انسانی زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لئےسانس
لینا،کھانا،پینا انتہائی ضروری ہے ۔ان سے کسی طرح کی محرومی کا شکار قوم
کبھی بھی ارتقاء کی طرف نہیں بڑھ سکتی۔اس تنا ظر میں آج ہم مختلف معاشروں
کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں جہاں بھی اقوام میں رائج نظام ان کی ان بنیادی ضرورتوں کو
پورا کرتے ہیں وہاں علمی،فکری، اخلاقی ترقی کے مختلف مظاہر نظر آتے ہیں،اور
جہاں جہاں ان بنیادی ضرورتوں سے محرومیاں ہیں وہاں زندگی کا ہر شعبہ زوال
کا نقشہ پیش کرتا ہے۔
اس وقت ہمارا معاشرہ بھی ان محرومیوں کا شکار ہے،ایک طرف طبقاتی معاشی نظام
کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیرسے نیچے زندگی بسر کر رہے
ہیں،بنیادی ضروریات سے محروم انسانوں کی اکثریتی آبادی کے پاس اپنے مسائل
اور پریشانیوں کے حل کے لئے سرگرداں رہنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں،بمشکل
جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھتے ہیں۔بد قسمتی یہ ہے کہ سانس لینا، کھانا
اورپینا تینوں مشکل بن کر رہ گئے ہیں۔مثلاً غیر مناسب سیوریج اور غیرمناسب
سینی ٹیشن کے نظام کی وجہ سے زیر زمین پانی آلودہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے
میں کنواں ہو یا بورنگ یا واٹر سپلائی آلودگی سے بھرپور پانی پینے کو ملتا
ہے۔
کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے غلاظت سے بھری
سڑکوں،گلیوں اور محلوں میں رہتے ہیں، کھلی گندی نالیاں،کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں
کی وجہ سے،اور گاڑیوں،کارخانوں،ملوں اور سگریٹ کے دھوئیں سے آکسیجن بھی اب
نایاب ہو رہی ہے۔اس کا نتیجہ آلودہ فضا ہے۔
خوراک ملاوٹ شدہ کھاتے ہیں، بچوں کی ٹافیوں، چپس وغیرہ سے لے کر شاید ہی
کوئی ایسا شعبہ ہو یا ایسی پروڈکٹ ہو جس میں ملاوٹ موجود نہ ہو۔خاص طور پہ
وہ اشیاء جو عام لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پہ استعمال کرنی پڑتی ہیں ان میں
ملاوٹ کو یقینی بنا دیا گیا ہے،مثلاً تیل،گھی ،آٹا ،چینی،مصا لحہ جات،دودھ
وغیرہ اس کے علاوہ بھی کہیں کوالٹی نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔
اب جب کہ سانس لینا ،کھانا اورپینا آلودگی کا شکار ہو گا تو اس کے نتیجے
میں ہسپتال بھرنا شروع ہوں گے،جو کہ ہمارے ہر چھوٹے بڑے شہر میں دیکھے جا
سکتے ہیں،بدقسمتی سے انسانوں کا یہ جم غفیر جب طرح طرح کی بیماریوں کا شکار
ہو کر ہسپتال ڈھونڈتا ہے تو وہاں بھی ملاوٹ اس کا انتظار کرتی ہے،ٹیکوں،
دوائیوں، گلوکوز،حتیٰ کہ خون میں بھی ملاوٹ کر کے فروخت ہوتا ہے۔جعلی
ڈاکٹر،پیشہ ور ڈاکٹرز،قصائیوں کی طرح ان کی چمڑی ادھیڑنے کے لئےتیار بیٹھے
ہوتے ہیں۔اس طرح یہ انسانوں کا جم غفیر زندگی اور موت کے تماشے میں گھرا
ہوا ایک نسل سے دوسری نسل کا سفر کر رہا ہے۔
جسمانی صحت کا تو یہ عالم ہے اب اگر روحانی اور عقلی صحت کی طرف آئیں اس کی
صورتحال اس سے بھی دگر گوں ہے،عوام کی اکثریت ان پڑھ ہے یا انہیں ان پڑھ
رکھا گیا ہے، خیر جو قوم خالص کھانے، صاف پانی اور صاف ہوا سے محروم رکھی
گئی ہو وہ کس طرح اپنی روح اور علمی ترقی پہ دھیان دینے کے قابل رہتی ہے۔
نتیجہ یہ کہ غربت اور جہالت میں ڈبوئی ہوئی قوم کو ساتھ ہی ساتھ بے انصافی
کی سزا بھی سنائی گئی ہے، اب اس کا حال یہ ہے کہ شعور سلب ہو کر رہ گیا،عدم
تحفظ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزار بار جھوٹ بولنے والوں،سینکڑوں بار دھوکہ
دینے والوں کو،کرپشن اور چوریوں میں سر فہرست افراد کو اپنا حکمران منتخب
کرتے چلے آتے ہیں۔اور اس طرح ہر الیکشن کے بعد اپنی اجتماعی موت میں ایک
