تبدیلی کا لفظ یوں تو تحریک انصاف کی پہچان بن چکا ہے، اس
نعرے سے تحریک انصاف کا پیغام قریہ قریہ ، بستی بستی پہنچا، پاکستان کے
غریب عوام بھی تبدیلی کے اس نعرے کے رنگ میں خود کو تبدیل ہوتا ہوا دیکھنے
لگے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جیسی دونوں بڑی پارٹیوں کی کارکردگی سے
مایوس عوام ایک بار پھر تبدیلی کے نعرے پر ملکی ترقی کے خواب دیکھتے ہوئے
خود کو ہواؤں میں اُڑتا ہوا محسوس کرنے لگے، ایک نئی امنگ ، نئی امیدیں،
ترقی یافتہ و خوشحال نیا پاکستان جس میں قانون کی بالا دستی، امن و سکون،
میرٹ، سستا اور فوری انصاف، خوش کن وعدوں کی موخرات کی بجائے حقیقی خوشحالی
جس کے ثمرات عام آدمی بھی محسوس کر سکے، جیسے سپنے نوجوان نسل کا اوڑھنا
بچھونا بن گئے، نئی نسل میں ایک نیا پاکستان بننے کی امنگ پیدا ہوگئی تھی
کیونکہ تحریک انصاف کی قیادت کرنے والا روایتی اور خاندانی حسب و نسب رکھنے
والا سیاستدان نہ تھا بلکہ قوم کے نوجوانوں کا ہیرو اور دنیائے کرکٹ کا بہت
بڑا نام عمران خان تھا، جس کے لیے نوجوان نسل کا جوش و جذبہ آج بھی دیدنی
ہے۔
نوجوان نسل کی پرانی قیادت سے بیزاری اور تبدیلی کے نام پر ان کی آنکھوں
میں چمک، عمران خان کے لیے ایک جذبہ تائیداپنے لیڈروں کی کرپشن کی خو فناک
داستانوں اور نئی نسل کو کچھ ڈلیور نہ کرنے کی وجہ سے ہے، یقینا ایسا ہی
ہوگا مگر اب کیا ہونے جا رہا ہے، گوجرانوالہ میں ہی دیکھ لیں تو تحریک
انصاف کی تبدیلی واضح نظر آنے لگی ہے، الیکشن کے قریب آنے پر اس تبدیلی کے
خدوخال واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں، وہی گھسے پٹے چہرے، وہی پرانے سیاستدانوں
نے (جو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے )تحریک انصاف میں
بھی اپنے پنجے گاڑھنے شروع کردئیے ہیں، جنھیں ملک و قوم سے کوئی سرو کار
نہیں اور نہ ہی اپنی نسلوں کی فکر ہے، اُنھیں تو صرف اقتدار میں آنے کیلئے
ایک سیڑھی چاہئے اور شائد اقتدار لینے کے لیے اب عمران خان کو بھی ان لوگوں
کا سہارا درکار ہے۔ گوجرانوالہ جسے مسلم لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ، اس ضلع
میں تحریک ِ پاکستان سے لیکر آج تک چٹھہ خاندان کا بہت بڑا نام ہے، چوہدری
حامد ناصر چٹھہ کانام اقتدار کی غلام گردشوں میں گونجتا رہا ہے، اب وہ بھی
تحریک انصاف کے ہو گئے ہیں، ان کے صاحبزادے چوہدری محمد احمد چٹھہ کو تحریک
انصاف ضلع گوجرانوالہ کا صدر بنا دیا گیا ہے جس سے یہ تاثر زبان زدِ عام ہے
کہ بڑے باپ کا بڑا بیٹا ہے۔ ضلع بھر میں چوہدری حامد ناصر چٹھہ کا نام عزت
و توقیر سے لیا جاتا ہے، ساری زندگی کرپشن سے دور رہے ہیں تاہم جوڑ توڑکے
ماہر ہیں، اب ضلع بھر میں تحریک انصاف ایک بڑی قوت بن گئی ہے، کل تک
پیپلزپارٹی کے جیالے اور ایم پی اے رہنے والے میاں محمد ارقم خاں کو بھی
