باریک ہے نوک ِقلم ، چبھ نہ جائے کہیں حصہ اول

میں امریکہ میں تعینات سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے واشنگٹن پوسٹ میں انگریزی میں شائع ہونے والے مضمون کا اردو ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ، انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہوئے ، دماغ کی ایک ایک رگ کو حاضر باش کرتے ہوئے کہ کہیں ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو ۔۔۔۔۔۔۔

جیسا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی کشتی ،ماسکو کے سفیر Sergey Kislyakکے ساتھ روابط ہونے کے الزامات میں گرداب میں پھنسی ہوئی نظر آرہی ہے ۔ امریکی انٹیلی جنس ادارے اس بحث و مباحثے میں مصروف ہیں کہ ماسکو نے نومبر میں ہونے والے امریکہ صدارتی انتخابات کو ’’ہیک ‘‘ کرنے سمیت مختلف طریقوں سے اثرا نداز ہونے کی کوشش کی ، ماسکو کے سفیر (Kiskyak) کی نیشنل سیکورٹی کے سابق سفیر (M. Flyan) سمیت (جس کو متعلقہ انتظامیہ کو آگاہ نہ کرنے کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا) اور اٹارنی جنرل Jeff Sessions(جنہوں نے استعفیٰ دینے سے احتراز برتا) ٹرمپ کی الیکشن کمپئین انتظامیہ سے گفت و شنید پر شدید حد تک خبروں اور قیاس آرائیوں کی لپیٹ کا سامنا تھا جبکہ بات روس کی ان ’’کوششوں ‘‘سے متعلق ہو یا امریکی انتظامیہ کی سچائی کی ، ایک بات نے اس وقت نواز روایت ، جس میں سفیر سیاسی لوگوں سے ، اس ملک کی اجازت سے ملتے ہیں ، موروثی طور پر ایک دوسرے سفیر کے ساتھ ملاقات کرنا قطعاً غلط نہیں سمجھا جائیگا ۔ چاہے یہ ملاقات کسی مخالف ملک کے سفیر سے ہی کیوں نہ ہو ، جبکہ یہ ایک مخالف سپر پاور US کی طرف سے منظوری ہو چکی جیسا کہ امریکہ میں ایک پاکستانی سفیر نے اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد براہ راست محسوس کیاکہ یہ صلاح و مشورے کتنے اہم ہوتے ہیں ۔ ہم نہیں جانتے کہ Kislyakکے کیا مخصوص مقاصد تھے یا انہوں نے میٹنگ میں کیا بحث کی ، لیکن امریکی عوام کے سامنے اس بھید کی گھتی سلجھانا نہایت اہم ہے کہ آئے ٹرمپ اور اس کے اتحادیوں نے خود قانون اور باعزت چال چلن کو اپنایا ، تاہم صرف Kislyakنے نہیں ،سفارت کاری وہ عمل ہے جس میں بیرونی دشمن دوست بن جاتے ہیں اور دوست ، اتحادیوں کا روپ دھار لیتے ہیں جمہوری ممالک جیسا کہ امریکہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ بیرون ممالک کے یہاں تعینات سفیر ، امریکی سیاسی انتظامیہ سے مل سکتے ہیں ، معاملہ یہ نہیں کہ ماسکو کی پالیسی کیا ہے ، آزاد تعلق سفیروں کے ساتھ ، امریکہ کے اپنے مفاد میں ہے ، میں (حسین حقانی )مئی 2008میں بطور سفیر تعینات ہوا ، جلد ہی جس کے بعد نو سال کی مشرف آمریت کا خاتمہ ہوا ، جارج ڈبلیو بش نے9/11کے دہشت گردانہ حملے کے بعد مشرف کے ساتھ ایک غیر فطری اتحاد کیا تھا ، یہ امید کرتے ہوئے کہ معاشی طور پر تیزی اور سپاہ کے آلات کی پیش کش ، پاکستان کو اسکی طالبان سمیت اسلامی شدت پسندوں کے متعلق اپنی طویل پالیسی تبدیل کرنے کی طرف راغب کرئے گی ۔ 2007ء سے بش نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ مشرف یا تو دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑنے کے وعدے پورے کرئے گا یا نہ کر سکے ، جیسا کہ اس نے بعد میں لکھا اور ملک نے جمہوریت کی طرف پیش قدمی کو خوش آمدید کہا ، جن عوامی نمائندوں ، صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے مجھے بطور سفیر نامزد کیا ، مشرف کی پالیسیوں کی یہاں اور باہر ناکامیوں پر امریکہ کی طرف دیکھ رہے تھے ، انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ طالبان کی حمایت کو ختم کیاجانا چاہے اور انڈیا اور افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے جائیں او رفارن پالیسی ترتیب دینے میں پاکستان ملٹری انٹیلی جنس سروس کا کردار کم کیاجائے ، جواباً پاکستان کی معیشت کیلئے امریکی مدد کو ماضی کی نسبت زیادہ ’’سخی ‘‘پائیں گے ، بطور سفیر مجھے جو فائدہ حاصل تھا ، زیادہ تر سفیر یہ نہیں کر پاتے ، میں مشرف دور میں زیادہ تر واشنگٹن میں جلاوطن رہا اور کانگریس سمیت اور کئی اثرو رسوخ والے پالیسی سازوں سے تعلقات قائم کر چکا تھا ،میں نے اپنی جاب کا آغاز 2008ء کی الیکشن کمپیئن کے وسط میں کیا اور میں جانتا تھا کہ بش انتظامیہ کی پالیسیاں شائد نئی انتظامیہ جاری نہ رکھ سکے ۔جون میں چند ہفتے بش انتظامیہ کے ساتھ گزارنے کے بعد میں نے دونوں پارٹیوں کے عہدیداروں سے کمپیئن کے دوران رابطہ کیا اور جلد ہی دونوں جان مکین اور باراک اوبامہ سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا ، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے واشنگٹن میں تعینات سفیر کی جمہوریت اور ریپبلکن عوامی اجتماعاؤں میں شراکت دار میں مدد فراہم کی Denverاور Minneapolis-St.Paulمیں ، ہمیں دونوں پارٹیوں کی کمپیئن کے بارے میں آگاہ کیاگیا ، مجھ سمیت زیادہ متحرک اور بہتر طور پر رابطہ میں رہنے والا سفیر بعد از الیکشن پالیسی ترتیب دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ، اس میں کچھ بھی خلاف معمول نہیں آپ صرف بغاوت کو ہی دیکھ لیجئے ،بطور صدارتی امیدوار اوبامہ نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کی افغانستان میں فتح ، عراقی جنگ کی نسبت زیادہ اہم ہے ، جس کی ہم مخالفت کر چکے ہیں ، گرمیوں میں ایک اہم تقریر میں اوبامہ نے القاعدہ اور طالبان کیخلاف جنگ کو اہم ترین مقصد قرار دیا ، انہوں نے کہا کہ دہشت گرد اور دخل انداز پاکستان کے قبائلی علاقوں میں افغانستان کے خلاف جنگ میں مجرمانہ طور پر کردارادا کر رہے ہیں ، ہمیں یہ بالکل واضع کرنا چاہیے کہ اگر پاکستان ایسا نہیں کر سکتا یا نہیں کرئیگا تو ہمیں اہم ترین دہشت گردوں مثلاً اسامہ بن لادن کیخلاف ایکشن لینا پڑے گااگر وہ ہمیں کہیں(پاکستانی حدود) میں مل گیا ۔۔۔۔۔جاری ہے

Usman Ghani
About the Author: Usman Ghani Read More Articles by Usman Ghani: 23 Articles with 17015 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.