وہ وقت جب دنیا کو ملکوں اور علاقوں میں تقسیم کیا
جارہا تھا دنیا کے نقشے کو تبدیل کیا جارہا تھا۔ تو ہر محکوم اپنی لسانیت
اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم چاہ رہی تھی کسی کو آزادی کے لیے مذہب کے
سہارے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن 25دسمبر1876ء کو پونچا جناح کے گھر جنم لینے
والے، انگریزوں سے پڑھنے والے، انگریزی بولنے والے محمد علی جناح نے نعرہ
بلند کیا کہ ہم ایسا ملک بنائیں گے جس کی بنیاد لاالہ الا اﷲ ہوگی۔ علامہ
محمد اقبالؒنے اس ملک کا خواب دیکھا اور محمد علی جناحؒ کی قیادت میں دیگر
مسلم قائدین کی ان تھک محنتوں کے بعد اﷲ نے وہ دن دنیا کو دیکھایا جب دنیا
کے نقشہ پر ایک ایسا ملک ابھرا جس کی بنیاد خالصتاً کلمہ طیبہ تھی۔ جس کے
آئین کے بارے بانی پاکستان کا بڑا واضح موقف تھا کہ ’’پاکستان کا دستور
بنانے والا میں کون ہوتا ہوں پاکستان کا دستور تو تیرہ سو سال قبل ہی بن
گیا تھا‘‘ لیکن ملک کو بنانے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ ملک کو چلانا تھا۔
قائد اعظم پہلے گورنر جنرل بنے اپنی بیماری لوگوں پر عیاں نہ ہونے دی اور
بالآخر یہ عظیم قائد دنیا سے رخصت ہوئے اور ملک کی باگ دوڑ لیاقت علی خان
کے ہاتھوں میں آگئی۔ جن کو میونسپل پارک (موجودہ لیاقت باغ) راولپنڈی، جلسہ
عام میں شہید کردیا گیا۔
ملک خداداد کو بنانے کے لیے بے شمار قربانیاں دیں گئیں۔ لوگوں کے گھر اجڑ
گئے، دختران اسلام نے اپنی عصمت بچانے کے لیے اپنی شہ رگیں کاٹیں، دریا میں
کود گئیں تب جا کر ہمیں یہ وطن ملا۔ اس امید پر کہ ایسا وطن جس میں خالص اﷲ
اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دین کے مطابق قوانین ہوں گے۔ جن
کی بجاآوری کرتے ہوئے ہم زندگی بسر کریں گے لیکن ۔۔۔۔۔ ان حسرتوں سے کہہ
دو کہیں اور جا بسیں‘‘
یہاں ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘، ’’ملک میں اسلامی نظام‘‘، ’’اپنا روزگار‘‘ ،
نیا پاکستان‘‘ ’’انقلاب‘‘ ، ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ وغیرہ کے نعرہ لگائے
گئے لیکن آج تک اس قوم کو حاصل کچھ نہ ہوا۔ ملک میں امیر، امیر سے امیر تک
اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتا چلا گیا۔ کہیں صاحب اقتدار اپنے اقتدار کو
بچانے کے لیے ملک کے دوحصے کرتے ہیں تو کہیں اپنا بدلہ لینے کے لیے ہوا میں
مروا دیا جاتا ہے۔ کہیں ملک کو بے یارومددگار چھوڑ کر اندھیرے میں معاہدے
کرکے ملک چھوڑ دیا جاتا ہے تو کہیں سیاست چمکانے کے لیے قسمیں کھائی جاتی
ہیں۔ کبھی چوکوں، چوراہوں پہ لٹکانے کی بات ہوتی ہے تو کبھی پیٹ چاک کرنے
کی بات ہوتی ہے۔ کبھی ملک خزانہ باہر سے ملک میں لانے کی بات ہوتی ہے۔
ملک کا حال یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی بھوکا ہے۔ کوئی اقتدار کا بھوکا، تو کوئی
شہرت کا بھوکا، کوئی دولت کا پرستار تو کوئی پیٹ کا بھوکا، کہیں روزگار کا
بھوکا تو کہیں طاقت کا بھوکا، کوئی پینشن نہ ملنے کی وجہ سے خود سوزی کررہا
