سن انیس سو چھیاسی کی ایک کہانی، قسط 2

آج اتوار تھا۔ ارباز نے اپنے فٹبال کھیلنے والے خاص جوتے بڑے شوق سے صاف کئے۔ آج میچ تھا۔ ابھی ایک ہی جوتا پہنا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور بجتی ہی چلی گئی۔ یہ امی بھی بس کام کرتی رہتی ہیں یا بیٹھ کر تسبیحیاں کرتی رہتی ہیں۔ فون کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ یہی سوچتے سوچتے ارباز نے فون اٹھایا اور جیسے ہی ارباز نے ہیلو کہا تو اس کے کان میں دھماکے ہونے لگے۔ روزانہ فون کرتی ہوں اور آپ فون نہیں اٹھا رہے۔ کیا سر کی ٹنڈ کروانے کے بعد فون سننا منع ہے۔ لڑکی کی آواز سن کر ارباز سٹپٹا گیا۔ ابو نے ارباز کی ٹِنڈ کروا دی تھی۔ لیکن اس کو ساری خبر تھی اور فون کرنا بھی بند نہیں کیا تھا۔ میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ یہاں فون مت کریں۔ میں آپ کو جانتا ہی نہیں اور آپ کو کس نے بتایا میری ٹِنڈ کے بارے میں۔ ارباز ایک سانس میں بولتا ہی چلا گیا۔ فون تو میں کروں گی۔ میں تو آپ کو جانتی ہوں۔ کسی نے مجھے بتایا نہیں میں نے خود آپ کو دیکھا ہے۔ جواب بھی ایک ہی سانس میں آیا۔ دیکھیں آپ کیوں فون کریں گی۔ ارباز نے پریشانی سے پوچھا۔ بات کرنے کیلئے۔ لڑکی نے جواب دیا۔ آپ ہیں کون۔ ارباز نے سوال کیا۔ میں صائمہ ہوں۔ لیکن مجھے لڑکیوں سے بات کرنا اچھا نہیں لگتا۔ آپ مجھ سے کیوں بات کرنا چاہتی ہیں۔ ارباز نے لڑکی کی بات ان سنی کر کے سوال کیا۔ اگر نہیں کریں گے تو ٹھیک ہے میں آپ کے ابو سے بات کروں گی۔ یہ سن کر ارباز کو غصہ آ گیا۔ کریں بڑے شوق سے۔ ارباز نے جواب دیا۔ آپ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ ہاں نہیں کرنی جو مرضی کر لو۔۔ میں میچ کھیلنے جارہا ہوں۔ بھاڑ میں جاؤ۔ ارباز نے ریسیور فون پر پٹکا اور غصے سے بھرا سیدھا امی کے پاس پہنچ گیا۔ امی میں میچ کھیلنے جارہا ہوں۔ ابو کو بتا دینا۔ سبزی کاٹتی امی ارباز کی بات سن کر چونکیں۔ اتنے غصے سے جا رہے ہو۔ کیا بات ہے۔ امی نے پوچھا۔ کچھ نہیں امی، میں جا رہا ہوں۔ یہ کہہ کر ارباز باہر بھاگا۔ پہلے ہی کچھ دیر ہو چکی تھی۔

رات کے کھانے پر ارباز کی امی نے ابو کو بتایا کہ کوئی لڑکی بار بار فون کر رہی ہے۔ اسے دلاور سے بات کرنی ہے۔ ارباز کے کان اور آنکھیں امی کی طرف گھوم گئے۔ اب آیا تو مجھے بتانا۔ ابو کا یہ جواب سن کر ارباز کو متلی ہونے لگی۔ اگر یہ وہی لڑکی ہوئی اور اس نے ابو سے میرے بارے میں کوئی غلط بات کر دی۔ تو۔۔۔ پھر۔ یہ سوچ کر ارباز کی طبعیت خراب ہونے لگی۔ ارباز نے جیسے تیسے کھانا کھایا اور جا کر فون کا ریسور نیچے رکھ دیا۔ یہ لڑکی ہے کون۔ ارباز کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔ امی ابو تو سو گئے لیکن ارباز کا ذہن اس لڑکی کو ہی سوچے جا رہا تھا، کہ فون کی گھنٹی بج گئی۔ ابو یا امی نے یا پھر چھوٹے بھائی نے ریسیور اوپر رکھ دیا تھا۔ ارباز نے جست لگائی اور خاموشی سے ریسیور کان سے لگایا۔ وہی لڑکی تھی۔ ہیلو ہیلو کیے جا رہی تھی۔ آپ کو مسئلہ کیا ہے۔ ارباز نے بڑے دھیرے سے پوچھا۔ اچھا تو آخر آپ نے فون اٹھا ہی لیا۔ صاف پتہ لگ رہا تھا کہ لڑکی مسکرا رہی تھی۔ یہ سارا دن فون آپ تو نہیں کرتی رہیں۔ ارباز نے پریشانی سے پوچھا۔ ہاں میں نے کیا ہے۔ آپ کے ابو سے بات کرنی تھی۔ اس جواب نے ارباز کے ہوش اڑا دئے۔ تمہیں کیا بات کرنی تھی۔ ارباز نے پوچھا۔ آپ مجھے تمہیں نہیں بلکہ آئندہ صائمہ کہیں، میں نے آپ کی شکایت کرنی تھی کہ آپ ہمارے گھر فون کر کے تنگ کرتے رہتے ہیں۔ صائمہ کی اس بات پر ارباز کے چہرے پر کئی رنگ گزر گئے۔ آپ فون خود کرتی ہیں۔ مجھے آپ کا نمبر بھی نہیں پتہ۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو مجھے خوامخواہ مار پڑ جائے گی۔ ارباز نے منت سماجت شروع کر دی۔ ٹھیک ہے اگر آپ مجھ سے بات کرتے رہیں گے تو میں ایسا نہیں کروں گی۔ صائمہ کے اس مطالبے کے بعد ارباز اور صائمہ میں ایک معاہدہ ہو گیا۔ اس معاہدے کے تحت ارباز کو صائمہ سے بات کرتے رہنا تھا اور صائمہ صرف رات کو فون کرنے کی پابند ہوگئی تھی۔ کسی اور کے فون اٹھانے پر صائمہ نے فون بند کر دینا تھا۔ اس دور میں سی ایل آئی نہ ہونے کی وجہ سے نمبر ٹریس ہونے کا کوئی خطرہ بھی نہیں تھا۔ ارباز نے یہ معاہدہ تو طے کر لیا۔ لیکن بات کیا ہو گی۔۔۔ یہی سوچتے سوچتے اگلی رات آ گئی۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 117146 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More