آتشِ دہشت بجھے گی ایکتاکی پھونک سے
پچھلے چندماہ سے پاک افغان تعلقات میں بہتری اورامن کی طرف پیش قدمی ہورہی
تھی مثلاًحزبِ اسلامی کے امیرگلبدین حکمت یارکی رہائی ہوئی اوراقوام متحدہ
اور دیگر یورپی ممالک کی طرف سے ان کانام بلیک لسٹ سے نکالنے کااعلان ہوا
خطے کے امن سفرکی شروعات کی امیدہورہی تھی لیکن ایک مرتبہ پھرامن کی دشمن
قوتوں نے ایک اوچھاوارکرتے ہوئے اپنے ایجنٹوں کے توسط سے پاکستان میں اچانک
دہشت گردی کی وارداتوں کاآغازکیا ۔ یوں اپنے خوفناک اوربھیانک عزائم کا
چہرہ بے نقاب کیا۔ اس کے نتیجے میں خیبرپختونخواہ ،سندھ اورپنجاب میں ہونے
والے حملوں کے بعد افغانستان کے سرحدی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف
پاکستانی سیکورٹی اداروں کی کاروائی اورپاکستانی حکومت کی جانب سے ۶۷؍مطلوب
افرادکی لسٹ دینے،افغانستان کی جانب سے جواب میں ۶۸؍افرادکی لسٹ دینے
اورایک دوسرے پرالزامات اورپاکستان کے خلاف افغانستان میں مظاہرے کرانے کے
نئے سلسلے سے پاک افغان تعلقات میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔افغان حکومت نے
پاکستانی مطالبات ماننے کی بجائے دشمن طاقتوں کی ایماء پر جوابی الزامات
لگا کرحالات میں کشیدگی پیدا کر دی ہے۔اس کشیدگی کا سب سے بڑافائدہ بھارت
کاہواہے ، وہ اپنے اتحادیوں کے مشترکہ پروگرام کے تحت پاک چین کوریڈورکی
تعمیرکوروکنے کی ناکام کوشش کررہاہے جب کہ اس واقعے کے فوری بعدتاجکستان نے
افغانستان کوبائی پاس کرتے ہوئے پاک چین کوریڈورکو"کیوٹی ٹی اے"کے تحت براہِ
راست سڑک کے ذریعے وسطی ایشیا (چین، پاکستان،کرغیزستان،قازقستان) سے ملانے
کیلئے معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔یادرہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ۲۰۱۱ء
میں تجارت کا حجم ۵۱ملین ڈالرسے بڑھ کر۲۰۱۶ء میں۹۰ملین ڈالر تک پہنچ گیاہے،
جب کہ اس معاہدے کی تکمیل کے بعدیہ دونوں ممالک کاتجارت کا حجم آسانی کے
ساتھ پانچ سوملین سے زائدتک بڑھ جائے گا۔اُدھرسانحہ لاہوراورسہون کے
بعددہشت گردوں کی سرحد پارسے آمدورفت روکنے کیلئے پاک فوج نے افغان سرحدسے
متصل علاقوں پر سیکورٹی مزید سخت کرکے بھاری توپ خانہ بھی پہنچادیا۔یادرہے
کہ گزشتہ برس پاک افغان پورس بارڈرجہاں پچھلی سات دہائیوں سے روزانہ تیس سے
چالیس ہزارافراد بغیرکسی شناختی دستاویزات کے سفرکیاکرتے تھے، اس کو سختی
سے بندکردیاگیاتھاکیونکہ یہ آپریشن ضربِ غضب کی کامیابی کاتقاضا تھا اور
دونوں ملکوں کے درمیان عالمی قوانین وقواعدکے مطابق یہ بہت ضروری
تھا۔سرکاری ذرائع کے مطابق ملک میں حالیہ دہشت گردی کی لہرکے پیش نظر جہاں
ملک بھرمیں سیکورٹی انتظامات سخت کردئے گئے،وہیں پے درپے دھماکوں کے تانے
بانے افغانستان سے ملنے کے ٹھوس شواہد ملنے کے بعدپاک افغان سرحدپردہشت
گردوں کی نقل وحرکت روکنے کا مؤثر نگرانی سسٹم نصب کیا گیا ہے۔
بھاری آرٹلری اورسیکورٹی فورسزکی تعدادمیں غیرمعمولی اضافے کے بعدتادمِ
تحریرپاک افغان سرحدپرہرقسم کی آمدو رفت معطل ہے اوردوسری جانب خیبر
ایجنسی کے تمام راستوں اورناکوں پرنگرانی سخت کردی گئی ہے۔ خیبرایجنسی سرحد
کئی روزسے بندہے جس کی بنا پردونوں جانب مال بردارگاڑیوں کی طویل قطاریں
سرحدکھلنے کی منتظرہیں۔ پاکستانی آرمی چیف کاکہناہے کہ پاک افغان
سرحدپرسیکورٹی انتظامات میں اضافہ مشترکہ دشمنوں سے مقابلے کے لئے لازمی ہے۔
