پوری دنیا کے ہر معاشرے، قانون، مذہب، اخلاق کی رو سے ’’چوری‘‘
کو ناپسند کیا جاتا ہے اور اسے قابل تعذیر اور قابل مذمت سمجھا جاتا ہے۔اس
حوالے سے عملی طور پہ ہر قوم کے اندر ایسے قوانین نافذ ہیں جو کہ ’’چور‘‘
کو سزا دیتے ہیں اور معاشرے میں چور کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا
ہے۔ ’’چور‘‘ انفرادی سطح پہ جب چوری کرتا ہے تو کسی ایک فرد یا خاندان کا
نقصان کرتا ہے، لیکن چوری کا فعل اس وقت زیادہ تباہ کن نتائج پیدا کرتا ہے
جب یہ قومی سطح پہ ،قومی خزانے کو چوری کیا جاتا ہے، اس قسم کی ’’چوری
‘‘پوری قوم اور ملک کو نقصان پہنچاتی ہے،لہذا دنیا بھر کے ترقی یافتہ یا
غیر ترقی یافتہ ممالک یا معاشروں میں ایسے ’’چوروں ‘‘کو جو کہ قومی خزانے
کو لوٹنے کے مرتکب ہوتے ہیں کے لئے زیادہ سخت سزائیں تجویز کی جاتی
ہیں،انہیں ان کے عہدوں سے بے دخل کیا جاتا ہے اور انہیں کسی بھی سطح کی
عوامی قیادت اور قومی اداروں میں شرکت کے لئے ناہل قرار دیا جاتا ہے۔اس کی
دنیا بھر میں کئی مثالیں مشہور ہیں، اور آئے دن اس طرح کے احتساب مہذب دنیا
اور باشعور قومیں کرتی نظر ٓتی ہیں۔
لیکن یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب ان ممالک اور معاشروں میں عوامی سطح پہ
شعور موجود ہو،عوام سیاسی اور جمہوری سطح پہ ایسے فیصلے کرنے کے اہل ہوں جن
سے دیانتدار قیادت کو منتخب کر سکیں، نظام انصاف فعال ہو ، قانون کی
حکمرانی ہو ، قانون چھوٹے اور بڑے، کمزور یا طاقتور، مالدار اور غریب میں
تفریق نہ کرتا ہو، جہاں عدالت انصاف میں جانے کے لئے بھی طاقت اور رسوخ
درکار نہ ہو، لیکن ان معاشروں میں انصاف کاحصول ناممکن ہو جاتا ہے ،جہاں
نظام انصاف کے نام پہ بلڈنگیں تو موجود ہوں لیکن ان میں فوری انصاف کی کوئی
صورت ممکن نہ ہو۔ قومی خزانے سے لاکھوں وصول کرنے والے انصاف کے رکھوالے
قومی چوروں کو،طاقتوروں کو لاقونونیت سے باز نہ رکھ سکیں۔جب کسی معاشرے میں
چور دندناتے پھرتے ہوں، جب کسی معاشرے میں کرپٹ طاقتور ہو جاتا ہے، جب کسی
معاشرے میں چوروں کا راج ہوتا ہے تو اس معاشرے کے نظام انصاف پہ اعتماد ختم
ہو جا نا فطری امر ہو تا ہے۔اور ایسی قوم کی ذہنی حالت پہ ماتم ہی کیا جا
سکتا ہے۔ یہی وہ خطرناک صورحال ہوتی جہاں قوموں کا شیراہ بکھر جاتا ہے۔
بدقسمت ہے وہ قوم جو اپنے ملک کو چوروں کی جنت بننے دیتی ہے،جو کئی عشروں
سے ببانگ دہل چوریوں، کرپشن اور جعلسازیوں، جھوٹ کے مرتکب ہونے والوں کو
پھر سے اقتدار کی مسندوں پہ بٹھاتی ہے،،جب کوئی ملک چوروں کی جنت بن
جائے،منی لانڈرنگ کے ذریعے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا
جائے، اور چوروں کو وکٹری کا نشان بناتے ہوئے ملک سے باعزت طریقے سے رخصت
کر دیا جائے،جب قومی اراضی کو اونے پونے داموں فروخت کر کے اربوں روپے کے
گھپلے کئے جائیں اور پھر بڑے آرام سے ضمانتیں حاصل کر لیں اور فاتحانہ
