جمعیت کا صد سالہ اجتماع

جمعیت علمائے ہند کا قیام 1919ء میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کےتلامذہ اور معاونین کے ذریعے فکرِ امدادی، فکرِ قاسمی اور فکرِ رشیدی کی بنیادوں پر عمل میں آیا۔ ان اکابر میں مولاناسید حسین احمد مدنی، مولانااحمد سعید دہلوی، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانامحمد نعیم لدھیانوی، مولاناحفظ الرحمن سیوہاروی ، مولانا محمد میاں اور مولاناعبدالباری فرنگی محلی کے نام شامل ہیں۔

‎جمعیت علمائے اسلام پاکستان مذ کورہ بالا جمعیت وشخصیات کی فکر ونظر کی حامل ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے۔ اس جماعت کا قیام 1945ء میں اس وقت عمل میں آیا جب جمعیت علمائے ہند نے تقسیم ہند کے حوالے سے انڈین نیشنل کانگریس کے موقف کی حمایت کی، یوں اس موقف سے اختلاف پر علامہ شبیر احمد عثمانی کی زیر قیادت جمعیت علمائے اسلام وجود میں آئی۔

‎جمعیت علمائے اسلام ہمارے یہاں مذہبی اور جمہوری طبقےکی ایک نمائندہ تنظیم ہے ، جو پاکستان میں ایوب خان کے دور تک مذہبی جماعت کی حیثیت ہی سے نمایاں رہی ، لیکن ایوبی عہد میں جدیدیت اور لادینیت کی مخالفت میں یہ جماعت مولانا مفتی محمود کی زیر قیادت سیاسی سرگرمیوں میں کود پڑی۔ 1960ء کی دہائی کے اواخر میں ایوب خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اور 1970ء کے عام انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام نے انتخابات میں حصہ لیا۔ 1972ء سے 1973ء تک مفتی محمود سرحد کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔
‎نظریاتی طور پر جمعیت علمائے اسلام روایتی اسلامی قوانین کی حامی ہے، اسی لیے یہ جماعت افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت کی زبردست حمایت کرتی رہی ہے۔ مملکت سعودی عرب میں حرمین شریفین اور حدود الله کے نفاذ کی وجہ سے یہ پوری جماعت سعودی حکومت کی حمایت کرتی ہے، جمعیت علمائے اسلام اور اس کے حامیوں نے پاکستان اور دنیا کے کونے کونے میں ہزاروں مدارس قائم کیے، جو کسی بھی دوسری مذہبی تنظیم سے زیادہ تعداد میں ہیں۔

‎مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل میں بھی یہ جماعت بہت فعّال اور نمایاں طور پرشامل رہی ہے، جس نے 2002ء کے عام انتخابات میں 73 نشستیں اور 11.21 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔

جمعیت علمائے اسلام پاکستان مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ملک کی اہم ترین سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے،مفتی محمود مرحوم کی قد آورشخصیت کے بعد عام لوگ یہ سمجھتےتھے کہ جمعیت نام کی جماعت اَب برائے نام ہی رہیگی،پر مولانا فضل الرحمن کی بصیرت افروز اور ولولہ انگیز امارت نے اس جماعت کو صفِ اول کی پارٹیوں میں لا کھڑا کیاہے۔

جمعیت نے آج سے پندرہ بیس برس قبل پشاور کے مضافات میں تأسیسِ دارالعلوم دیوبند کے عنوان سے ایک بہت بڑا اجتماع منعقد کیا تھا ، راقم اس میں شریک ہوا تھا ، اُتنا بڑا اجتماع اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا تھا، ملک بھر اور دیگر اسلامی ممالک سے اس میں عوام وخواص کی شرکت تھی، تبلیغی اجتماعات کی طرح تمام تر انتظامات تھے، بیانات اور دروس کا ایک حسین مرقع تھا۔