بہر حال دہشت گردکسی بھی رنگ ونسل سے ہوں، وہ انسانیت کے مشترکہ دشمن ہوتے
ہیں۔پاک حکومت نے کابل حکومت کی جانب سے اسلام آباد کے مطالبات نہ ماننے
کی صورت میں غیرمعینہ مدت تک پاک افغان سرحدبند کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے
اور پاکستانی قوم کا بھی مطالبہ ہے کہ ملکی مفادکو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے
تمام اداروں کے باہمی مشاورت سے نتائج کا حصول ممکن بنایا جائے۔ گو کہ
پاکستانی قوم کواس بات کاشدیداحساس ہے کہ اس عمل سے عام افغان شدید مشکلات
کاشکارہوسکتے ہیں اورپاک افغان تجارت بھی تباہ ہوجائے گی لیکن ایسا کر نا
خطے کے وسیع ترمفاد میں ہے۔ افغانستان کی زیادہ تجارت کاانحصارپاکستان پرہے
اورغیرسرکاری سطح پریہ تجارت اربوں روپے پرمحیط ہے ۔ اس کاروبار سے دونوں
ممالک کوفائدہ ہورہاہے،خاص کر افغانستان میں اشیائے خوردونوش کی قیمت
پاکستان سے جانے کی وجہ سے کم ہوتی ہے جب کہ روس اورایران سے انہیں منگوانے
کی صورت میں اس کی قیمت کافی بڑھ جاتی ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ افغان
حکومت ہوش کے ناخن لے کر پاکستان دشمنوں کی شہ پرکام کرناچھوڑدے اوران
دہشتگردوں کے خلاف جلداز جلد مشترکہ کاروائیاں کرنے کی راہ ہموارکر ے تاکہ
افغان عوام مزید نقصان اٹھانے سے محفوظ رہیں ۔اسے چاہیے کہ پاکستان کے اُن
احسانات کو بھی یاد رکھے جس نے پچھلی تین دہائیوں سے لاکھوںافغان مہاجرین
کونہ صرف اپنے ہاں پناہ اور کاروبار کی اجازت دی بلکہ موجودہ کابل حکومت
کوبھی اب تک ایک ارب ڈالرکی امدادفراہم کرچکی ہے۔خیبر پختونخواہ میں واقع
چارسدہ اور پارہ چنار میں ایک بارپھرخودکش حملوں نے کئی سوالات کوجنم دیاہے۔
یہ علاقے پاکستانی قبائل کے زیرانتظام مہمند ایجنسی جو افغانستان کے صوبہ
ننگرہارکے قریب واقع ہیں۔ ۲۰۱۵ء میں پہلی مرتبہ افغانستان کے پانچ صوبوں
ہلمند،ذبول ، فرح،لاگراورننگرہارمیں مبینہ طورداعش کاوجود
دیکھاگیا۔بتایاجاتا ہے کہ مشرق کے بعداب یہ عساکر شمالی افغانستان میں بھی
اپنے قدم جمانے کی کوشش کرر ہے ہیں ،جہاں اس کاہدف وسطی ایشیامیں چیچن
اورچینی اوغر جنگجوؤں سے روابط قائم کرناہے مگرافغان طالبان کی کارروائیوں
اور نیٹو فوج کی کوششوں کی وجہ سے جنوبی اورمغربی افغانستان سے تنظیم کا
صفایا ہوگیا۔گذشتہ چندماہ میں مشرقی افغانستان میں بھی اس کے ہاتھ سے کچھ
علاقہ نکل گیا،البتہ ننگرہاراور کنڑ کے کچھ علاقوں پراب بھی اس کا کنٹرول
بتایا جاتاہے۔ ان حالات میں اگر پاکستان اورافغانستان میں تناؤبڑھ گیاتواس
سے دو طرفہ مشکلات میں نہ صرف اضا فہ ہوگابلکہ آمد بہار کے ساتھ ہی راستے
اور درے کھلنے کے بعدمزیدحملوں کا خدشہ بھی ظاہرکیاجارہاہے۔مہمندایجنسی،
باجوڑایجنسی،دیرلوئر،چترال،خیبر ایجنسی،جنوبی وزیرستان،غلام خان اور شمالی
وزیرستان کے ذریعے افغانستان سے آنے والے راستوں پرخصوصی سیکورٹی دستوں
کوہرقسم کاتمام اسلحہ فراہم کرتے ہوئے پیش بندی کے طور پرخصوصی اختیارات
دئے گئے ہیں تاکہ پاکستان میں داخل ہونے والے دراندازوں کوبرسر موقع ہی
ٹھکانے لگایاجاسکے۔اس حوالے سے اب دہشتگردانہ خطرات سے نمٹنے کاآخری
اورواحدطریقہ یہی اختیارکیاگیاہے تا کہ دہشت کی تپش کوپوری قوت کے ساتھ
دشمن کی سرزمین سے پیش قدمی کر نے سے روکاجاسکے۔ آپریشن’’ردالفساد‘‘ کالب
لباب یہی ہے ۔ |