انداز اپناتے ہوئے، سینہ زور کرتے نظر آئیں، جب اربوں روپے قومی دولت کے
لوٹے ہوئے گھروں سے بر آمد ہو جائیں ،اور خفیہ ڈیل کر کے باعزت بری ہو
جائیں۔اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے، اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کرنے
والے، نہ صرف ضمانتیں حاصل کریں بلکہ سیاسی مجمعوں میں ان ے سروں پہ سونے
کے تاج سجائیں جائیں۔جہاں حج کے نام پہ قومی خزانے اور عوام کو لوٹنے والے
ہیرو قرار دئیے جائیں اور باعزت بری ہوں۔جہاں غریب قوم کی دولوت کو برسوں
لوٹنے والے اپنے خاندانی اثاثوں کو مضبوط کرنے والے محترم و مقدس
کہلائیں۔جہاں ہزاروں روپے کی چوری کرنے والے کو تو الٹا لٹکایا جاتا ہو،
اور اسے قرار واقعی سزا دی جاتی ہو وہاں اربوں روپے کی قومی خزانے کی’’میگا
چوریوں‘‘ کے مرتکب کے لئے ثبوت ڈھونڈے جاتے ہوں جنہیں باعزت گردانا جاتا
ہو۔تو اس معاشرے کو تباہی و بربادی سے کوئی نہیں روک سکتا۔
جو ملک چوروں کی جنت بن چکا ہو، اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے ذریعے چوری
کا مال بیرون ملک منتقل کیا جاتا ہو، جہاں صرف حکمرانی اس لئے ضروری سمجھی
جاتی ہو کہ جس سے مال بنایا جائے یا اپنے ناجانائز اثاثوں کو تحفظ دیاجائے،
تو اس ملک کی معیشت کا کیا حال ہو گا؟جہاں چوری کو عیب نہ سمجھا جاتا ہو،
جہاں چوروں کو اپنا لیڈر سمجھا جاتا ہو، جہاں چور انتہائی ڈھٹائی سے وکٹری
کا نشان بنا کر پھرتے ہوں تو اس وقت اس عوام کی ذہنی سطح اور ان کی بے
شعوری اور جہالت پہ سوال اٹھتا ہے۔
کبھی جنگل میں بھی ایسا نہیں ہوتا ، جہاں اگرچہ ایک طاقتور کمزور کو ہڑپ کر
جاتا ہے لیکن پھر بھی کبھی کبھی کمزور طاقتور کی زیادتیوں کے خلاف کمر بستہ
ہو جاتے ہیں، لیکن افسوس اس کرہ ارض پہ ایک ایسی سر زمین بھی ہے جہاں ایک
جیب کترے کا تو منہ کالا کر کے اسے مارا پیٹا جاتا ہے، حتیٰ کہ اس کی جان
لی جاتی ہے، لیکن جاہلوں اور بے شعوروں کے اس وطن میں پورے ملک کو بیرونی
قرضوں میں ڈبونے والے، اور اسی قرضے کو چوری کرنے والے، ملکی معیشت اور
ادروں کو تباہ و برباد کرنے والوں کو ڈھول بجا کر استقبال کیا جاتا ہے، اور
ان پہ پھول نچھاور کئے جاتے ہیں،ان کے سروں پہ تاج سجائے جاتے ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف بچے بھوک و افلاس سے مر رہے ہیں، لوگ گندے اور
مضر صحت ماحول میں بنیادی سہولیات کے فقدان کے ساتھ جانوروں کی طرح زندگی
بسر کر رہے ہیں،قومی ادارے ہر دن خسارے اور زوال کا مژدہ سنا رہے ہیں، لیکن
دوسری طرف بیس کروڑ سے زیادہ بے شعور اور جاہل جم غفیر یا تو تماشائی ہے
اور یا ذلت کی زندگی گذار رہے ہیں۔
یہ قانون فطرت ہے جب کوئی قوم اپنی حالت بدلنے کے لئے خود کوشش نہیں کرتی
خدا اس کی حالت نہیں بدلتا۔شعور کی آنکھیں کھولنی پڑیں گی، چوروں کو اپنے
ہر ادارے،ہر سطح، اور اس ملک سے نکالنا پڑے گا۔وگرنہ کسی بھی طرح کی تبدیلی
کی امید محض خوش فہمی ہے۔
|