حضرت عبد اﷲ بن حذافہ بن قیس ؓ

موت ایک ایسا دروازہ ہے جو اﷲ پاک کے دیدار کرنے کے لئے پار کرنالازمی ہے۔ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے انکار مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ! انسان جب تک موت کا ذائقہ نہ چکھ لے اُس وقت تک نہ اﷲ پاک کا دیدار نصیب ہو سکتا ہے اور نہ ہی جنت میں پہنچ سکتا ہے۔ مومن ہر وقت نہ صرف موت کو یاد رکھتا ہے بلکہ موت کی تیاری بھی کرتا ہے۔ یہ مسلمان ہی ہے جو موت سے ایسے ہی پیار کرتا ہے جیسے پروانہ شمع سے۔ تاریخ اسلام کے سنہری دور میں حضرت عمربن الخطاب رضی اﷲ عنہ نے روم سے لڑنے کے لیے ایک فوجی دستہ روانہ کیا، اس دستے میں ایک نوجوان صحابی عبد اﷲ بن حذافہ بن قیس السھمی رضی اﷲ عنہ بھی تھے۔ مسلمانوں اور قیصر کی فوج کے درمیان لڑائی نے طول پکڑ لی، قیصر مسلمانوں کی بہادر اور ثابت قدمی پر حیران ہوا اور حکم دیا کہ مسلمانوں کا کوئی جنگی قیدی ہو تو حاضر کیا جائے۔عبد اﷲ بن حذافہ کو کر حاضر کیا گیا جن کے ہاتھوں اور پاؤں میں ہتھکڑیاں تھی، قیصر نے ان سے بات چیت شروع کی تو ان کی ذہانت سے حیران رہ گئے، دونوں کے درمیان یہ مکالمہ ہوا:-
قیصر: نصرانیت قبول کر لے تمہیں رہا کر دوں گا
عبد اﷲ: نہیں
قیصر: نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت تمہیں دے دوں گا
عبد اﷲ: نہیں
قیصر: نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت دوں گا اور تمہیں حکمرانی میں شریک کروں گا
عبد اﷲ: نہیں، اﷲ کی قسم اگر تم مجھے اپنی پوری مملکت، اپنے آباواجداد کی مملکت، عرب وعجم کی حکومتیں بھی دے میں پلک جھپکنے کے لیے بھی اپنے دین سے منہ نہیں موڑوں گا۔
قیصر غضبناک ہوا اور کہا: تجھے قتل کر دوں گا، عبد اﷲ: مجھے قتل کردے۔
قیصر نے حکم دیا کہ ان کو ایک ستون پر لٹکا کر ان کے آس پاس تیروں کی بارش کی جائے(ڈرانے کے لیے) پھر اس کو عیسائیت قبول کرنے یا موت کو گلے لگانے میں سے ایک بات کا اختیار دیا جائے۔

جب قیصر نے دیکھا کہ اس سے بھی بات نہیں بنی وہ کسی حال میں اسلام چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تو حکم دیا کہ قید میں ڈال دو اور کھانا پینا بند کر دو۔۔۔عبد اﷲ کو کھانا پینا نہیں دیا گیا یہاں تک کہ پیاس اور بھوک سے موت کے قریب ہو گئے تو قیصر کے حکم سے شراب اور خنزیر کا گوشت ان کے سامنے پیش کیا گیا۔۔۔جب عبد اﷲ نے یہ دیکھا تو کہا: اﷲ کی قسم مجھے معلوم ہے کہ میں وہ مضطر(پریشان حال) ہوں جس کے لیے یہ حلال ہے، مگر میں کفار کو خوش کر نا نہیں چاہتا، یہ کہہ کر کھانے کو ہاتھ بھی نہ لگا یا۔ یہ بات قیصر کو بتائی گئی تو اس نے عبد اﷲ کے لیے بہترین کھانا لانے کا حکم دیا، اس کے بعد ایک حسین وجمیل لڑکی کو ان کے پاس بھیجا گیا کہ ان کو چھیڑے اور فحاشی کا مظاہر ہ کرے۔۔۔اس لڑکی نے بہت کوشش کی مگر عبد اﷲ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اوراﷲ کے ذکر میں مشغول رہے۔۔۔جب لڑکی نے یہ دیکھا تو غصے سے باہر چلی آئی اور کہا: تم نے مجھے کیسے آدمی کے پاس بھیجا میں سمجھ نہ سکی کہ وہ انسان ہے یا پتھر۔۔۔اﷲ کی قسم اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ میں مذکر ہوں یا مونث!!