کیل اور ٹھونکتے ہیں۔
اب اس ملک میں ایک فیصد طبقے نے ایک ایسا گھناونا کھیل جاری کیا ہوا ہے
جہاں ایک طرف جانوروں کی طرح ہانکے جانے والا ایک بڑا عوامی ریوڑ ہے اور
دوسری طرف ظالم گڈریے جن کو صرف اس بات سے مطلب ہے کہ کس طرح ان کروڑوں
انسانوں کو اپنے مفادات کے تحت استعما ل میں لا سکتے ہیں ، اور کیسے اور کس
قدر وہ اپنے اثاثے بنا سکتے ہیں،کیسے اثاثوں کا تحفظ یقینی بنا سکتے
ہیں،لہذا انہوں نے ملاوٹ کے کاروبار کو مضبوط کیا ہوا ہے،انہوں نے کرپشن کو
قانونی شکل دی ہوئی ہے،انہوں نے ایسا گٹھ جوڑ بنایا ہوا ہے کہ تمام ادارے
جن کا کام عوام کے مسائل کو حل کرنا ہے انہیں اپنے کام میں لگایا ہوا
ہے۔انصاف،قانون ان کے گھر کی لونڈی ہے ،انہوں اپنی ایک الگ دنیا بسا رکھی
ہے، جہاں تمام بنیادی سہولیات موجود ہیں، جہاں تمام بنیادی ضروریات کی
بہتات ہے، جہاں کتوں پہ لاکھوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں،جہاں اپنی عیاشیوں کے لئے
ہر طرح کا سامان موجود ہے۔
اگر شعور کی آنکھ سے دیکھا جائے تو اس ایک فیصد استحصالی طبقے کی مثال برص
کے اس داغ کی طرح جو دیکھنے میں خوشنما نظر آتا ہے لیکن وہ جسم کا خون پی
جاتا ہے،اسی طرح اس طبقے نے ملک کے تمام اداروں کو اپنی دسترس میں کر کے
اکثریتی انسانوں کو نان و جویں کا محتاج بنا دیا ہے،اور ان سے ان کی
انسانیت چھین لی ہے۔
اگر کچھ ہوش باقی ہے، اگر اب بھی کوئی انسانوں کی طرح جینے کی تمنا ہے ، اب
بھی اگر اپنی آئندہ نسلوں کی بقاء کا خیال ہے تو خدا کے لئے سنمبھل
جاء،ورنہ تمہارا نشان بھی نہ ملے گا۔۔۔۔اپنے وطن عزیز میں ایسےنظام عدل ک
کے لءے کوشش کرو، جو تمہارے کھانے،پینے،اور سانس لینے کا حق تمہیں لوٹا
دے،جو تمہیں انسان سمجھے،تمہاری تعلیم، صحت، اور انصاف کے انتظام بلا تفریق
کرے۔جہاں تم اپنے جسم کے ساتھ ساتھ اپنی روح، اپنے اخلاق، اپنی عقل، اپنے
علم کو ترقی سے ہمکنار کر سکو۔
المیہ یہ ہے کہ ایک طرف استحصال ہو رہا ہے،انسان جانوروں کی طرح رہنے پہ
مجبور ہے تو دوسری طرف نظریاتی اور فکری بحث ومباحثوں کا زور ہے، نام نہاد
لبرلز ہوں یا مذہبی انتہا پسندی کے علمبردار سب زبانی جمع خرچ میں مبتلا
ہیں، اس معاشرے کا اکثریتی مفلوک الحال اور محروم طبقہ ان تمام فضولیات سے
کوئی لچسپی نہیں رکھتا اور نہ ہی ان کی رسائی یا تعلیمی قابلیت اس قدر ہے
کہ وہ ان فلسفیانہ موشگافیوں کو سمجھ سکے۔خاص طور پہ پڑھے لکھے طبقے سے
گذارش ہے کہ اگر واقعی عوام کے لئے کچھ کرنا ہے تو تبدیلی نظام کے لئےعملی
کام کریں، تمام شعبوں اور انتظامی اداروں میں دیانتدار اور اہل افراد کو
لانے کے لئے اجتماعی جدو جہد کو یقینی بنائیں،سیکولر ازم اور دیگر زبانی
بحث و مباحثوں میں وقت کے ضیاع کی بجائے عملی اقدامات جن کا تعلق عوامی
حقوق اور ان کی زندگی میں تبدیلی سے ہے کے لئے اپنا پنا حصہ ڈالیں، اپنے آپ
کو اس ذہنی عیاشی کے ان چکروں سے نکالیں جو میڈیا میں پیشہ ورگروہ لے کر
بیٹھے ہوئے ہیں۔اس وقت ہم دور زوال میں ہیں اس دور کے تقاضے یکسر دور عروج
سے مختلف ہیں،اس وقت ضرورت ہے کہ ہمارے ملک کے انتظامی اداروں میں مثبت
عملی تبدیلی آئے ،زندگی کے مختلف شعبہ جات کے ڈھانچے صحت مند انداز سے اپنی
ذمہ داریاں ادا کریں۔ اس وقت عملی طور پہ لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے۔اگلے
مرحلے جب لوگ بنیادی ضروریات سے نکل کر اگلی منزل میں داخل ہوتے ہیں تو پھر
ذہنی آسودگی پیدا ہوتی ہے اور پھر فلسفے،تخلیق ہوتے ہیں اور ترقی کرتے
ہیں۔بھوکوں اور محروموں کی بستیوں میں نظریاتی بحثوں کی مجلسیں لگانا اور
پھر چین کی نیند سو جانا،اپنی توانائیوں کا ضیاء اور قومی غفلت ہے- |