راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(RSS)
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
(ہندودہشت گرد جتھہ) |
|
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
’’راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)‘‘ایک ہندوقوم پرست اورمذہبی
انتہاپسندتنظیم ہے۔یہ تنظیم بھارت کی مشہور سیاسی جماعت ’’بھارتیہ
جنتاپارٹی(BJP)‘‘کی جنم بھونی ہے۔’’راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)‘‘کاقیام27ستمبر
1925ء میں عمل میں آیا۔اس کے قیام کااولین مقصد ہندؤں کو مذہبی تعلیمات کی
بنیادپر تربیت دے کر ’’ہندوراشٹریہ‘‘یعنی ہندوملت بنانا مقصود تھا۔لیکن
رفتہ رفتہ یہ ایک ہندوقوم پرست جتھہ بن گیاجس نے ہندؤں کی تمام
جماعتوں،تنظیموں اور گروہوں کو اپنی نظریاتی آغوش میں بھرلیا۔’’راشٹریہ
سوائم سویک سنگھ (RSS)‘‘نے ہندوستان کی سرزمین پر رفاہی ادارے،تعلیمی ادارے
اور کلب بھی بنائے تاکہ ہندودھرم کی تبلیغ و اشاعت کرائی جاسکے۔اس تنظیم
کابانی انگریزکی عدالت کاایک سزایافتہ قیدی ’’کشوبالی رام ہجوار‘‘تھاجس نے
1921ء کے دوران کسی جرم میں ایک سال کی جیل کاٹی تھی۔’’ناگ پور‘‘نامی مشہور
شہر میں ’’راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)‘‘کی تاسیس ہوئی۔اس جتھے کے بانی
نے اگرچہ اصولی فیصلہ کیاکہ اس تنظیم کی کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں
ہوگالیکن پھر بھی مذہبی تعصب ان کو کانگریس کی حمایت میں کھینچ گیا۔1931ء
میں انگریز کی پولیس نے ایک بار پھر اس جتھے کے بانی کو گرفتارکیااور جیل
میں ڈال دیا۔یہ دوسری بار تھاجب اس تنظیم کابانی قید خانے کامستحق
گرداناگیا۔صرف بانی ہی نہیں اس جتھے کی نارواحرکتوں کے باعث انگریز کی
حکومت نے اس جتھے پر پابندیاں بھی لگائیں۔دوسری جنگ عظیم میں اس ہندوجتھے
نے کھل کرایڈوف ہٹلرکی حمایت کی اور اس کے نسل پرست رویے کو بہت
سراہا۔23مارچ1940ء کوجب لاہومیں قائداعظم ؒکی قیادت میں مسلمانان ہندوستان
فلسطین کے حق میں قراردادمنظورکررہے تھے تب ’’راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)‘‘نے
برملا اسرائیل کے قیام کی حمایت کی تھی اور یہودیوں کی نسل پرستی اور اپنی
زبان کے تعصب کوتہنیتی نظروں سے دیکھاتھا۔ان اقدامات سے اس ہندوانتہاپسند
جتھے کے عقائدوافکارکا بآسانی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔خود ہندوستان میں یہ
جتھہ اس قدرمتعصب تھا کہ مہاتماگاندھی جیسی شخصیت کی بھی مسلمان حمایت
پالیسی انہیں زہرآلود لگتی تھی۔
24جنوری1947ء کو پہلی مرتبہ ’’راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)‘‘پر پابندی
لگی اور اسے غیرقانونی جتھہ قراردے دیاگیا۔4فرروری1948ء کو دوسری باراس
جتھے پر پابندی لگی جب اس کے ایک رکن ’’نتھورام‘‘نے مہاتماگاندھی کاخون
کردیا۔بھارت کی آزادی کے بعد تو یہ جتھہ توبھارتی شہریوں کے لیے بے نتھابیل
ثابت ہوا۔بھارت میں ہر قتل و غارت گری اور تمام بڑے چھوٹے فسادات میں یہ
جتھہ سرغنہ کی حیثیت سے شامل رہا۔1969کو احمدآباد فسادات،1971کو تشیری
فساد،1979کو بہار کے جمشیدپور فرقہ ورانہ فسادات اورسمجھوتہ ایکسپریس سانحہ
