شام میں جاری خانہ جنگی ساتویں سال میں داخل ہو چکی ہے _
اس دوران چار لاکھ پینسٹھ ہزار سے زائد لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں اور
تقریباً ایک ملین لوگ زخمی ہوئے ہیں _ جبکہ بے گھر ہونے والے لوگوں کی
تعداد بارہ ملین سے بھی زیادہ بتائی جا رہی ہے جو عارضی خیموں میں رہائش
پذیر ہیں یا پھر ہمسائے ممالک میں مہاجرین کی صورت زندگی کے دن پورے کر رہے
ہیں _ شام تاریخی, سیاسی اور مذہبی لحاظ سے اہم ملک شمار کیا جاتا رہا ہے _
ایبلا نامی قدیم ترین تہذیب جو کہ 3500 سال قبل مسیح میں یہاں آزاد ریاست
کے طور پر موجود تھی اور موجودہ شامی شہر ادلب کے قریب تھی سے لے کر
عثمانیوں تک مسلسل شام آباد رہا ہے اور سقوط خلافت کے بعد فرانس کے قبضے سے
لے کر اب موجودہ حکمران بشار الاسد تک اس کی اہمیت جوں کی توں موجود ہے _
2011 میں جو کہ عرب بہار کے حوالے سے جانا جاتا ہے تیونس کے صدر زین
العابدین بن علی اور مصری صدر حسنی مبارک کے خلاف عوامی ردعمل سامنے آیا
اور ان کی حکومتوں کا تختہ الٹا دیا گیا _ اسی سال مارچ میں عوامی پر امن
مظاہروں پر بشار الاسد کی طرف سے پر تشدد کاروائیوں کا آغاز ہوا_ ان
مظاہروں کی وجہ پندرہ نوجوانوں پر حکومتی تشدد کے نتیجے میں ایک 13 سالہ
لڑکے حمزہ الخطیب کا جاں بحق ہونا تھی اور ان نوجوانوں کا جرم یہ تھا کہ
انہوں نے عرب بہار کی حمایت میں وال چاکنگ کی تھی _ اس واقعے کے فوری بعد
ملک میں فسادات اٹھ کھڑے ہوئے اور اسی نتیجے میں جولائی 2011 میں فوج کے
چند گروپوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا جس سے ملک میں باقاعدہ
خانہ جنگی کا آغاز ہوا _
بیرونی طاقتیں اسی صورتحال کے انتظار میں تھیں اور ان کی مداخلت نے خانہ
جنگی کو مزید ہوا دینا شروع کر دی _ 2014 میں امریکہ نے شام کے کئی علاقوں
پر عراقی باغیوں کے نام پر بمباری کی جنہیں داعش کا نام دیا گیا _ روس
امریکہ کو شام میں کہاں دیکھ سکتا تھا موقعہ ملتے ہی ستمبر 2015 میں روس نے
بشار الاسد کے ساتھ اتحاد قائم کر کے حکومت مخالف علاقوں پر حملے شروع کر
دیے اور بشار کی حکومت کا دفاع کیا _ مزید بشار کے ساتھ لبنانی تنظیم حزب
اﷲ ,کچھ ایرانی اور افغانی عسکری گروپوں نے بھی اتحاد قائم کر لیا _ اس
صورتحال میں عرب ریاستیں متحد ہو گئیں اور انہوں نے بشار مخالف تنظیموں کو
جنگی سازوسامان اور اسلحہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ براہ راست خود بھی
مداخلت شروع کی جن میں ترکی بھی شامل تھا _ یاد رہے کہ امریکہ کہنے کو بشار
کے مخالف تھا لیکن 2013 کے بشار حکومت کی جانب سے کیے جانے والے کیمیائی
حملوں پر اس کا کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ
کا 500 ملین ڈالر کا شامی باغیوں کو جنگی تربیت دینے کا منصوبہ بھی درمیان
میں ادھورا چھوڑ دیا گیا تھا _ اس سارے عرصے میں شام ایک کھنڈر کی شکل
اختیار کر چکا ہے اور کئی طاقتوں کی مسلسل مداخلت کے باوجود ہر نئے دن کے
ساتھ جنگ کی شدت بڑھتی چلی جا رہی ہے جس میں زیادہ تر عام معصوم شہریوں کا
جانیں جا رہی ہیں _
تازہ ترین صورتحال کے مطابق ایک دفعہ پھر بشار حکومت کی جانب سے عام شہریوں
پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا ہے جس میں کم از کم 80 افراد جان بحق
ہو چکے ہیں _ کچھ عرصہ پہلے تک کہا جا رہا تھا کہ شام سے 1300 ٹن سارن
اعصاب شکن گیس کا خاتمہ کر دیا گیا ہے لیکن اس کیمیائی حملے نے تمام دعووں
کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے _ اس کے جواب میں اب امریکہ نے کروز میزائلوں سے