اس وقت سات سے نو اپریل تک یہ سہ روزہ اجتماع بھی ایک منفرد سیاسی ومذہبی قوت کا مظاہرہ ہوگا، اس میں عالمِ اسلام کی ہر دلعزیز شخصیت ، امام کعبہ شیخ عبد الرحمن السدیس بھاری بھرکم وفد کے ساتھ جلوہ افروز ہوں گے،ہندوستان، ساؤتھ افریقہ،امریکہ ، کناڈا،برطانیہ اور تمام عرب ممالک سے دینی زعماء بھی تشریف لائیں گے، یوں اس اجتماع سےاپنی نوعیت کی ایک عالمی کانفرنس کا تأثر بھی لیا جائے گا، جمعیت علمائے اسلام چونکہ ملک کی سب سے بڑی مذہبی پارٹی ہے، اس لئےبجا طور پر ان کی یہ کاوش سب مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے حق میں جائی گی۔

جمعیت علمائے اسلام نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ہمیشہ اعتدال اور جمہوریت کی سیاست کی ہے، دلیل ومنطق اُ ن کی پہچان بن گئی ہے، ملک اور اداروں کو بچانے کی کاوشیں کی ہیں، ڈنڈا برداری اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست اُن کے یہاں شجرۂ ممنوعہ ہے، کسی کی مخالفت کی ہے، تو ڈنکے کی چوٹ پر، کسی کی تائید کی ہے،تو وہ بھی ببانگِ دُھل۔مولانا دب کر اور مرعوب ہوکر سیاست کے قائل نہیں ہیں، اُ ن کے حق میں اور مخالفت میں بہت کچھ لکھا اور کہاگیا ، مگر جمعیت کاز کی سیاست کرتی ہے، اُن کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ نہیں ہوتا، یہ لوگ مخالفت میں لڑائی یا نامناسب اندازِ بیان پر نہیں آتےاور حمایت میں کسی کے لئے بھنگڑے نہیں ڈالتے، وقار اور متانت اِن کا وہ شیوہ ہے جو انہیں ورثے میں اپنے بزرگوں سے ملا ہے۔

یہ لوگ کوئی فرشتے بھی نہیں ، ان سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں، مگر بحیثیتِ مجموعی یہ ابتک دنیا بھر کے مذہبی اکابر کے معتمد ہیں اور اسی اعتماد کو وہ اپنا مینڈیٹ خیال کرتے ہیں۔کیونکہ جمعیت صرف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ یہ اپنے آپ میں ایک سکول آف تھاٹ بھی ہے۔مسلکی اور فرقہ وارانہ چھاپ اس جماعت پر آج تک نہیں لگی،أخلاقیات، تحمل، برداشت اور رواداری اِن کے ادنی سے ادنی کارکن کے ماتھے کا جھومر ہے۔

بلا ترددیہ بات کہی جا سکتی ہے، کہ جمعیت علمائے اسلام نےاپنے قیام کے اھداف ومقاصد میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے.جمعیت کی لگ بهگ صد سالہ عمر میں بہت سارے نشیب و فرازبھی آئے،اس طویل عرصہ میں ہوسکتا ہے کہ اس سے منسلک بعض افراد کے کسی عمل سے کچھ لوگوں کو شکایت ہو،مگر ہم سمجھتے ہیں کہ تنظیمات وتحریکات اور سیاسی جماعتوں کی زندگی میں یہ اچھنبے کی بات نہیں ہے.برادران وطن کے ساتھ مل بیٹهکر بین المذاهب والمسالک خیر سگالی،یکجہتی اور اتحاد کے لئے جمعیت کی جرأت مندانہ مساعی پوری قوم کی طرف سے بے حد قابل ستائش ہے. عام مسلمانوں اور پاکستانیوں کے لئےنیز دینی مدارس کی سالمیت کے لئے جو کامیاب کوششیں جمعیت علمائے اسلام پاکستان کر رہی ہے، اسے نہ آج نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مستقبل کا انصاف پسند مؤرخ کبھی فراموش کرسکے گا۔

اجتماع میں ویسے تو دنیا بھر کے مقررین و رہنما شریک ہو رہے ہیں لیکن مرکزی خطاب قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کا ہی ہوگا، جو خطابت کے شہ سوار جانے جاتے ہیں، اُن کا خطاب در اصل جمعیت کا پالیسی میٹر ہوگا،اِ تنے بڑے اجتماع سے لگتاہے کہ مولانا کے بیان اور پورے اجتماع کی گونج دور اور دیر تک سنائی دے گی، ہو سکتاہے کہ اس سے جمعیت کے حق میں بہتر اثرات اگلے انتخابات پر بھی پڑیں۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 805996 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More