سن انیس سو چھیاسی کی ایک کہانی، قسط 1

افسانوں میں نہیں حقیقت میں فون کی گھنٹی بجی۔ کسی نے فون نہیں اٹھایا تو ارباز کو جانا پڑا۔ ھیلو۔۔۔ کوئی لڑکی بولی۔ ارباز سے بات ہو سکتی ہے۔ ارباز کی عمر تقریباً سولہ سال تھی۔ بہن تھی نہیں اور ارباز کے ننھیال میں سے ایک بھی فرد دنیا میں نہیں تھا۔ گھر والے اور دوست، ددھیال کے چند رشتے دار۔ حلقہ احباب میں آج تک کوئی لڑکی نہیں تھی۔ ارباز کو کچھ سمجھ نہ آئی۔ او ہو۔ ارباز نام کو کوئی اور لڑکا ہوگا اور نمبر غلط ملا دیا ہے۔ بس یہی سوچ کر ارباز نے ہونٹ ہلائے۔ آپ نے غلط نمبر ملا دیا ہے۔ یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔ ساتھ ہی دوبارہ گھنٹی بجی۔ ارباز کےھیلو کہتے ہی پہلے والی لڑکی دوبارہ بولی۔ آپ ارباز ہی تو بول رہے ہیں۔ پھر غلط نمبر کیسے ملایا۔ میں نے نمبر تو صحیح ملایا ہے۔ لڑکی تو دور کی بات ارباز کی سوچوں میں بھی کسی لڑکی کی گنجائش ابھی تک نہ بنی تھی۔ ارباز کو جھٹکا لگا۔ یہ تو مجھے جانتی ہے، کون ہے۔۔۔۔ آپ کون۔ ارباز نے پوچھا۔ میں ایک لڑکی ہوں۔ ارباز سٹپٹا گیا۔ اچھی خبر دی ہے۔ کون سے ارباز کو فون کیا ہے۔ جو بات کر رہا ہے اسی ارباز کو۔ ارباز کو جواب ملا۔ میں تو اس کو جانتا نہیں، یہ کون ہے۔ ارباز جھنجھلا گیا۔ مجھے فون کیا۔ کس لئے۔ ارباز نے پوچھا۔ بات کرنے کیلئے۔ ہر بات کا چھوٹا سا جواب مل رہا تھا۔ اوہو کیا بات کرنی ہے۔ ارباز نے پوچھا۔ جب سنیں گے تو کروں گی۔ یہ جواب سن کر ارباز کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ تو آپ کے خیال میں ابھی تک میں سن نہیں رہا۔ ارباز دھاڑ پڑا۔ نہیں آپ لڑ رہے ہیں۔ اس جواب پر ارباز کی دھاڑ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ ارباز نے ریسور ہاتھ میں پکڑا، عجیب لڑکی ہے۔۔ اچھا بولیں کیا بات کرنی ہے، میں سن رہا ہوں۔ ارباز بڑی تمیز سے بولا۔ کل بلیک جینز میں بڑے اچھے لگ رہے تھے۔ ارباز کو لگا کہ یہ بات لڑکی نے گنگنا کر کی ہے۔

ارباز کی ٹانگیں کانپیں، اور پھر ہاتھ۔ ارباز نے ٹھک سے فون بند کر دیا۔ یہ 1986 کی بات ہے۔ اس وقت کے سولہ سال کے شریف لڑکے لڑکیوں کے معاملے میں آجکل کے لڑکوں جتنے ایڈوانس نہیں تھے، ۔ ارباز تقریباً بھاگتا ہوا گھر سے نکلا اور سیدھا شیراز کے گھر جا پہنچا۔ گھر میں والد سخت تھے۔ والدہ کو مار کھانے سے اور گھر کے کام کاج سے فرصت نہیں ہوتی تھی اور سانس پھولتے ہوئے ارباز کی پہنچ اس کے دوستوں تک ہی تھی۔ یار بڑی گڑبڑ ہو گئی ہے۔ اچھا۔ جلدی سے میرے کمرے میں آ۔ یہ کہتے ہوئے شیراز کا اپنے چہرے کا رنگ بھی بدل گیا تھا۔ شیراز نے کمرہ کا دروازہ بند کیا اس نے ارباز کو دونوں کندھوں سے پکڑ لیا۔ منہ کے سامنے منہ کیا اور ایک ڈری ڈری سے سرگوشی کی ، کیا ہوا۔ تیرے ابو مار رہے ہیں آنٹی کو۔ نہیں یار وہ تو گھر ہی نہیں ہیں۔ وہ یار ایک لڑکی کا فون آیا ہے دو بار۔ کہہ رہھی تھی کہ کل بلیک جینز میں بڑے اچھے لگ رہے تھے۔ ابو کو پتہ لگ گیا تو وہ مجھے ماریں گے۔ ابھی صبح بھی مارا تھا۔ شیراز کی آنکھوں میں باقائدہ آنسو آ گئے۔ اور کچھ کہا اس نے۔ شیراز نے پوچھا۔ کہہ رہی تھی کہ آپ سے بات کرنی ہے۔ ارباز کی یہ بات سن کر شیراز کے بھی ہوش اڑ گئے۔ دونوں دوست ایک ہی جیسے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے اور دونوں کے رنگ فق تھے۔ کچھ دیر بعد ارباز گھر پہنچا۔ شیراز کے مشورے سے ایک بات سوچ لی تھی۔ ارباز ہر فون بھاگ بھاگ کر اٹھاتا اور اگلے دن اسی لڑکی کا فون آ گیا۔ کیا حال ہیں آپ کے۔ یہ لڑکی کا سوال تھا ۔ دیکھیں آپ یہاں فون نہ کریں۔ میں لڑکیوں سے بات نہیں کرتا۔ میرے ابو کو پتہ لگا تو وہ مجھے ماریں گے۔ ارباز نے یہ کہہ کر ریسور فون پر پٹخا اور بھاگم بھاگ شیراز کے گھر پہنچ گیا۔ یار میں نے کہہ دیا۔ جان چھوٹی۔ اس نے کیا کہا پھر۔ شیراز نے یہ بات سن کر پوچھا۔ میں نے فون بند کر دیا تھا۔ ارباز نے بتایا۔ چل ٹھیک ہے۔ شیراز نے دو عمران سیریز رسالے نکالے اور دونوں نے وہ رسالے پورے پڑھے اور ارباز گھر آ گیا۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 117143 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More