شام کے فضائی اڈے کو نشانہ بنایا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہاں
سے کیمیائی ہتھیار لے جائے گئے تھے _ یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن شام اس
خانہ جنگی کے نتیجے میں تباہ ہو چکا ہے _ شام کے کئی علاقے خصوصاً حلب میں
طبی اور صحت عامہ کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے _ بجلی گھر, پانی کی سپلائی
اور سڑکیں بربادی کی داستانیں سنا رہی ہیں _130 مختلف این جی اوز کی رپورٹس
کے مطابق 2015 تک 83 فیصد گرڈ اسٹیشنز مکمل طور پر ناکارہ ہو چکے تھے _
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے چیف زید رعد الحسین نے شام کی جنگ
پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ عظیم دوم کے بعد
یہ جنگ بدترین انسانی المیہ ہے _ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انسانی حقوق کی
تنظیم کو متاثرہ علاقوں تک رسائی نہیں دی جا رہی _ شام اب تیزی سے
افغانستان اور عراق جیسے حالات سے دوچار ہو رہا ہے جہاں از سرنو تعمیر کی
تمام کوششوں کے باوجود پر تشدد کاروائیوں میں کمی نہیں لائی جا سکی _ اس کے
ساتھ ساتھ بیرونی طاقتیں شام میں امداد اور فنڈنگ کے نام پر اپنا اپنا حق
جتا رہی ہیں جس کا مقصد ان کی اپنی من مانی پالیسیاں لاگو کرنا ہے _
شام پوری امت کا ایک علامتی معاملہ ہے _ احادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا
ہے کہ اگر شام میں بھی اسلام کو بگاڑ دیا گیا یا وہ آخری درجہ پر پہنچ گیا
تو یہ امت مسلمہ کے لیے باعث تشویش ہو گا _ مسند احمد کی روایت کے مطابق آپ
صل اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا, " جب فتنوں کا دور آئے گا تو پھر ایمان شام میں
ہو گا" اسی طرح جامع ترمذی میں روایت ہے کہ آپ صل اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا,
" اگر شام میں فساد برپا ہو گیا تو پھر تمہارے اندر کوئی خیر نہیں رہے گی "
_ ایک اور جگہ روایت ہے کہ آپ صل اﷲ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے چھے باتوں
کا تذکرہ فرمایا جن میں ایک بات یہ تھی کہ "تمہارے اور بنی اصفر کے درمیان
صلح ہو گی_ پھر وہ بے وفائی کریں گے اور اسی جھنڈے لے کر تم پر چڑھائی کر
دیں گے جن میں ہر جھنڈے تلے 12 ہزار کا لشکر ہو گا _ ( بنی اصفر اکثریت
لوگوں کے مطابق یورپی اقوام ہیں)
ان سارے معاملات کو دیکھتے ہوئے گمان کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اس کا
ساتھ دینے والے بشار کی حکومت گرانا چاہتے ہیں تاکہ وہ ان علاقوں پر قابض
ہو جائیں _ شامی حکومت کی پشت پناہی ایران, روس اور چین کر رہے ہیں تاکہ
امریکہ یہاں قابض نہ ہو سکے _ اب ظاہراً مسلم ممالک اور امریکہ کا مفاد ایک
ہے لیکن مقاصد بلکل مختلف ہیں اور ان کا مشترکہ دشمن روس ہے جو شام میں
موجود طرطوس کی بندرگاہ پر نظر جما کر گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے کے
لالچ میں رال ٹپکا رہا ہے _ اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کیا نتیجہ
نکلتا ہے لیکن موجودہ صورتحال آپ صل اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے عین مطابق دکھ
رہی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ تم رومیوں سے صلح کروگے اور اس دشمن کا مل
کر مقابلہ کرو گے جو تمہارے پیچھے ہے _ امت مسلمہ کو چاہیے کہ تمام
اختلافات کو پس پشت رکھ کر آپ صل اﷲ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی پیشگویؤں کے
مطابق لائحہ عمل تیار کریں اور باطل کی ہر چال کا متحد ہو کر مقابلہ کریں
تاکہ امت کے اندرونی و بیرونی مسائل کا خاتمہ ہو سکے _ |