رفاہ یونیورسٹی میں طالبات سے خطاب اورمیڈیاسے گفتگوکرتے
ہوئے قومی احتساب بیوروکی ڈائریکٹرجنرل عالیہ رشیدنے کہا ہے کہ گھرکے
سربراہ سے اہل خانہ کی بڑھتی ہوئی فرمائشوں کے باعث کرپشن کوفروغ
ملتاہے۔کرپشن پاکستان کوکینسرکی طرح کھارہی ہے۔پاکستانی نوجوان دنیابھرمیں
کرپشن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوارثابت ہوں گے۔کرپشن کی روک تھام کے لیے
حج، ادویات،ڈرگ انسٹرومنٹس،ہاؤسنگ سوسائٹیوں،محکمہ ٹیکس، پی آئی ڈی
،ریلوے،سپورٹس بورڈ میں پریونشن کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں۔پاکستان
دنیاکاواحدملک ہے جس نے سے نوٹوکرپشن کاسلوگن دیا۔ڈائریکٹرجنرل نیب
کاکہناتھا کہ خواتین شادی سے پہلے ہی دن اپنے شوہرسے نوٹوکرپشن کاوعدہ
لازمی لیں۔انہوں نے کہا نوجوان ملک کامستقبل ہیں۔ان کوسچائی اوردیانتداری
کاچمپئن بننے کاپیغام دیناہے۔
ابھی تک توسب کی توجہ اس بات پرتھی کہ کرپشن کوکیسے ختم کیاجائے۔اس کرپشن
کوختم کرنے کے لیے ہرحکومت نے نعرہ لگایا۔احتساب کے ادارے قائم کیے ۔
مقدمات بنے، گرفتاریاں ہوئیں،نتیجہ کیانکلا یہ سب جانتے ہیں۔کرپشن ختم کرنے
کے اقدامات سے کرپشن ختم ہوئی یانہیں یہ بھی کوئی رازکی بات نہیں ہے۔جب آپ
ڈاکٹرکے پاس علاج کرانے جاتے ہیں توہ مرض کی تشخیص کرنے کے بعددوائی تودے
دیتا ہے ۔ بعض اوقات ڈاکٹرمریض یااس کے ساتھ آنے والے افراد سے پوچھتے ہیں
کہ رات کوکیاکھایاتھا۔ڈاکٹررات کے کھانے کے متعلق کیوں سوال کرتے ہیں۔کیاوہ
یہ دیکھناچاہتے ہیں کہ مریض کھانے میں کیاکیاپسندکرتاہے، کیاوہ یہ جاننے کی
کوشش کرتے ہیں کہ مریض کی مالی حالت کیاہے ،وہ کھانے کیسے کیسے
کھاتاہے،کیاڈاکٹرمریض کی یادداشت چیک کرناچاہتاہے کہ اسے کچھ یاد بھی رہتا
ہے یابھول جاتا ہے، ایسی کوئی بات نہیں ڈاکٹررات کے کھانے کے بارے میں اس
لیے پوچھتا ہے کہ تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ مریض اس مرض میں کیوں
مبتلاہوا۔آسان الفاظ میں یہ بات یوں سمجھ لیں کہ ڈاکٹرمریض سے یہ پوچھ کرکہ
رات کوکیاکھایاتھا یہ تحقیق کرتا ہے کہ مرض کی وجہ کیاہے۔کیوں کہ کسی بھی
مرض کوختم کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جس وجہ سے یہ مرض ہوااس کابھی
خاتمہ کیاجائے۔اس لیے علاج کے ساتھ ساتھ پرہیزبھی ضروری ہوتاہے۔یہ تو
تھاانسانی امراض کے بارے میں مختصر تبصرہ۔ اب انسانی اورجسمانی امراض کے
ساتھ ساتھ قومی امراض بھی ہوتے ہیں۔ان قومی امراض میں سے ایک مرض کرپشن بھی
ہے۔ کرپشن کے مرض کوختم کرنے کی کوشش توکی جارہی ہے ۔کرپشن کے مرض کوختم
کرنے کے اقدامات کودیکھ کریہ فیصلہ کرنامشکل ہورہا ہے کہ مرض کوختم کرنے کی
کوشش کی جارہی ہے یااس مرض کے مریضوں کو۔ابھی تک کسی نے اس بات پرتوجہ نہیں
دی تھی کہ کرپشن کامرض کیوں ہوتاہے۔جیساکہ اس تحریر میں آپ پڑھ آئے ہیں کہ
مرض کوختم کرنے کے لیے ضروری ہوتاہے کہ اس کی وجوہات کوختم کیاجائے۔اب
کرپشن کے مرض کوبھی ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی وجوہات کوختم
کیاجائے۔جب تک مرض کی وجوہات کوختم نہ کیاجائے تب تک مرض کوختم کرنے کی
کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔اسی طرح کرپشن کا مرض بھی اس وقت تک ختم نہیں
ہوسکتا جب تک اس کی وجوہات کوختم نہ کرلیاجائے۔یہ بات توہمارے علم میںآچکی
ہے کہ کرپشن کے مرض کوختم کرنے کے لیے اس کی وجوہات کوختم کرناضروری ہے،اب
سوال یہ سامنے آتاہے کہ کرپشن کی وجوہات ہیں کیا۔کیوں کہ جب تک ہمیں یہ
معلوم نہیں ہوجائے گاکہ کرپشن کے مرض کی وجوہات کیاہیں توان وجوہات کوکیسے
ختم کیاجاسکے گا۔اس الجھن کو قومی احتساب بیوروکی ڈائریکٹرجنرل عالیہ
رشیدنے حل کردیا ہے۔ انہوں نے بتادیا ہے کہ کرپشن کیوں ہوتی ہے۔ان کاکہناہے
کہ گھرکے سربراہ سے اہل خانہ کی بڑھتی ہوئی فرمائشوں کے باعث کرپشن کوفروغ
ملتاہے۔گویاکرپشن کامرض گھرکے سربراہ سے اہل خانہ کی طرف سے کی جانے والی
فرمائشوں کی وجہ سے پھیلتاہے۔قومی احتساب بیوروکی ڈائریکٹرجنرل کہناچاہتی
ہیں کہ گھروالے گھرکے سربراہ سے آئے روزفرمائیشیں کرتے رہتے ہیں۔گھروالے یہ
نہیں دیکھتے کہ گھرکے سربراہ کی آمدنی کیاہے۔وہ توکہتے ہیں کہ جیسے بھی
ہوہماری فرمائش پوری کی جائے ۔گھرکے سربراہ سے نئی نئی موٹرسائیکلیں،
کاریں، زیورات، نیاگھربنانے، گھرکومزیدخوبصورت اورجدیدبنانے کی فرمائشیں
اکثرہوتی ہیں۔یہ وہ تمام فرمائشیں ہیں جوکسی بھی گھرکاسربراہ اپنی
جائزآمدنی میں پوری نہیں کرسکتا۔گھروالوں کی فرمائشوں کوپوراکرنے کے لیے
اسے کرپشن کرناپڑتی ہے۔ قومی احتساب بیوروکی ڈائریکٹرل جنرل کی طرف سے
بتائی گئی کرپشن کی اس وجہ میں اس کاعلاج بھی موجودہے وہ یہ ہے کہ گھروالے
گھرکے سربراہ سے آمدنی کے تناسب سے زیادہ فرمائشیں نہ کریں توکوئی بھی
کرپشن نہیں کرے گا۔اس بات کودرست مان لیاجائے کہ گھرکے سربراہ سے اہل خانہ
کی فرمائشوں کی وجہ سے کرپشن کوفروغ ملتا ہے تو کرپشن میں ملوث تمام
افرادشادی شدہ ہونے چاہییں۔اس لیے اب اس بات کی تحقیق ضروری ہوگئی ہے کہ
کرپشن میں ملوث تمام افرادشادی شدہ ہی ہیں یاان میں کوئی غیرشادی شدہ بھی
ہے۔یہ بات تواب نیب ہی بتاسکتاہے کہ کرپشن کے مریضوں میں سے کتنے شادی شدہ
ہیں اورکتنے غیرشادی شدہ۔گھرکے سربراہ سے اہل خانہ کی فرمائشوں کی وجہ سے
ہی کرپشن کوفروغ ملتاہے توکرپشن کے مرض میں مبتلاایسے افرادہونے چاہییں جن
کی تنخواہیںیاآمدنی محدودہے۔کرپشن میں ایسے افرادملوث ہونے چاہییں جن کی
تنخواہیں یاماہانہ آمدنی تیس ہزارروپے ماہانہ سے زیادہ نہیں ہے۔کیوں کہ کم
آمدنی والے گھرکے سربراہ ہی جائزآمدنی میں اہل خانہ کی فرمائشیں پوری نہیں
کرسکتے اس لیے انہیں کرپشن کرناپڑتی ہے۔اس لیے اس بات کی تحقیق بھی ضروری
ہے کہ کرپشن میں ملوث افرادکی کم سے کم آمدنی کیاہے۔یہ بات بھی نیب والے ہی
بتاسکتے ہیں ۔کرپشن میں ملوث افرادکے بارے میں شائع شدہ خبروں کے مطابق اس
مرض میں توایسے ایسے افرادملوث بتائے گئے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی ہزاروں
نہیں لاکھوں ،کروڑوں میں ہے۔گھرکے جن سربراہوں کی ماہانہ آمدنی لاکھوں