جب قیصر کا ہر حربہ ناکام ہوا اور وہ عبد اﷲ کے بارے میں مایوس ہوا تو ایک پیتل کی دیگ منگوائی اور اس میں تیل ڈال کر خوب گرم کیا اور عبد اﷲ کو اس دیگ کے سامنے لایا اور ایک اور مسلمان قیدی کو زنجیروں سے باندھ کر لایا گیا اور ان کو اٹھا کر اس ابلتے تیل میں ڈالا گیا جن کی ایک چیخ نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی ہڈیاں الگ ہو گئیں اور تیل کے اوپر تیرنے لگی، عبد اﷲ یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے،اب ایک بار پھر قیصر عبد اﷲ کی طرف متوجہ ہوا اور نصرانیت قبول کرنے اور اسلام چھوڑنے کی پیش کش کر دی مگر عبد ﷲ نے انکار کر دیا۔

قیصر غصے سے پاگل ہو نے لگا اور حکم دیا کہ یہ دیگ میں موجود تیل اٹھا کر عبد اﷲ کے سر پر ڈال دیا جائے، جب قیصر کے کارندوں نے دیگ کھینچ کر عبد اﷲ کے قریب کیا اور اس کی تپش کو محسوس کیا تو عبد اﷲ رونے لگے!!آپ کی ان خوش نصیب آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے جن آنکھوں نے رسول اﷲ ﷺ کا چہرہ انور دیکھا تھا!!یہ دیکھ کر قیصر خوشی سے جھومنے لگا اور کہا: عیسائی بن جاؤ معاف کر دوں گا۔
عبد اﷲ نے کہا: نہیں
قیصر: پھر رویا کیوں؟
عبد اﷲ: اﷲ کی قسم میں اس لیے رو رہا ہوں کہ میری ایک ہی جان ہے جو اس دیگ میں ڈالی جائے گی۔۔۔میری یہ تمنا ہے کہ میری میرے سر کے بالوں کے برابر جان ہوں اور وہ ایک ایک کر کے اﷲ کی راہ میں نکلیں۔۔۔یہ سن کر قیصر نے مایوسی کے عالم میں عبد اﷲ سے کہا: کیا یہ ممکن ہے کہ تم میرے سر کو بوسہ دو اور میں تمہیں رہا کرو؟

عبد اﷲ: اگر میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کرتے ہو تو میں تیرے سر کو بوسہ دینے کے لیے تیار ہوں۔
قیصر: ٹھیک ہے عبد اﷲ نے اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو رہا کرنے کے لیے اس کافر کے سر کو بوسہ دیا اور سارے مسلمان رہا کیے گئے۔

جب واپس عمر بن الخطاب کے پاس پہنچ گئے اور آپ کو واقعہ بتا دیا گیا تو عمر نے کہا: عبد اﷲ بن حذافہ کے سر کو بوسہ دینا ہر مسلمان پر ان کا حق ہے اور خود اٹھے اور عبد اﷲ کے سر کو بوسہ دیا۔ رضی اﷲ عنھم کیسی سیرت تھی صحابہ کی!
کیسی قربانیاں تھیں ان کی!

آج بحثیت مسلمان ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم کفار ، یہود و نصریٰ کے شیطانی پنجوں میں سسک سسک کر مر
رہے ہیں اور کفار ہمیں گاجر و مولیوں کی طرح کاٹ بھی رہا ہے اور ہم کو اپنا غم گسار بھی ثابت کر رہا ہے۔ اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہو سکتی ہے؟ کہ ہم اپنے مسلمان بھائی کا گلا کاٹ رہے ہیں اور وہ بھی غیر مسلموں کے اشاروں پر۔ یہ بات سچ ہے کہ آج ہم میں ایمان کی کمزوری ، دنیاوی لالچ رچ بس گیا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اﷲ پاک کے پسندیدہ دین ’’ اسلام ‘‘ کے حقیقی پیروکار بن کر دنیا میں ’’ امن و بھائی چارے ‘‘کو فروغ دیں تو سیرت النبی ﷺ کو اپنانا ہو گئی
 
YOU MAY ALSO LIKE: