عالمی صنعتی ومعاشی طاقتوں کا گٹھ جوڑ
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
Group 8(G8) |
|
بسم اﷲالرحمن الرحیم
اسکندراعظم نے پوری دنیافتح کی اور اس پر اپنی عمر کے آخر تک حکومت کی
،دنیاکی حکومت اور خزانوں کا مالک ہونے کے باوجود جب اسکندراعظم فوت ہوا تو
اس نے وصیت کی کہ میرے ہاتھ کفن سے باہر پھیلاکر رکھنا، وجہ پوچھی گئی تو
اس نے کہا کہ تاکہ لوگ دیکھیں کہ فاتح عالم دنیاسے خالی ہاتھ واپس جا رہا
ہے۔انسان کی پیٹ کی خواہش اور پیٹ کے نیچے کی خواہش شاید کبھی ختم نہیں
ہوتی ،ایک حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’انسان کے پاس ایک سونے کی
وادی آجائے تو وہ چاہے گا کہ ایک اور بھی آ جائے اور ایک اور آجائے تب بھی
وہ چاہے گا کہ ایک اور بھی آجائے‘‘۔عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ زندہ رہنے کی
تمنااور دولت کی حرص میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ انسان چار
کندھوں پر اٹھ کرمنوں مٹی کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔وہ صبح شام دیکھتا ہے کہ
دنیا میں خالی ہاتھ آنے والے خالی ہاتھ ہی واپس جارہے ہیں لیکن افسوس ہے
انسان کی فکر پر کہ وہ انبیاء کی تعلیمات کو چھوڑ کر خواہشات نفسانی میں
شیطان کی پیروی میں کھوجاتاہے۔
اس وقت پوری دنیا کی دولت ایک ظالمانہ نظا م سرمایاداری کے باعث یورپ کی
طرف کھنچی چلی جارہی ہے۔یورپ میں دنیا کی کل 14%سے کم آبادی رہائش پزیر ہے
جبکہ 65% ے زائد وسائل ان کے قبضے میں ہیں اور پوری دنیامیں اسلحے پر خرچ
ہونے والی رقم میں سے 72%رقم صرف مغربی ممالک اپنی افواج پر خرچ کرتے
ہیں۔ان میں سے بعض ممالک تو اس قدر خوشحال ہیں کہ انکی فی کس سالانہ آمدن
چالیس ہزار امریکی ڈالروں سے بھی زیادہ ہے ،یعنی اگر ایک گھر میں چھوٹے بڑے
پانچ افراد رہتے ہیں تو انکی کل سالانہ آمدن دوکروڑ امریکی ڈالر ہے۔بجائے
اس کے کہ وہ اپنی دولت کا ایک حصہ دنیا پر خرچ کریں وہ اب بھی اس فکر میں
ہیں کہ دنیاکے پاس ان کو سود در سوداداکرنے کے بعد بھی اگر کچھ وسائل بچ
گئے ہیں تو ان پر کس طرح قبضہ کیاجائے۔پوری دنیامیں پھیلی ہوئی
غربت،جہالت،پسماندگی،بیماری اور بدامنی کی بنیادوں پریورپی اقوام نے اپنے
لیے عیش و آرام اورتعیشات و مفرحات کے بلند و بالا محل تعمیر کر رکھے ہیں
لیکن ان کی حرص،طمع،لالچ ،خودغرضی،شائلاکیت اور ھل من مزید کے رویے میں نہ
صرف یہ کہ کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہی ہوتا چلاجارہا ہے۔دنیاکی آٹھ
بڑی بڑی امیر ترین مملکتوں نے دنیا میں معاشی استحصال کابازار مزید گرم
کرنے کے لیے باہمی تعاون کا پروگرام بنایاہے۔ان طاقتوں کا سامراجی گروہ جی
ایٹ کہلاتاہے۔
سعودی عرب کے جرات مند حکمران شاہ فیصل شہید رحمۃ اﷲ علیہ کی پرعزم اور
آزاد پالیسیوں کے باعث 1973کے عرب یورپ تیل کے بحران کے نتیجے میں پیداہونی
والی صورتحال پوری دنیاکے لیے عام طور پر یورپ اور امریکہ کے لیے خاص طور
پر بہت پریشان کن تھی۔ استعمار کاہمیشہ سے موثر ہتھیار اقوام متحدہ نے
1974میں اس طرح سے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے دنیاکے پانچ بڑے بڑے ممالک کے
وزارت ہائے خزانہ کے سینئر عہدیداروں کو اکٹھاکیا۔ نومبر1975میں دنیاکے چھ
بڑے بڑے صنعتی و معاشی طاقت کے حامل ممالک کے سربراہان کوفرانس کے صدر نے
مدعو کیااور انہوں نے اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے باہمی تنظیم بنانے
کا فیصلہ کیا۔جی سکس(G6) کے نام سے فرانس، امریکہ، برطانیہ، جرمنی، جاپان
اور اٹلی اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے سربراہان حکومت یا سربراہان مملکت کی
سطح پرسال بھر میں کم از کم ایک بار اجتماع کرنے کا فیصلہ کیا۔اس تنظیم کے
قیام کامقصد دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی و معاشی حالات کے مقابلے کے
لیے مل کر پالیسیاں بنانااور دوسری دنیاؤں کے مقابلے میں اپنی قوم کو زیادہ
سے زیادہ فائدہ پہنچانا شامل تھا۔1976کی سربراہ کانفرنس میں کینیڈا بھی ان
میں شامل ہو گیا اور یوں یہ گروپ سکس سے گروپ سیون بن گیا،1977میں لندن میں
ہونی والی سربراہ کانفرنس میں یورپی یونین بھی اس تنظیم میں شامل ہوگئی
لیکن چونکہ یہ کوئی ایک ملک نہیں تھا اس لیے اس کے نام میں کوئی فرق نہ
پڑاتاہم یونین کا صدر اب تک ہونے والی سربراہی اجلاسوں میں باقائدگی سے
شرکت کرتاہے۔اس کے بعد کئی سالوں تک دنیا کے اور ممالک بھی اس گروپ کے
اجلاس میں کسی نہ کسی حیثیت سے شرکت کرتے رہے لیکن انہیں باقائدہ رکنیت نہ
دی گئی تاآنکہ گزشتہ صدی کے آخر میں روس جب اس گروپ میں شامل ہوا تو تب سے
اس کا نام گروپ آٹھ (Group 8یا مختصراََG8)پڑ گیا۔
اس گروہ کا طریقہ عمل دوسری تنظیموں سے بالکل جدا ہے،اسکا کوئی مستقل
سربراہ نہیں اور نہ ہی کوئی مرکزی دفتر ہے،ہر سال کے آغاز پر یکم جنوری
کوایک ملک اسکی نگرانی سنبھال لیتا ہے اور سال بھر کے جملہ تحرکات وہیں
وقوع پزیرہوتے ہیں جن میں سربراہی اجلاس بھی شامل ہوتاہے۔جی ایٹ کی سالانہ
سربراہی اجلاس باری باری ہر ملک میں ہوتا ہے جس کی ترتیب میں سب سے پہلے
فرانس،پھرامریکہ،پھر برطانیہ،پھر روس،پھر جرمنی،پھر جاپان،پھر اٹلی اورآخر
میں کینیڈا کی باری آتی ہے۔ایک چکر پوراہوجانے کے بعد پھر سے اسی ترتیب سے
تین روزہ سالانہ سربراہی اجلاس سال کے وسط میں اسی ترتیب سے ہر ہر ملک میں
منعقد ہوتا ہے۔۔اس گروہ کا دائرہ کار میکرو اکنامکس کے انتظامات،بین
الاقوامی تجارت اور چھوٹے اور ترقی پزیرملکوں کے ساتھ تجارتی تعلقات کی
بڑھوتری ہے۔اس کے علاوہ مائکرو اکنامکس کے جملہ موضوعات جن میں بے
روزگاری،تیزرفتار ترقی کی حامل تکنالوجی،ماحولیات،جرائم،منشیات،انسانی
حقوق،عدالتی معاملات ،توانائی کے شعبے خارجہ اور داخلہ امور اور اسلحے کی
دوڑ شامل ہیں یہ موضوعات بھی اس گروہ کی سربراہی کانفرنسوں میں زیربحث آتے
ہیں۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ ایک مختصر خبر کے ذریعے اطلاع آتی ہے کہ جی
ایٹ کے سربراہ اکٹھے ہوئے اجلاس شروع ہوا اور پھر اجلاس ختم بھی ہوگیا،لیکن
ان کے فیصلے دنیا کے حالات پر اپنے گہرے اور ان مٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں اس
کے مقابلے میں ہفتوں پہلے سے شور مچنے لگتاہے کہ اسلامی سربراہی اجلاس
منعقد ہونے والا ہے ،نئی نئی عمارات بنتی ہیں،لاکھوں نہیں کروڑوں نہیں
اربوں کے اخراجات ایک اجلاس پر اٹھتے ہیں وفود کی فوج ظفرموج جمع ہوتی ہے
ایک تماشا لگا ہوتا ہے لیکن اس کا دنیا پر کیا خود اسلامی ممالک کے حالات
پر رتی برابر فرق نہیں پڑتا۔یہ فرق ہے بیدار مغز قیادت اور خالی الذہن
قیادت میں۔
ہر سربراہ اجلاس کے بعد تقریباََسارا سال ان ملکوں کے نمائندے ملتے رہتے
ہیں اور ہونے والے فیصلوں پر عملی تدابیر کرتے ہیں۔اگلی سربراہ اجلاس میں
پھر گزشتہ سال کی رپورٹ اور آئندہ سال کی منصوبہ بندی طے کر لی جاتی ہے۔اس
مقصد کے لیے جی ایٹ ممالک نے اپنا ایک منصوبہ کار ترتیب دے رکھا ہے جس کے
تحت ان ممالک کے وزرا ایک ترتیب کے مطابق ساراسال باہمی اجتماعات منعقد
کرتے رہتے ہیں۔ان اجتماعات میں زیادہ اہم انکے وزرائے خزانہ،وزرائے خارجہ
اور وزرائے ماحولیات کے اجتماعات شامل ہیں۔ان اجتماعات میں ذیلی گروہ تشکیل
دیے جاتے ہیں جن میں ان ممالک کی نچلی سطح کی انتظامیہ اور سیاسی قائدین
شامل ہوتے ہیں جو سال میں کئی دفعہ سب کے سب یا پھر صرف متعلقہ ملکوں کے
نمائندوں کو ہی شامل کر کے ان اقدامات اور سفارشات پر عملدرآمد کو یقینی
بناتے ہیں جو ان کے بڑوں نے فیصلہ کے ہوتے ہیں۔دنیامیں زندہ لوگوں کی کمی
نہیں ہے جو اس نوعیت کے اجتماعات پر نظر رکھتے ہیں اور اس موقع پر ان
اجتماعات کے مقاصد کے خلاف یورپ کے ہی ملکوں میں بڑے بڑے مظاہرے ترتیب دیتے
ہیں اور اپنی حکومتوں کو اور دوسری دنیاؤں کو شرم سے پانی پانی کرتے ہیں
اور گویا اعلان کرتے ہیں سونے والو تم بھی جاگو اور اوران وڈیرے ساہوکاوں
کے عزائم پر کڑی نظر رکھو۔اسکاٹ لینڈکے شہر ایڈن برگ میں اکتیسویں سربراہ
اجلاس کے موقع پر سوادولاکھ افراد نے اتنابڑا مظاہرہ کیا کہ شہر کی گلیاں
تک جام ہو گئیں۔
فرانس اور برطانیہ نے دنیا کے پانچ دیگر ملکوں کو بھی اس گروہ میں شامل
کرنے پر بہت زور دیاہے ،ان ملکوں میں برازیل،چین،انڈیا،میکسیکو اور جنوبی
افریقہ شامل ہیں ۔یہ ممالک گزشتہ کئی اجلاسوں میں اس گروپ کے اجتماعات میں
شامل بھی ہوتے رہے ہیں اس موقع پر ان کو گروپ آٹھ اورپانچ (G8+5)کہاجاتا
تھا۔حال ہی میں فرانس ،اٹلی اور جرمنی نے مصر کو بھی ان ممالک میں شامل
کرنے کی مہم چلا رکھی تھی اور یوں مصر کو اس بات کا صلہ مل جاتاکہ اس نے
امت مسلمہ سے غداری کر کے تو اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کو تسلیم کر رکھاہے
اور غزہ کے مجاہدین تک دوائیاں، خوراک اور اسلحہ نہ پہنچاکر ان عالمی
ساہوکاروں کو خوش کر دیاہے۔اگر ایسا ہوگیاتب اس گروپ کانام جی آٹھ کی بجائے
جی چودہ ہوجائے گا۔
حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے صبح کو سورج طلوع ہوتاہے نصف النہار تک
پہنچتاہے اور پھر غروب بھی ہوجاتاہے،سایہ صبح کو ایک طرف ہوتا ہے تو شام کو
دوسری طرف آجاتاہے ۔آج دنیاکی دولت لوٹنے والے اور اپنے بنکوں کے تہہ خانوں
کو سونے کی اینٹوں سے بھرنے والے کب تک اپنے انجام سے بچ سکیں گے؟؟سونے
چاندی کی کرنسی سے کاغذ کی ضمانت والی کرنسی اور پھر پلاسٹک کی غیر ضمانتی
کرنسی تک انسانوں کو لے آنے والے اور سود کے مکروہ جال سے انسانیت کو شکار
کرنے والوں کی حقیقت سے انسانیت آگاہ ہو چکی ہے ۔افریقہ کے قحط،ایشیا کی
بدامنی اور امت مسلمہ کے خون کی ارزانی اب بہت جلد اپنا رنگ لانے والی ہے
کہ کفر سے تو حکومت رہ سکتی ہے لیکن ظلم سے نہیں رہ سکتی۔ |
|