اورکروڑوں میں ہواس کے لیے اہل خانہ کی فرمائشوں کوپوراکرنامشکل نہیں
ہوتا۔ویسے جتنے لوگ کرپشن میں ملوث ہیںیاکرپشن کے الزامات کی زدمیں ہیں ان
سے یہ سوال بھی پوچھ لیناچاہیے کہ ان سے اہل خانہ کیاکیافرمائشیں کرتے ہیں۔
عالیہ رشیدکاکہنا ہے کہ کرپشن پاکستان کوکینسرکی طرح کھارہی ہے۔کرپشن
پاکستان کوکینسرکی طرح کھارہی ہے یاکرپشن کرنے والے کھارہے ہیں۔قومی احتساب
بیورو کی ڈائریکٹر جنرل یہ بات کس کوبتارہی ہیں۔کینسرکی طرح پھیلتے ہوئے
کرپشن کے مرض کوختم کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے۔ویسے توانہوں نے کرپشن کی
ذمہ داری اہل خانہ پرڈال دی ہے۔ قومی احتساب بیوروکی ڈاریکٹرجنرل کے اس
انکشاف میں ایک اعتراف بھی موجودہے وہ یہ ہے کہ جس طرح کینسرکے مرض کاعلاج
نہیں ، اسی طرح کرپشن کے مرض کابھی کوئی علاج نہیں، جس طرح کینسرکامریض صحت
یاب نہیں ہوتا، اسی طرح کرپشن کامریض بھی صحت یاب نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ملک
میں کینسرکے مرض کاعلاج کرنے کے لیے ہسپتالوں کی شدیدکمی ہے ، اسی طرح
کرپشن کاعلاج کرنے والے اداروں کی بھی شدیدکمی ہے، جس طرح کینسرکاعلاج بہت
مہنگااورمشکل ترین ہے ، اسی طرح کرپشن کاعلاج بھی بہت مہنگااورمشکل ترین
ہے،جس طرح کینسرکے مرض کوختم کرناآسان نہیں اسی طرح کرپشن کے مرض کوبھی ختم
کرناآسان نہیں۔ اس انکشاف میں یہ اعتراف بھی ہے کہ کرپشن کوختم کرناہمارے
بس کی بات نہیں ہے۔ان کاکہنا ہے کہ پاکستانی نوجوان دنیابھرمیں کرپشن کے
خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوارثابت ہوں گے۔دنیابھرمیں توبعدمیں نوجوان کرپشن
کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوارثابت ہوں گے ابھی اس دیوارکی پاکستان میں
اشدضرورت ہے۔انہوں نے یہ تونہیں بتایا کہ ان نوجوانوں کوسیسہ پلائی ہوئی
دیوارکیسے بنایاجائے گا۔کرپشن کامرض اقتدارواختیارملنے پرہی نہیں ہوجاتا۔جس
کاجب بھی بس چلتا ہے وہ کرپشن کرنے کے موقع کوہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ان
کایہ بھی کہنا ہے کہ ۔کرپشن کی روک تھام کے لیے حج، ادویات،ڈرگ
انسٹرومنٹس،ہاؤسنگ سوسائٹیوں،محکمہ ٹیکس، پی آئی ڈی ،ریلوے،سپورٹس بورڈ میں
پریونشن کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں۔ جن محکموں میں یہ کمیٹیاں بنائی گئی
ہیں کیاکرپشن صرف ان ہی محکموں میں پائی جاتی ہے۔ کیاان محکموں کے علاوہ
کسی اور محکمہ میں کرپشن نہیں ہورہی۔جواب ہاں میں ہے تویہ کہناپڑے گا کہ
کرپشن صرف چندمحکموں میں ہے پورے ملک میں نہیں ۔جواب نفی میں ہے تویہ
پریونشن کمیٹیاں اورمحکموں میں کیوں نہیں بنائی گئی ہیں۔یہ بھی نہیں
بتایاگیا کہ ان کمیٹیوں میں کون کون شامل ہے۔ قومی احتساب بیوروکی
ڈائریکٹرجنرل کایہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان دنیاکاواحدملک ہے جس نے سے
نوٹوکرپشن کاسلوگن دیا۔چلویہ تواچھی بات ہے کہ سے نوٹوکرپشن کاسلوگن دیاگیا
ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیااس سلوگن سے کرپشن کامرض ختم ہوجائے گا۔صرف
سلوگن سے ہی کسی مرض کاخاتمہ ہوتا تواب تک کئی امراض ختم ہوچکے ہوتے۔سگریٹ
کی ڈبیوں پر لکھا ہو ا ہوتا ہے کہ خبردارسگریٹ نوشی مضرصحت ہے۔کتنے سگریٹ
پینے والے ایسے ہیں جواس سلوگن کوپڑھتے ہیں۔کتنے سگریٹ نوش ایسے ہیں جنہوں
نے اس سلوگن کوپڑھ کر سگریٹ پینے سے توبہ کرلی ہے۔کبھی سگریٹ کی ڈبیوں پر
یہ سلوگن لکھاہواہوتاتھا کہ خبردارسگریٹ نوشی کینسر کاباعث ہے۔کتنے لوگوں
نے یہ سلوگن پڑھ کر سگریٹ پیناچھوڑدی ہے۔کتنے ہی ایسے سرکاری دفاتر
اورادارے ایسے ہیں جہاں یہ لکھاہواہے کہ رشوت لینے والااوردینے والادونوں
جہنمی ہیں۔کیاجس کمرہ یاجس دفترمیں یہ تحریرآویزاں ہے کیاوہاں رشوت کالین
دین نہیں ہوتا۔ ڈائریکٹرجنرل نیب کاکہناتھا کہ خواتین شادی سے پہلے ہی دن
اپنے شوہرسے نوٹوکرپشن کاوعدہ لازمی لیں۔عالیہ رشیدنے کرپشن ختم کرنے
کاکیاہی نسخہ بتایا ہے کہ شادی کی پہلی رات خواتین اپنے شوہرسے کرپشن نہ
کرنے کاوعدہ لیں۔ڈائریکٹرجنرل نیب نے خواتین کویہ مشورہ تودے دیا ہے کہ وہ
سہاگ رات کواپنے شوہرسے کرپشن نہ کرنے کاوعدہ لیں ۔انہیں خواتین کویہ مشورہ
بھی دیناچاہیے تھا کہ وہ اپنے شوہروں سے ان کی آمدنی کے تناسب سے زیادہ
فرمائشیں نہ کریں۔انہیں خواتین کویہ مشورہ بھی دیناچاہیے تھا کہ وہ اپنے
خاوندوں سے اتنی فرمائشیں نہ کریں کہ ان کی آمدنی تمہاری فرمائشوں پرہی خرچ
ہوجائے۔جب خواتین اپنے شوہروں سے کرپشن نہ کرنے کاوعدہ لیں توآمدنی کے
تناسب سے زیادہ فرمائشیں اورکسی بھی فرمائش پرمجبورنہ کرنے کاوعدہ بھی
کریں۔انہوں نے کہا نوجوان ملک کامستقبل ہیں۔ان کوسچائی اوردیانتداری
کاچمپئن بننے کاپیغام دیناہے۔
جیساکہ اس تحریرمیں آپ پڑھ آئے ہیں کہ مرض کوختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ
اس کی وجوہات کوختم کیاجائے ،کسی بھی مرض کی وجوہات کوختم کرنے کے لیے یہ
جانناضروری ہوتا ہے کہ اس کی وجوہات کیاہیں۔اسی طرح کرپشن کے مرض کوختم
کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی وجوہات پرتحقیق کی جائے۔کرپشن کوختم کرنے کے
لیے اس کی وجوہات کوختم کرناضروری ہے۔ہم اپنی نئی نسل کوکرپشن کے مرج سے
بچاناچاہتے ہیں توہمیں اپنی نئی نسل میں کرپشن سے نفرت پیدا کرناہوگی۔ہمیں
نئی نسل کوبتاناہوگا کہ کرپشن کرنے کے کیاکیانقصانات ہیں۔ ہمیں نئی نسل کے
سامنے یہ بھی ثابت کرناہوگا کہ ایمانداری کے کیافائدے ہیں۔ ہمیں تعلیمی
نصاب اورغیرنصابی سرگرمیوں میں کرپشن سے نفرت شامل کرناہوگی۔کرپشن کوختم
کرنے کے لیے بلاامتیازاحتساب بھی ضروری ہے۔جس کے بارے میں ٹھوس شواہدسے یہ
ثابت ہوجائے کہ یہ کرپشن میں ملوث ہے تواس سے کوئی رعایت نہیں ہونی
چاہیے۔کرپشن کے جرم میں ملوث افرادکوایسی سخت سزائیں دی جائیں کہ ان سزاؤں
کودیکھ کرکرپشن کرنے سے ایسے گھبرائیں جیسے آگ میں کودنے سے گھبراتے
ہیں۔تمام سیاسی جماعتیں ، محکمے اورادارے کرپشن میں ملوث افرادسے لاتعلقی
کااعلان کریں۔کرپشن میں ملوث افرادکاسوشل بائیکاٹ کیاجائے۔ |