ضلع کا جنرل سیکریٹری بنا دیا گیا ہے تاکہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے
جیالوں، متوالوں کو توڑ کر مسلم لیگ کو گوجرانوالہ میں ناکوں چنے چبوائے جا
سکیں۔ ضلع گوجرانوالہ کی حد تک تو تبدیلی کا خواب چکنا چور ہوتا ہوا نظر
آرہا ہے، تحریک انصاف کے وہ ورکر جو پچھلے دس سال سے کام کررہے تھے وہ تو
کھڈے لائن لگ چکے ہیں، ماسوائے ایک دو جن میں چوہدری محمد علی اور علی اشرف
مغل شامل ہیں جو اپنی مسلسل محنت اور لگن کی وجہ سے اپنے اپنے حلوقوں میں
نظر آرہے ہیں یا ان حلقوں میں کوئی پرانی قد آور شخصیت تحریک انصاف میں
شامل نہیں ہوسکی۔ ضلع گوجرانوالہ کے حلقوں میں این اے 101 میں چوہدری محمد
احمد چٹھہ بذاتِ خود امیدوار ہیں، پی پی 103 اور پی پی 104 میں بھی اُن کی
مرضی کے امیدوار آئیں گے کیونکہ وہ بڑے باپ کے بیٹے ہیں اتنا تو اُن کا حق
بنتا ہے۔ این اے 100 میں تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے سابق ایم این اے
چوہدری بلال اعجاز ہیں جن کا تعلق بھی مسلم لیگ سے رہا ہے، ان کے والد
محترم چوہدری اعجاز احمد مرحوم بھی مسلم لیگ کے ہی ایم این اے ہوا کرتے تھے،
نیک نامی میں اُن کا بھی ثانی نہیں تھا، اسی حلقہ میں ان کے نیچے دونوں
امیدوار چوہدری عبدالرحمن گجر اور چوہدری خالد پرویز ورک بھی مسلم لیگ کے
ایم پی اے رہ چکے ہیں۔ این اے 99 سے تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری
ذوالفقار بھنڈر دکھائی دے رہے ہیں جو ساری زندگی پیپلزپارٹی میں رہے ہیں
اور 2008ء میں پیپلزپارٹی کے ایم پی اے بھی رہ چکے ہیں، وہاں مسلم لیگ کے
سابق ضلعی صدر چوہدری ظفر اﷲ چیمہ بیٹے ڈاکٹر سہیل ظفر چیمہ بھی امیدوار
ہیں جو مسلم لیگ کے دور میں ایم پی اے اور وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ پی پی 100
سے رانا ساجد شوکت اور احسان اﷲ ورک بھی امیدوار ہیں جو کافی عرصہ سے تحریک
انصاف سے ہی وابستہ ہیں۔ این اے 98 میں چوہدری محمد ناصر چیمہ امید وار ہیں
جن کے خاندان کی ساری زندگی مسلم لیگ میں گزری ہے، ان کے بڑے بھائی چوہدری
اعظم چیمہ وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف کے مشیر خاص بھی رہ چکے ہیں اور چوہدری
ناصر چیمہ بھی مسلم لیگ کے ایم پی اے رہ چکے ہیں مگر اس حلقہ میں تحریک
انصاف کی نظریں پیپلزپارٹی پنجاب کے سابق صدر اور سابق وزیر مملکت چوہدری
امتیاز صفدر وڑائچ پر لگی ہوئی ہیں، پچھلے دنوں تحریک انصاف میں ان کی
شمولیت کی خبریں بھی گرم تھیں مگر شاید پانامہ کیس کے فیصلے کا انتظار کیا
جارہا ہے، اگر چوہدری امتیاز صفدر وڑائچ کی شمولیت پایۂ تکمیل کو پہنچی تو
اس حلقہ میں ایم این اے کے امیدوار ہوں گے اور ان کے نیچے پی پی کی دو
سیٹوں پر چوہدری محمد ناصر چیمہ اور ارقم خاں امیدوار ہوں گے، اسی طرح این
اے 97 میں مسلم لیگ سے ہی وابستہ ایک بڑا نام جو سابق سپیکر قومی اسمبلی