ہے تو کوئی عصمت لٹ جانے کی وجہ سے دریا میں کود رہا ہے۔ کہیں وزیراعظم کی
کھلی کچہری میں کوئی خود سوزی کررہا ہے ، گھر میں چولہا جلانے کے لیے آٹھ
سالہ بیٹی دلالوں کے حوالے کی جاتی ہے۔ اک طرف امیر کی عیاشیاں ہیں تو
دوسری طرف غریب کی خود کشیاں ہیں۔ مائیں اپنے حمل اور باپ اپنے ہاتھوں سے
اپنی نسلیں ختم کررہے ہیں۔ ملک کو ایٹمی پاور بنانے والا عبدالقدیر خان گھر
میں ہی نظر بند ہے تو عافیہ صدیقی کو اغیار کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔ کہیں
فیکٹری میں کام کرتے مزدوروں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ ملک میں دہشتگردی
اور لاقانونیت عام نظر آتی ہے۔ملک کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ صرف
آئین کے اوراق میں نظر آتا ہے۔ کراچی میں امن لانے کے لیے اسے رینجر کے
حوالے کیا جاتا ہے تو چھوٹو گینگ کو مارنے کے لیے بھی آرمی کو بلایا جاتا
ہے۔ اعلیٰ عہدہ پر فائز ہوکر گستاخ رسول کی حمایت کرنے والا استثنیٰ مانگتا
ہے ۔معاشرے کی جڑوں میں تیزاب کی طرح پھیلی ہوئی کرپشن اپنی آخری حدود سے
بھی تجاوز کرچکی ہے۔ آئین پاکستان میں جن کو اقلیت قرار دیا جاچکا حکمران
انہیں اپنا بھائی کہتے ہیں اور دیوالی میں جاکر دیوالی مناتے ہیں۔ جائز کام
بھی بغیر دام کے نہیں ہوتا۔ اقتدار گنتی کے چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے
کبھی اس کی باری تو کبھی اُس کی باری۔ کبھی مساجد میں دھماکے ہوتے ہیں تو
کبھی مدارس میں۔ کبھی امام بارگاہوں کو خون آلود کیا جاتا ہے تو کبھی
بازاروں میں خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ کبھی علم کے متلاشی معصوم بچوں کو
شہید کیا جاتا ہے تو کبھی اندھوں پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں۔ کہیں حق مانگنے
پر حاملہ نرس کو مال روڈ پر مار دیا جاتا ہے تو کبھی رات کے اندھیرے میں
اپنے شہریوں کا قتل عام کروایا جاتا ہے۔ کبھی ریمنڈ ڈیوس کو آزاد کردیا
جاتا ہے تو کبھی غدار وطن شکیل آفریدی کو معافی دی جاتی ہے۔ حوس کے پجاری
سیاہ راتوں میں سفید جسموں کا جیون سیاہ کرتے ہیں۔ دہشتگردوں کے خاتمے کے
لیے ضرب عضب شروع کیا جاتا ہے تو کچھ لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ دہشتگردوں
کو پھانسی دینے کی باری آتی ہے تو اسلام کے نام پر سیاست کرنے والے تحفظات
کا ذکر کرتے ہیں۔ ضرب عضب کی کامیابی دنیا کو دکھائی جاتی ہے اور کہا جاتا
ہے کہ دہشتگردوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے لیکن ساتھ ہی ایک ہفتہ میں پانچ
پانچ دھماکے کیے جاتے ہیں۔ مدارس دینیہ کو نیشنل ایکشن پلان کے تحت چیک کیا
جاتا ہے لیکن یونیورسٹیوں میں لسانیت کے نام پر ہونے والے جھگڑوں کو نظر
انداز کیا جاتا ہے۔ ملک میں کرکٹ کو بحال کرنے کے لیے مساجد کو تالے لگائے
جاتے ہیں۔ ایک طرف ٹارگٹ کلنگ ہے تو دوسری طرف صاحبان اقتدار اپنے اقتدار
کو بچانے کے لیے حیلے کرتے ہیں۔ ایک طرف پنجاب پانی میں ڈوب رہا ہوتا ہے
دوسری طرف تھر میں لوگ پانی کو ترس رہے ہوتے ہیں۔آزادی اظہار رائے کے نام
