انتخابی مہم اور جنوبی پنجاب!

 الیکشن قریب آیا تو جنوبی پنجاب کے بھی نصیب جاگے۔ ایک طرف سابق صدر آصف علی زرداری نے پنجا ب میں ڈیرے ڈالنے کا اعلان کیا، دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب نے جنوبی پنجاب کے ایک چھوٹے اور پسماندہ ضلع لودھراں کو رونق بخشی۔ وجہ اس عنایت کی یہ بھی ہوئی کہ زرداری کا ٹارگٹ بھی جنوبی پنجاب ہی ہے کہ وہاں مخدوم احمد محمود اور سید یوسف رضا گیلانی سے پی پی کو توقعات ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب لودھراں گئے تو ان کا پروگرام بہاول پور کے ایک تاریخی قصبے ’اُچ شریف‘ تشریف لے جانے کا بھی تھا، مگر بوجوہ بہاولپور اور اچ شریف نہ جاسکے، انتظامیہ کی طرف سے کئے جانے والے اہتمام دھرے کے دھرے رہ گئے، وہ لودھراں سے ہی لاہور واپس چلے گئے۔ لودھراں ایک ایسا ضلع ہے، جو انتظامی بنیادوں پر نہیں، سیاسی ضرورت کے پیش نظر ضلع بنایا گیا تھا، اس میں قومی اسمبلی کی کل دو سیٹیں ہیں، گزشتہ الیکشن میں ’شہید کانجو گروپ‘ نے ضلع میں کلین سویپ کیا تھا، تاہم کامیاب ہونے والوں نے اپنی طاقت ن لیگ کی جھولی میں ڈال دی تھی، یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ بدلے میں ن لیگ کی حکومت نے شہید کانجو گروپ کی جھولی میں کچھ نہ ڈالا۔

اس پسماندہ اور چھوٹے ضلع کو شہرت اس وقت ملی جب عمران خان کی طرف سے قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں دھاندلی کا ہنگامہ برپا ہوا، کیونکہ ان میں سے ایک حلقہ لودھراں کا تھا، جہاں سے جہانگیر ترین کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بات اس وقت مزید بڑھ گئی، جب عدالت نے مذکورہ حلقہ میں دوبارہ الیکشن کا حکم دے دیا اور وہاں سے صدیق بلوچ کو ہر ا کر جہانگیر ترین قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے۔ اُس ضمنی الیکشن کے شیڈول کے اعلان سے ایک روز قبل وزیراعظم پاکستان لودھراں پہنچے ، ڈھائی ارب روپے کے ترقیاتی کاموں کا اعلان کیا، اس اعلان کے باوجود عوام نے ووٹ پی ٹی آئی کے امیدوار کو دے دیئے۔ اب کوئی ضمنی الیکشن تو نہیں آیا، مگر قومی انتخابات قریب ہیں، وزیراعلیٰ نے لودھراں کے لئے 25ارب روپے کے منصوبوں کے اعلانات کئے، جن میں لودھراں سے خانیوال سڑک بھی شامل ہے، علاقے کے لوگوں کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا، یہاں کے لوگوں سے بڑھ کر یہ سڑک بھاری ٹریفک کی اس سے بھی زیادہ ضرورت تھی، اس سے کراچی سے لاہور جانے والوں کا سفر تقریباً تیس کلومیٹر کم بھی ہو جائے گا ۔ زرعی یونیورسٹی کے کیمپس کا اعلان بھی ہوا، ایک فلائی اوور تعمیر کرنے کے لئے اس کا سنگِ بنیاد بھی رکھ دیا گیا۔ میٹر ووغیرہ کے لئے شہر چھوٹا ہونے کے ناطے بیس ائیر کنڈیشنڈ بسوں کا حکومت پنجاب کی جانب سے خصوصی تحفہ بھی عنایت کیا۔ اور بھی کئی سڑکوں کو دو رویہ بنانے کے احکامات جاری کئے۔

وزیراعلیٰ نے اپنے مخصوص،روایتی اور جذباتی انداز میں مخالفین پر تابڑ توڑ حملے بھی کئے، ’’․․․لوڈشیڈنگ اسی سال ختم ہوگی، اتنی بجلی بنے گی کہ اگر مودی بھی مانگے تو دیں گے ․․․ آئندہ الیکشن میں مخالفین کا مکمل صفایا ہو جائے گا ․․․ ایک سیاسی جغادری نے اربوں کا قرض معاف کروایا ․․․․ سب کا کڑا احتساب ہونا چاہیے ․․․ کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ علاقے میں بڑے منصوبے بننے چاہیئں ․․․‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔ جلسہ کا وقت بارہ بجے رکھا گیا تھا، مگر بہت سے مجبور لوگوں کو نوبجے سے ہی جلسہ میں پہنچنا تھا، تاہم وزیراعلیٰ چار بجے سہ پہر تشریف لائے۔ جس روز میاں شہباز شریف لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور اضافی بجلی مودی کو دینے کے اعلان کر رہے تھے، علاقے میں اسی روزسے لوڈشیڈنگ میں کم از کم دو گھنٹے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ شاید بجلی الیکشن کے موقع کے لئے بچائی جارہی ہے، تاکہ بروقت لوڈشیڈنگ ختم کرکے ووٹ کھرے کئے جائیں۔ عوام کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ’’سب کا کڑا احتساب ہونا چاہیے‘‘۔ یہ جملہ ’گڈ گورننس‘ کی عملی تصویر ہے، جن کے پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالنے کے دعوے تھے، اب ان کے بارے میں ’’چاہیے‘‘ کا لفظ استعمال ہو رہا ہے۔ کیا ہوئے وہ دعوے؟ اسلام آباد کی سڑکوں پر گھسیٹنے کے اعلانات پر عملدرآمد کا کیا بنا؟ قومی دولت لوٹنے والوں کو چوکوں میں لٹکانے سے کس نے روکا؟ قرضے معاف کروانے والوں سے حساب کس نے لینا تھا؟ حکومت کا کام الزام لگانا نہیں ہوتا، مجرموں کو پکڑ کر کٹہرے تک لانا ہوتا ہے۔ ’چاہیے‘ تو بے اختیار اور بے بس لوگ کہا کرتے ہیں۔ ویسے اسی لودھراں میں گزشتہ برس ضمنی الیکشن کے موقع پر وزیر اعظم نے ڈھائی ارب کے جو وعدے کئے تھے،ان کا کیا ہوا؟
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427980 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.