بھی رہ چکے ہیں چوہدری محمد انور بھنڈر بھی تحریک انصاف میں شامل ہیں، اسی
حلقے میں تحریک انصاف کے سابق ضلعی صدر رانا نعیم الرحمن خاں بھی ہیں جبکہ
پی پی کی سیٹوں پر ڈاکٹر سجاد محمود دھاریوال، عمران یوسف گجر، شہباز مہر
بھی امیدوار ہیں۔ این اے 96 جو گوجرانوالہ سٹی کا بڑا اہم حلقہ اور شہری
آبادی پر مشتمل ہے،وہاں تحریک انصاف کا ہی کارکن نظر آرہا ہے جس نے اپنی
ذاتی حیثیت میں محنت کر کے اپنا نام بنایا ہے، چوہدری محمد علی جس کا تعلق
آرائیں برادری سے ہے، اس حلقہ میں عرصہ دراز سے آرائیں برادری اور کشمیری
برادری کا مقابلہ رہا ہے جس میں شہر کا بڑا دنگل ہوتا ہے، اس میں مسلم لیگ
کے سابق ایم پی اے ایس اے حمید اور پیپلزپارٹی کے سابق ایمدوار ایم این اے
چوہدر محمد صدیق مہر بھی تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر ہیں جبکہ پی پی حلقوں
میں پیپلزپارٹی کے سابق راہنما خالد عزیز لون اور طارق گجر بھی تحریک انصاف
کے امیدوار ہیں، اسی طرح این اے 95 میں علی اشر ف مغل تحریک انصاف کے
امیدوار ہوں گے جو گوجرانوالہ کی معروف صنعت کار فیملی کے چشم و چراغ ہیں
اور تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے ہی اُنھون نے اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا
ہے، ان کے نیچے صوبائی سیٹوں پر افضل مبشر چیمہ، میاں سرفراز مہر، رانا
فیصل رؤف، جواد حسن منج بھی امیدوار ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے سٹی صدر لالہ
اسد اﷲ پاپا کا نام بھی تحریک انصاف میں شمولیت کیلئے زبانِ زد عام ہے،
شاید وہ بھی پانامہ کیس فیصلے کا انتظار کررہے ہیں۔ ضلع بھر میں ان اعداد و
شمار کی روشنی میں تحریک انصاف کی تبدیلی تو تقریب دفن ہو چکی ہے، عوام کو
ان پرانے چہروں پر ہی گزارا کرنا پڑے گا، یہ تو مقامی سطح پر ایک ضلع کی
بات ہے جبکہ تحریک انصاف پاکستان کی کور کمیٹی کے 106 اراکین میں سے 68
افراد کا تعلق مسلم لیگ ق اور دیگر جماعتوں سے ہے، کور کمیٹی کے اراکین میں
گوجرانوالہ سے چوہدر ی احمد چٹھہ، ڈاکٹر سہیل ظفر چیمہ، چوہدری بلال اعجاز
اور نعما اﷲ چٹھہ شامل ہیں جن میں ایک بھی شخص کی تحریک انصاف کے گملے میں
آبیاری نہیں ہوئی، جو طبقہ صرف ملک میں تبدیلی کیلئے شامل ہوا تھا وہ سخت
مایوسی کا شکار ہے اور بعض نے تو صبر شکر کر کے اپنی تنخواہ پر کام کرنے
میں عافیت جانی ہے کیونکہ دوسری پارٹیوں سے آنے والے با اثر افراد اب تحریک
انصاف پر بھی اپنے بھاری بھر پنجے گاڑھ چکے ہیں اور اکثر و بیشتر سیاستدان
جن کا مطمع نظر صرف سیٹ جیتنا ہوتا ہے یا جن کی زندگی موت صرف اور صرف ایم
این اے یا ایم پی اے کی سیٹ ہوتی ہے وہ پانامہ کیس کا فیصلہ دیکھ رہے ہیں
کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، یہ لالچ، حوس اور طمع نفسانی کی سیاست دور دور
تک بدلتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ |