آبادیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، شہر جنگلوں میں گھستے
جارہے ہیں۔ اورمتواتریہ خبریں بھی موصول ہورہی ہیں کہ خوفناک جنگلی درندے
آبادیوں میں آکر انسانوں پر حملے کرتے ہیں ،خون بہاتے ہیں اور انہیںہضم
بھی کرجاتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح سیکولر اور جمہوری ڈھانچوں پر فاشسٹوںکے
نوکیلے دانت اترتے جارہے ہیں ۔یوپی میں آدتیہ ناتھ یوگی کی حکومت فی الوقت
یہی منظر نامہ پیش کررہی ہے ۔وہاں سے آنے والی مسلسل خبریں یہی بتارہی ہیں
کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیلئے عرصہ ٔ حیات تنگ کرنے کی کوششیں عروج پر
ہیں ۔ یوگی حکومت کو ابھی ہفتہ دس دن ہی ہوئے ہیں لیکن اتنے ہی دنوں میں
ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ وہاں قانون کی حکمرانی نہیں جنگل راج کا آغاز
ہوگیا ہے ۔ فرقہ پرستوں کی ٹولیاں پھر سرگرم ہوگئی ہیں اور ایک سے بڑھ کر
ایک اشتعال انگیز بیانات کا لامتناہی سلسلہ چل پڑا ہے ۔وشو ہندو پریشد کے
صدر پروین توگڑیاجو اپنے اشتعال انگیز اور انتہا ئی نفرت آمیز بیانات
کیلئے مشہور ہیں وہ بھی میدان میں خم ٹھونک کر آگئے ہیں اور روز اک نیا
بیان دے رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جس طرح سردار پٹیل کی کوششوں سے سومناتھ
مندر کی از سر نو تعمیر کی گئی تھی بالکل اسی طرح رام مندر کی بھی تعمیر
ہوگی اور اس کے لئے پارلیمنٹ میں قانو ن بنایا جائے گا ۔اب چاہے اجودھیا ہو
یا ملک کا کوئی اور خطہ کہیں بھی بابر کے نام سے کوئی مسجد تعمیر نہیں کی
جاسکتی ۔ بابر کا نام تو انہوں نے علامتی طور پر استعمال کیا ہے ۔درپردہ وہ
کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اب ملک میں کوئی بھی نئی مسجد نہیں بنائی جاسکتی
۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلامی جہاد سے تحفظ کیلئے ہر ضلع میں
آئی پی ایس درجہ کے افسران کی تقرری کی جائے اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو
بھی یقینی بنایا جائے تاکہ ایک سے زائدشادیوں کو غیر قانونی قرار دے
مسلمانوں پر قدغن لگائی جاسکے ۔احمد آباد میں منعقد ایک کانفرنس میں وی
ایچ پی نے بارہ مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیںتا کہ مسلمانوں کی ان سوچی
سمجھی تیاریوںکا قلع قمع کیا جاسکے جو وہ چار شادیوں کے ذریعے چالیس بچے
پیداکر کے ملک میں اپنی تعداد بڑھاکر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں ۔
ملک میں جمہوری نظام قائم ہے اور دستوروآئین کی موجودگی میں جس طرح کے
بیانات کا سلسلہ جاری ہے کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہورہا ہے کہ فرقہ پرست
تمام جمہوری اقدار کا خاتمہ کردینا چاہتے ہیں ، ورنہ گورکھپور میں بابا
گمبھیر ناتھ کی صدی تقریب میں شرکت کیلئے پہنچے وزیراعلیٰ یوگی کی موجودگی
میں اجودھیا کے دگمبر اکھاڑے کے مہنت سریش داس ہر گز یہ کہنے کی جرأت نہ
کرتے کہ مندر وہیں بنے گا اور سومناتھ کے طرز پر بنے گا اور وہاں اب کوئی