پر سوشل میڈیا پر کائنات کی سب سے عظیم ہستیوں کی توہین کی جاتی ہے حکومت
کی طرف سے ان بلاگرز کے خلاف کوئی قابل تحسین عمل تو نظر نہیں آتا البتہ
اپنے سیاسی قائد کی توہین کے خلاف پریس کانفرنسز کی جاتی ہیں۔ میڈیا جس کا
کام لوگوں تک حقائق کو پہنچانا تھا غیر مہذب اخلاقیات سے لوگوں کی سوچ کو
بدلنے کی کوشش میں مصروف عمل نظر آتا ہے۔ علماء جہاں عوام کو امن اور
اخلاقیات کا درس دیتے تھے وہاں ان ایک گروہ برسرمنبر بے ہودہ زبان استعمال
کرتے نظر آتا ہے۔
جب بھی کوئی بات ایوان بالا تک پہنچتی ہے اس کے لیے کمیشن بنادیا جاتا ہے۔
کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جاتی۔ ملک کی دختر بینظیر کو
راولپنڈی میں مار دیا جاتا ہے آج تک اس کے قاتل سامنے نہیں لائے گئے۔ قحط
الرجال بڑھتا جارہا ہے۔ ملک زوال کی آخری دیوار کے ساتھ لگا ہے۔ انصاف بکتا
ہے تو کہیں ظلم بکتا ہے۔ انسانی اقدار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہرحکومت عوام
کو لائن میں دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ کبھی حصول انصاف کے لیے ، کبھی پینشن کے
لیے لائن، کبھی پٹرول کے لیے لائن، صدارت، وزارت اور عمارت کے بھوکے غریب
عوام کو مسل رہے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر سوال ذہن میں آتا ہے کیا اس لیے یہ
ملک بنایا گیا تھا؟کیا اس لیے ملک بنایا تھا کہ حکمراں مرسیڈیز میں ہزاروں
افراد کی سیکورٹی لے کر گومیں اور عوام کو پاؤں میں پہننے کے لیے جوتا نہ
ملے۔ کھانے کے لیے روٹی نہ ملے۔ عوام لائنوں میں کھڑی رہے حکمران اپنی
نااہلی تسلیم کرنے کی بجائے عوام کو ہی فقیر کہہ دیں۔
عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کر زخم نمک سے مساج کرتے ہیں
کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیا گیا یہ وطن تب ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا جب
لاقانونیت کا خاتمہ ہوجائے۔ قربت پروری کی بجائے میرٹ کی بات کیا جائے۔ بے
روزگاروں کو روزگار دیا جائے، تعلیم یافتہ کو ریڑھی نہیں نوکری دی جائے،
عدل کے معیار کو بہتر بنایا جائے، اس بوڑھے کو سہارا دیا جائے جس کے بیٹے
نے خود سوزی کی۔ اس عورت کے آنسو پونچھے جائیں جس کی بیٹی جاگیردار کی ہوس
کا نشانہ بنی، اس بچے سے پیار کیا جائے جس کا والد ملکی استحکام کی
خاطرشہید ہوگیا، جس کا کوئی عزیز بم دھماکے میں شہید ہوگیا اس کا سہارا
بناجائے، عوام اور اقتدار کو دو مختلف قوتوں کی بجائے ایک قوت بنائی جائے
اور مخصوص ہاتھوں سے اقتدار کا ناجائز قبضہ چھروا کر عوام کو واپس دلوایا
جائے تاکہ قائداعظم محمد علی جناح کا وہ پاکستان بن سکے جس کے بارے میں
انہوں نے اکتوبر 1939میں بتلایا تھا ’’مسلمانو! میں نے دنیا میں بہت کچھ
دیکھا، دولت، شہرت اور عیش وعشرت کے بہت لطف اٹھائے اب میری زندگی کی واحد
تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں، میں چاہتا ہوں کہ جب
مروں تو یہ اطمینان اور یقین لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی
دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی۔ |