پاکستان میں اسلامی انقلاب کیسے لایا جا سکتا ہے؟

یہاں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ غلام کو چاہیے کہ اپنے آقا کو اپنی قیمت ادا کرے احسن طریقے سے پیش آئے احسان فراموشی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے - عقلمند غلام وہ ہے جو اپنے آقا کو تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کراتا رہے جب اس کی قیمت پوری ہو جائے تو آزادی حاصل کر لے یہ تو تب ہے نا جب آقا بغیر قیمت ادا کیے آزاد ہی نہیں کر رہا ہو اگر آقا نے بغیر قیمت وصول کیے ہی آزادی دے دی ہے تو یہ تو سراسر احسان ہے اس کا اس کا بہتر بدلہ دینا بنتا ہے آقا مشکل میں ہے تو اس کے کام آنا چاہیے اگر وہ بوڑھا ہو چکا ہے تو اس کے بڑھاپے کا سہارا بننا چاہیے اس کو کما کر کھلانا چاہیے جیسے اپنے آپ کی اور اپنے اہل وعیال کی پرورش کرتا ہے اسی طرح اس کو کھانے کو دے اور پہننے کو لباس دے اور بیماری کی صورت میں بقدر ہمت علاج کرائے جیسے حضرت ایّوب علیہ السلام کی بیوی نے کئی سالوں تک ان کی دیکھ بھال کی کہ آپ کے ہمارے خاندان پر احسانات ہیں -
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آقا اگر غیر مسلم ہے تو اس کے ساتھ حسن سلوک کیسے کریں گے کیوں وہ تو اللہ نے قران میں منع فرما دیا ہے کہ کافروں کے ساتھ دوستی نہیں لگانی ان کے ساتھ محبت نہیں کرنی ہے اور قرآن میں ہے کہ جو ان سے دوستی لگائے گا یا محبت کرے گا وہ انہی میں سے ہو جائے گا اور مسلمانوں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا اور ایسا انسان جہنم میں چلا جائے گا اور آپ کہہ رہے ہیں کہ احسان کا بدلہ احسان ہونا چاہیے احسان فراموشی نہیں ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ - اور اس طرح تو غدّاری کا مقدمہ ہوسکتا ہے - بس اسی طرح کا مرحلہ ہے جو 70 سال سے وہیں کا وہیں ہے ترقی اور نشونما رکی ہوئی ہے -

70 سال کا عرصہ ہونے کو ہے پاکستان میں اسلام کا نفاذ نہیں ہو سکا ہے دوسرے لفظوں میں پاکستان کی تعمیر تو ہو گئی ہے لیکن تکمیل نہیں ہو رہی ہے - ہمارے آج کل کے بعض دانشور کہتے ہیں کہ نظریہ پاکستان ہی تکمیل پاکستان کا ذریعہ ہے -
" نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے "-

سب سے اہم چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادی کی نعمت عطا فرمائی ہے لیکن بعض کم فہم لوگوں نے آزادی کو ہی فتح اور انقلاب کا نام دے دیا اور جشن پہ جشن منانے شروع ہوگئے کہ جی ہم نے انقلاب برپا کر دیا ہے ہم نے فتح حاصل کر لی ہے - اس ٹاپک کو میں ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ فرض کریں کوئی انسان پہلے غلام تھا اور اس کے آقا نے بغیر آزادی کی قیمت وصول کیے دریا دلی سے اسے آزاد کر دیا اور اب اسے کیا کرنا چاہیے پہلی چیز تو یہ کہ غلام کو اپنے آقا کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے اس کی قیمت معاف کردی اور اس کو آزاد کر دیا کیوں کہ احسان کا بدلہ احسان ہوتا ہے - اللہ کا حکم بھی یہی ہے کہ مسلمانوں احسان کا بدلہ احسان سے دیا کرو مذکورہ معاملے میں غلام کو چاہیے کہ اپنے محسن کے ساتھ وفاداری کرے اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے یہ نہیں کرنا چاہیے کہ اپنے محسن کا دشمن بن جائے اور موقع کی تلاش میں رہے کہ میں اس سے بدلہ لوں کہ اس نے مجھے غلام کیوں بنائے رکھا تھا اور میرے ساتھ ظلم کیے اور میں ان کا بدلہ لوں گا اور بہلا پھسلا کر دوستی لگا کر اعتماد بنا کر میں اس کا گلہ کاٹوں گا تو میری جان کو سکون آنا ہے - یہ سراسر احسان فراموشی ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی نافرمانی ہے -

یہاں یہ سوچ پیدا ہونے کا احتمال ہے کہ کیا ہم پھر سے اپنے آقا کے سامنے پیش ہو جائیں کہ ہم آپ کے احسان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے ہیں اس لیے آپ مجھے دوبارہ غلامی میں قبول فرمائیں کیوں کہ احسان کا بندلہ احسان ہوتا ہے - اور دوسرے یہ کہ غلام اپنے آقا کو غلام بنانے کی سوچ اپنے دماغ پر مسلط کرلیں اور سوچیں کہ جتنی دیر ہم اور ہمارے آباو اجداد ان کی غلامی کرتے رہے ہیں اب ان کو اور ان کے آباو اجداد کو اتنا عرصہ ہمارا غلام بننا ہوگا تب بدلہ پورا ہوگا اور میں تو بعض بڑے خاندان کے لوگوں کو جانتا ہوں جن کا یہ خیال ہے کہ ہم بھی انگریزوں اور ہندووں کو اپنا غلام بنائیں گے اور گن گن کر بدلے لیں گے اور جو ہمیں روکنے کی کوشش کرے گا اس کو ہم ملک اور قوم کا غدّار قرار دے کر اس پر غدّاری کا کیس کریں گے اور اس کو تڑپا تڑپا کر ماریں گے -

