاتی ،درویشوں
اورمستحقین کو وظیفہ دیاجاتا۔آپ بھوکوں کو کھانا کھلاتے، بیواؤں کی خبر
گیری کرتے، مظلوموں کوسہارادیتے ،زیردستوں کو زبردستوں کے پنجۂ استبداد سے
چھڑاتے، بڑوں کاادب ،چھوٹوں پر شفقت فرماتے۔ آپ غریب نوازی ،فقر وغنااور
زہد وعبادت میں یکتائے روزگار تھے،باوضو رہتے، عشاء کے وضوسے نماز فجر
اداکرتے، پوری پوری رات عبادت الٰہی میں مصروف رہتے، سفرہویاحضر ہرروز دو
بار قرآن شریف ختم فرماتے، روٹی کے خشک ٹکڑوں پر روزہ افطار کرتے۔آپ کے
اخلاق حسنہ سے متاثرہوکر اور چرچہ سن کر ہندوستان کے مختلف علاقوں سے لوگ
آپ کی بارگاہ میں عقیدت سے حاضر ہوتے ،جو ایمان لاتا اسے مشرف باسلام
فرماتے ،جونہ لاتا، اس سے مزاحم نہ ہوتے بلکہ تواضع سے پیش آتے اور مؤ ثر
انداز میں اسے وحدانیت کی دعوت دیتے ۔یہی وجہ ہے کہ مسلم وغیرمسلم ،خویش
وبیگانہ سب آپ سے محبت رکھتے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے کہ مختلف قوموں کے
لوگ بصد خلوص واحترام کے آپ کے روضۂ مطہرہ پر حاضر ہوتے ہیں اور من کی جائز
مرادیں پوری کرتے ہیں۔بس خلوص وعقیدت شرط ہے، بصورت دیگررات ودن مزار پاک
پر گڑگڑانے والے نابینادرویشوں کو آنکھیں نہ ملی اور جب صدق دل سے طلب
کیاتو بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کی زیارت بارگار غریب نواز سے
پہلے پہلے آنکھوں کی بینائی لَوٹ آئی۔
خواجۂ ہند سرکار غریب نواز علیہ الرحمہ پڑوسیوں کے حقوق کا بڑاخیال فرماتے
،اہل محلہ میں سے کسی کا انتقال ہوجاتاتو جنازہ میں شرکت فرماتے اور قبر کے
پاس بیٹھ کر مرنے والے کے حق میں دعائے مغفرت کرتے۔آپ بڑے ہی
حلیم،بردبار،متحمل مزاج، متین اور سنجیدہ تھے ،غصہ کرنے اور انتقال لینے کی
بجائے آپ ہمیشہ عفودرگزر سے کام لیتے۔ایک مرتبہ ایک شخص آپ کو قتل کرنے کے
لیے آیا،کشف کے ذریعے آپ کو قاتل کے مقصد کا علم ہوا،آپ نے اسے اپنے پاس
بٹھا کر کہا’’جس ارادے سے آئے ہو، اسے پورا کرو‘‘۔وہ شخص یہ جملہ سن کر
حیران ومبہوت رہ گیااور قدموں میں گر کر معافی مانگی ،کلمہ طیبہ پڑھااور
پینتالیس مرتبہ حج وزیارت کا شرف حاصل کیا،آخر میں خانۂ کعبہ کے مجاوروں
میں شامل ہوگیا اور خوش قسمتی سے مقدس سرزمین اس کا مدفن بنی۔
آپ بڑے متواضع اور نہایت منکسرالمزاج تھے۔درِ دولت پر ہزارہانعمتیں ہونے کے
باوجود آپ نہایت سادگی پسند تھے ،لباس پر کئی کئی پیوند لگے ہوتے،خاکساری ،فروتنی
اور پردہ پوشی آپ کی عادت میں شامل تھی۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی
رحمۃ اﷲ علیہ کا بیان ہے کہ ’’میں کئی برس تک خواجہ صاحب کے ساتھ رہالیکن
اس مدت میں میں نے کبھی نہیں دیکھاکہ آپ نے کبھی کسی دوست کا راز ظاہر کیا
ہو۔‘‘
٭٭٭ |
|