تو وہ بڑے بڑے واقعات ہیں جن پر پورے عالم کی انگلیاں دانتوں تلے چلی
گئیں۔اس ہندو جتھے کاایک اور سیاہ ترین کارنامہ 6دسمبر1992کو بابری مسجد کی
شہادت ہے جب ’’راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)‘‘کے دہشت گردوں نے مسجد میں
داخل ہو کر اس مقدس عبادت گاہ کومنہدم کردیا۔ان کے علاوہ بم دھماکے،دیگر
مذہب کے ماننے والوں کی سرعام پٹائیاں اور گھروں میں گھس کر عزتوں کی
پامالی اور لوٹ مار تویہ جتھہ عین مذہبی عبادت سمجھ کر باقائدگی سے ادا
کرتارہتاہے۔مگرمچھ کے آنسؤں کے مصداق ہر بڑے واقعے کے بعدبھارتی حکومت نے
تحقیقاتی کمیٹیاں،عدالتی کمشن اور انکوائری کے ڈرامے رچائے لیکن کچھ ہی
عرصے بعد یہ جتھہ ان تمام جالوں سے ایسے نکل گیاجیسے مکھن سے بال
نکلتاہے۔بھارتی سیکولرازم کے دکھانے کے دانت اور چبانے کے دانت
کلیتاََمختلف ہیں۔دہلی سرکار کے کئی چہرے ہیں،عالمی دنیاکو دکھانے کے لیے
سیکولرچہرہ ہے،اپنے ہی ملک کے دیگر مذہب کو دکھانے کے لیے لبرل چہرہ ہے،عرب
ممالک سے تعلقات میں بھاتی حکومت اپنے ملک کے مسلمانوں کی پرنور داڑھیاں
آگے کردیتی ہے ،پڑوسی ممالک کے لیے بھارت نے ایٹمی ہتھیاروں کاچہرہ
تیارکررکھاہے جبکہ بھارتی حکومت کااصل چہرہ جس پرسے ساری دنیاکے سامنے سے
پردہ ہٹناچاہیے وہ ’’راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)‘‘کامکروہ چہرہ ہے۔
’’سرسنگھ چالک‘‘اس جتھہ کا سب سے بڑاگروہوتاہے اوراس کاچناؤ نامزدگی سے عمل
میں آتاہے۔اور ظاہر ہے ہندؤں میں برہمن ہی کے لیے یہ جگہ مقرر ہوسکتی ہے
اور کسی چھوٹی ذات کا ہندویہاں پہنچنے کاسوچ بھی کیسے سکتاہے۔جب کہ اسلام
کا پہلا موذن جس رنگ،علاقے اورقبیلے سے تھا اسے ساری دنیاجانتی ہے۔اب تک
متعدد سرسنگھ چالک ہو گزرے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ادوار میں غیرہندواقوام
اور نیچ ذات کے ہندؤں کے خلاف ایک دوسرے سے بڑھ کراپنے دھرم کازہر
گھولااوران کی جان ،مال،عزت اور آبرو پر سنگین وار کیے۔’’راشٹریہ سوائم
سویک سنگھ (RSS)‘‘کی مقامی شاخ کو’’شاخا‘‘کہتے ہیں،جتھے کایہ سب سے
چھوٹاحصہ ہوتاہے۔جوہندوبھی اس جتھے میں شامل ہوکر قتل و غارت گری اور لوٹ
مارکرناچاہے وہ سب سے پہلے اپنے مقامی ’’شاخا‘‘میں داخل
ہوتاہے۔’’شاخا‘‘اپنے اپنے علاقے میں کسی عوامی جگہ پر ایک گھنٹے کے لیے
اکٹھے ہوتے ہیں جہاں انہیں ’’یوگا‘‘کی مشقیں کرائی جاتی ہیں جو ہندومت میں
جسمانی عبادت کا درجہ رکھتی ہیں۔اگریہ جسمانی مشقیں کسی اسلامی مدرسے میں
کرائی جائیں توانہیں عالمی برادری دہشت گردی کی تربیت کہتی ہے اور ان پر
ہوائی جہازسے بم بھی برسائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ جسمانی صحت کے لیے
’’شاخا‘‘کے تحت کھیلوں کے مقابلے بھی کرائے جاتے ہیں۔ذہنی تربیت کے لیے
انہیں وطن سے محبت،مذہبی شعائراور عقائد کی تعلیمات سے بھی روشناس
کرایاجاتاہے۔اگریہی کام کسی مسلمان معاشرے میں ہواسے سیکولراورلبرل
’’دانشور‘‘برین واشنگ کے نام سے موسوم کرتے ہیں یعنی نوجوانوں کو ذہنی
وفکری طورپر گمراہ کیاجاتاہے۔’’راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)‘‘کی فکری
پہنچ اس جتھے کے دوسرے سرسنکھ چالک جسے عرف عام میں ’’شری گروجی‘‘کہتے ہیں
اور اس کااصل نام’’ایم ایس گولوالکر‘‘تھانے ان الفاظ میں بیان کی ہے(The
non-Hindu people of Hindustan must either adopt Hindu culture and
languages, must learn and respect and hold in reverence the Hindu
religion, must entertain no idea but of those of glorification of the
Hindu race and culture...in a word they must cease to be foreigners; Or
may stay in the country, wholly subordinated to the Hindu nation,
claiming nothing, deserving no privileges, far less any preferential
treatment— not even citizens' rights—M. S. Golwalkar)
’’ہندوستان کے غیرہندؤں کو لازمی طورپر ہندوتہذیب اور ہندوزبان
اختیارکرناہوگی،انہیں ہندومذہب کااحترام کرناہوگابلکہ اس کے اندر رہ کر
زندگی گزارناہوگی۔غیرہندؤں کو جھک کررہناہوگااور انہیں ملکی ہوتے ہوئے بھی
غیرملکی تصورکیاجائے گااوران کوکسی طرح کی مراعات حاصل نہ ہوں گی حتی کہ
شہری حقوق بھی انہیں میسر نہیں ہوں گے‘‘۔بحوالہ:(Guha, Ramachandra (2008).
India After Gandhi: The History of the World's Largest Democracy. Pan
Macmillan. p. 19. ISBN 9780330396110.)
ننگ انسانیت کردادوافکارکاحامل یہ جتھہ جس نے بھارت میں مخلوق
خداکاجینادوبھرکیاہواہے پوری دنیاکی نظروں سے دانستہ اوجھل ہے،حتی کی وطن
عزیزکے سیکولراورلبرل طبقے اور موم بتی مافیاکی آنٹیاں بھی اس جتھے سے
مجرمانہ آنکھ چراکر دوقومی نظریے کاانکار کرتی ہیں۔بھارت کی تمام سیاسی
جماعتیں اور حکومتیں اسی جتھے کی آشیربادسے حکومت کرپاتی ہیں اور بھارتی
سیاستدان حزب اقتدارمیں ہوں یاحزب اختلاف میں ،اس جتھے کی ناراضگی مول لینے
کے متحمل نہیں ہو سکتے۔بھارت میں مشرق سے مغرب تک ایک عام بے چینی کاماحول
ہے اور ہندو انتہاپسند دہشت گرد تنظیمیں ہوٹلوں اورکلبوں سے عورتوں کو نکال
نکال کر اس جرم کی سزادیتی ہیں کہ وہ کسی غیر مذہب کے ساتھ یا نیچ ذات کے
ہندوکے ساتھ محورقص تھیں یاایک ہی برتن میں کھانا کھارہی تھیں۔لیکن افسوس
کہ ’’راشٹریہ سوائم سویک سنگھ (RSS)‘‘کایہ چہرہ کسی فلم ساز کو نظر نہیں
آتااور نہ اس پر بننے والی فلموں کوکوئی عالمی انعام دیاجاتاہے۔یہ تنظیمیں
ببانگ دہل اعلان کرتی ہیں کہ کسی ادارے نے کسی غیرمذہب یانیچ ذات کے
ہندوکوملازمت دی تو ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی اور نتیجہ یہ کہ
بہترین تعلیمی نتائج کے حامل عام نوجوان سڑکوں پر دھکے کھاتے رہتے ہیں اور
برہمن کانکمہ اورنالائق بیٹااپنی نسلی تفوق کی بنیادپر اونچے مناصب تک
جاپہنچتاہے۔جب محروم طبقہ اگربغاوت پر آمادہ ہوتو بھارتی فوج گولڈن ٹمپل
امرتسراورکشمیر کی تاریخ دہرانے بھارت کے کے ہر کونے میں جاپہچتی
ہے۔ہندوستان میں جب سے مسلمانوں کااقتدارختم ہوا ہے بدیسی راج سے برہمن راج
تک انسانیت سسک سسک کر جی رہی ہے ۔لیکن حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے اور
وقت بہت جلد کروٹیں بدلتاہے۔ اب تاریخ ایک بارپھر ہندوستان کوپانی پت کی
تیسری جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے جس کے بعد وارثان دہلی اپناحق وراثت
ضرورحاصل کرپائیں گے،انشااﷲتعالی۔ |
|