میں نے جب سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ سوچ درست نہیں ہے تو جواب ملا کہ تب تو ہم تمھیں اور تمھارے اہل وعیال کو اپنا غلام بنالیں گے اور خوب کام کرائیں گے جیسے گدھوں اور گھوڑوں سے لیا جاتا ہے اور بعد میں آزاد کر کے پوچھیں گے کہ اب ہمارے احسان کا بدلہ احسان سے دے کر دکھاو تو اس وقت میں کنگھ ہو کر رہ گیا تھا کہ ان کی سوچ کدھر کو جارہی ہے - یہ تو سوچ ہی غلط اور غیر قانونی ہے کہ ہم تم کو اور تمھارے اہل وعیال کو غلام بنا لیں گے اور بامشقّت سزائیں دیں گے کیوں کہ اسلام میں کسی بھی آزاد انسان کو زبردستی یا سازش کے ذریعے غلام بنانا کبیرہ گناہ ہے خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم تو جواب ملا کہ آپ تو پہلے سیڑھی پر چڑھاتے ہو اور بعد میں سیڑھی کینچ لیتے ہو بھئی انگریزوں نے ہمیں زبردستی اور سازش کے ذریعے غلام نہیں بنایا تھا -؟

یہاں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ غلام کو چاہیے کہ اپنے آقا کو اپنی قیمت ادا کرے احسن طریقے سے پیش آئے احسان فراموشی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے - عقلمند غلام وہ ہے جو اپنے آقا کو تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کراتا رہے جب اس کی قیمت پوری ہو جائے تو آزادی حاصل کر لے یہ تو تب ہے نا جب آقا بغیر قیمت ادا کیے آزاد ہی نہیں کر رہا ہو اگر آقا نے بغیر قیمت وصول کیے ہی آزادی دے دی ہے تو یہ تو سراسر احسان ہے اس کا اس کا بہتر بدلہ دینا بنتا ہے آقا مشکل میں ہے تو اس کے کام آنا چاہیے اگر وہ بوڑھا ہو چکا ہے تو اس کے بڑھاپے کا سہارا بننا چاہیے اس کو کما کر کھلانا چاہیے جیسے اپنے آپ کی اور اپنے اہل وعیال کی پرورش کرتا ہے اسی طرح اس کو کھانے کو دے اور پہننے کو لباس دے اور بیماری کی صورت میں بقدر ہمت علاج کرائے جیسے حضرت ایّوب علیہ السلام کی بیوی نے کئی سالوں تک ان کی دیکھ بھال کی کہ آپ کے ہمارے خاندان پر احسانات ہیں -

تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آقا اگر غیر مسلم ہے تو اس کے ساتھ حسن سلوک کیسے کریں گے کیوں وہ تو اللہ نے قران میں منع فرما دیا ہے کہ کافروں کے ساتھ دوستی نہیں لگانی ان کے ساتھ محبت نہیں کرنی ہے اور قرآن میں ہے کہ جو ان سے دوستی لگائے گا یا محبت کرے گا وہ انہی میں سے ہو جائے گا اور مسلمانوں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا اور ایسا انسان جہنم میں چلا جائے گا اور آپ کہہ رہے ہیں کہ احسان کا بدلہ احسان ہونا چاہیے احسان فراموشی نہیں ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ - اور اس طرح تو غدّاری کا مقدمہ ہوسکتا ہے - بس اسی طرح کا مرحلہ ہے جو 70 سال سے وہیں کا وہیں ہے ترقی اور نشونما رکی ہوئی ہے -

بس میں یہ بات واضع کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آزادی تو مل گئی لیکن اس نعمت کی قدر نا جان سکے ہم مسلمان اور ہمارے ساتھ ہندو آزاد ہوئے اور ہمارے سیاست دان ان کی نکل مارنے مصروف ہیں حالانکہ وہ تو کافر ہیں اور انگریز بھی کافر ہیں وہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اس کا اندازہ اہل نظر کو ہو گیا ہوگا کہ جب ان کی جیت ہوتی ہے تو انگریزوں کو خوشی ہوتی ہے اور جب ان کو پاکستان کے ہاتھوں شکست ہوتی ہے تو وہ جل بھن جاتے ہیں اور لڑائی معاف کرو کا نعرہ لگا دیتے ہیں اسی طرح پاکستان ایک حصہ بنگلہ دیش کی صورت میں الگ ہوگیا اور انگریزوں کو بڑی خوشی ہوئی ہمیں ان کی نکل مارنی بند کرنا ہوگی اور اسلام کے مطابق زندگی گزارنی ہوگی چھوڑیے حسن نثار جیسے دانشوروں کو وہ تو مسلمان ہی کہلانے کے قابل نہیں ہے اور محب وطن بھی نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا لیکن پتا نہین کیسے اس نے ایک الگ ہی سوش والی کمیونٹی بنارکھی ہے -
 

محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 108 Articles with 138815 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.