مسجد نہیں بنے گی اور اگر مسلمان مسجدکے تمنائی ہیں تو وہ یہ جان لیں کہ اس
وقت مرکز اور اترپردیش میںہماری ہی حکومت ہے۔ ۲۰۱۸میں پارلیمنٹ میں یہ
قانون لاکے ہمیشہ کیلئے ہم یہ تنازعہ ہی ختم کردیں گے ۔ یوگی کی حکومت بنتے
ہی ہر طرف فرقہ پرستوں نے ایک طوفان کھڑ ا کردیا ہے ۔یوپی میں تو سب سے بڑا
قہر گوشت کی دوکانوں پر ٹوٹاہے جہاں اب تک پانچ ہزار کے قریب گوشت کی
دوکانیں یہ کہہ کر بند کرادی گئی ہیں کہ ان کے پاس ضروری لائسنس نہیں ہیں
ساتھ ہی متعدد سلاٹر ہاؤسیز پر بھی تالے لگادیئے گئے ۔اب صورتحال یہ ہوگئی
ہے کہ بازاروں میں چکن ، مچھلی اور بکرے کے گوشت اس قدر مہنگے ہوگئے کہ اب
وہ عام قوت خرید سے باہر ہوگئے ہیں ۔اسی کے ساتھ پورے اترپردیش میں گوشت کے
نام پر نوجوانوں کی گرفتاریاں کی جارہی ہیں اور جگہ جگہ فساد کی نوبت کھڑی
ہوگئی ہے ۔گذشتہ دنوں امروہہ کے حسن پور ڈگرول گاؤں میں ایک نوجوان کو
گائے کاٹنے کے نام پر بری طرح پیٹ پیٹ کر مارڈالا گیا لیکن پولس اب تک کسی
کو گرفتارنہیں کرسکی ، اسی طرح میرٹھ میں ایک پارک کے اندر مسلم خواتین اور
بچوں کے ساتھ زبردستی ہاتھا پائی کی گئی اور فحش گالیاں دی گئیں ۔گجرات کے
پاٹن ضلع کے ڈواوالی گاؤں میں دو طالب علموں کے درمیان معمولی تکرار کے
بعد وہاں زبردست فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا اور کرفیو کے دوران ۲؍آدمی قتل
کردیئے گئے اور پچاس سے زائد گھروں کو نذرآتش کردیا گیا ۔ حملہ اتنا شدید
تھا کہ اقلیتی فرقہ کے لوگ بری طرح گھبراگئے ، یہاں تک کہ انہوں نے گھر
چھوڑ کر کہیں اور پناہ لینے میں عافیت سمجھی ، پولس کی بھاری تعداد گاؤں
میں تعینات ہے ، اس کے باوجود مسلمانوں میں خوف و دہشت کا راج ہے کیونکہ
فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور وہ پوری طرح آزاد ہیں ۔
گوشت کا کاروبار کرنے والے اور اس سے جڑے لاکھوں افراد کی روزی روٹی کا
مسئلہ نہایت سنگین شکل اختیار کرچکا ہے ۔متاثرین میں مسلمانوں کے علاوہ ایک
بڑی تعداد ان غیر مسلموں کی بھی ہے جو اس روزگار سے وابستہ ہے ۔بات یہیں
ختم نہیں ہوجاتی ، اس کے اثرات پورے ملک کی معیشت کیلئے شدید تباہی کا سبب
بن سکتے ہیں ۔قانون اور دستور کی کھلی خلاف ورزی اس لئے ہورہی ہے کہ اشتعال
انگیزی کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی قانونی اور آئینی
سختی ہونے والی نہیں ۔عجیب بات ہے جبکہ بابری مسجد کا مقدمہ ابھی کورٹ میں
ہے ، اس طرح کی بیان بازی کہ وہاں مندر ہی تعمیر ہوگا اور مسلمانوں کو مسجد
کی زمین ہندوؤں کے حوالے کردینی چاہئے ، یہ قانون اور دستورکے ساتھ
کھلواڑنہیں تو اور کیا ہے ۔ہمیں ان فرقہ پرستوں سے زیادہ قانون اور آئین
کے ان رکھوالوں سے شکایت ہے جو اس نازک موقع پربھی چپ سادھے بیٹھے ہیں ،
کیا صدرجمہوریہ ، چیف جسٹس آف انڈیا ،ریاستوں کے گورنر ، اعلیٰ انتظامی
افسران اور فوجی سربراہان کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ آئین و قانون کی
بالادستی قائم کریں اور ان مجرمین کی سرکوبی کریں جو علی الاعلان ملک کے
دستور و قوانین کے پرزے پرزے کررہے ہیں ۔ |