مقبوضہ جمو ں و کشمیر میں روہنگیا مسلمان جہاں نظر آئیں ،
انہیں پکڑیں اور قتل کر دیں۔یہ اعلان جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا
ہے۔جموں چیمبر کے اس اعلان کے بعد خطے میں روہنگیا مسلمانوں کی کئی بستیوں
کو آگ لگا دی گئی۔ متعدد مسلمانوں پر جگہ جگہ تشدد کیا گیا۔ انہیں جموں
چھوڑنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ جموں چیمبر کے صدر کی دھمکی کے بعد کشمیر
چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میدان میں آگئی ہے۔اس نے بیان کی شدید مذمت
کرتے ہوئے کہا کہ جموں چیمبر بیان واپس لے ورنہ سنگین نتائج کے لئے تیار
رہے۔ جموں چیمبر پر بھی جن سنگھی ہندو انتہا پسندوں کا قبضہ ہے۔ جموں میں
لاکھوں کی تعداد میں ہندو ریفیوجیز رہائش پذیر ہیں۔ یہ 1947سے جموں خطے میں
رہتے ہیں۔ انہیں ہندو انتہا پسند بی جے پی حکومت مقبوضہ ریاست کی شہریت دے
رہی ہے۔ جب کہ جموں اور ریاسی اضلاع میں گزشتہ چند سال سے حکومتی اجازت سے
آباد برما کے روہنگیا مسلمانوں کو جموں بدر کی دھمکیاں دی اج رہی ہیں۔
انہیں پکڑو اور قتل کرو کے فرمان جاری ہو رہے ہیں۔ سامنے تجارتی تنظیم کو
لایا گیا ہے۔ اس کی پشست پر آر ایس ایس اور بی جے پی ہے۔ بھارتی حکمرانوں
نے برصغیر کی تقسیم کے بعد بنگلہ دیش کے ہندو ریفیوجیز کو بھارت کے بجائے
مقبوضہ جموں کشمیر میں کیوں بسایا گیا۔جو عالمی متنازعہ ریاست ہے۔ آبادی کا
تناسب تبدیل کرنا ایک بڑا مقصد ہے۔ خطے میں مسلم آبادی کی اکثریت بھارت کے
ساتھ الحاق یا ادغام کی مخالف ہے۔ تا ہم ہندو آبادی کی اکثریت بھارت کے
ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ ہندو آبادی یا لداخ کی بدھ مت آبادی کی اکثریت الحاق
پاکستان کی مخالف ہے۔ کسی نظریئے کی حامی یا مخالف آبادی کو کو جبری طور پر
اس کی سوچ یا اس کی ملکیت جائیداد سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن
میانمار یا برما میں بودھ مت کے پیروکاروں نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام
کیا۔ مسلمان جان بچانے کے لئے بنگلہ دیش،بھارت، تھائی لینڈ، ملائشیا اور
دیگر ممالک کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ چند ہزار جموں میں آباد ہو
گئے۔ جنھیں ہندو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مظلوم بودھ مت کے بعد ہندو
دہشتگردی کا شکار ہو رہے ہیں۔یہ بھارت کی جمہوریت ہے جو کشمیر کو ہندو
نظریات سے فتح کرنا چاہتا ہے۔کشمیر کی مسلم آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنا
بھارت کا خواب ہے۔ یہی خواب پورا کرنے کے لئے کشمیری مسلمانوں کا قتل عام
کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز بھی 12مسلمان شہید کر دیئے گئے۔ جن میں کم سن
نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ سیکڑوں کو زخمی کیا گیا۔ان کا جرم یہ تھا کہ
وہ بھارتی جعلی انتخابات کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ۔ ان کے ہاتھ میں بندوق
نہیں بلکہ کنکر تھے۔
دو قومی نظریہ اور تقسیم کے اصولوں کے مطابقبنگالی ہندوؤں کو بھارت میں
بسایا گیا ہوتا تو یہ بھارت کے شہری کہلاتے۔ مگر ان کی بدقسمتی اور بھارتی
حکمرانوں کی بد نیتی نے انہیں 70سال سے شرنارتھی بنا رکھا ہے۔ وہ آج بھارت
کے شہری ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں جموں و کشمیر کی شہریت نہیں دی جا سکتی
ہے۔ 1987میں جموں میں بسنے والے ریفیوجیز کی ایکشن کمیٹی نے سپریم کورٹ آف
انڈیا میں رٹ پٹیشن دائر کی۔ سپریم کورٹ نے یہ رٹ پٹیشن خارج کر دی تھی۔
سپریم کورٹ نے واضح کیا تھا کہ جموں و کشمیر ریاست کو خصوصی درج حاصل ہے ۔
اس وجہ سے سپریم کورٹ درخواست گزار کو کوئی ممکنہ ریلیف نہیں دے سکتی۔ اس
کے باوجود بھارتی حکومت ان ریفیوجیز کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ جاری رکھا
اور ان کا استحصال کیا گیا۔بھارت جانتا ہے کہ یہ ریاست جموں و کشمیر کی
قانون ساز اسمبلی تک ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کرے تو ان ریفوجیز کو ریاستی
شہریت مل سکتی ہے۔ اگر جموں و کشمیر ری پریزنٹیشن آف دی پیپل ایکٹ، لینڈ
ایلائنیشن ایکٹ، ویلیج پنچایئت ایکٹ، وغیرہ میں ترمیم ہو تو پھر مغربی
پاکستان کے ریفیوجیز کو ریاستی انتخابی فہرستوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
تب یہ ریاست میں زمین جائیداد خرید سکتے ہیں۔ پنچایت الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
بھارتی اور ریاستی حکومت انہیں آج ڈومیسائل جاری کرنے کا جواز یہ دے رہی کہ
انہیں بھارتی فورسز میں بھرتی کرنے کے لئے شناختی کارڈز جار ی کے جا رہے
ہیں۔ جب کہ ریفیوجیز کو ملازمتیں دینے کے لئے جموں و کشمیر سول سروسز ،
کلاسیفکیشن آف کنٹرول اینڈ اپیل رولز میں ترمیم کرنا ہو گی۔ جس طرح جموں
میں برما سے2009کے بعد سے ہجرت کرنے والے تقریباً 10ہزار روہنگیا مسلمانوں
کے کنبے آباد ہیں۔ وادی میں تبتی مسلمانوں کے مہاجرسیکڑوں کنبے تبتی کالونی
میں رہتے ہیں۔ بھارتی میڈیا پروپگنڈا کر رہا ہے کہ ریاست میں ہندوؤں کے
ساتھ مذہبی تعصب کی وجہ سے ان ریفیوجیز کو ڈومیسائل دینے کے خلاف ایجی ٹیشن
کی جا رہی ہے۔ جب کہ مسلم ریفیوجیز کے بارے میں سب خاموش ہیں۔ ہندو رفیوجیز
کو ڈومیسال نہ دیا جاتا تو کوئی احتجاج نہ کرتا جیسے کہ گزشتہ 70سال سے سب
خاموش رہے۔ 70سال بعد بھارت کی وزارت داخلہ جموں خطے میں رہائش پذیر بنگالی
ہندو ریفیوجیز کے لئے شناختی کارڈ ز جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس کا اطلاق
مقبوضہ ریاست پر نہیں ہوتا۔ ریاست کی خصوصی پوزیشن ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ
بے جا مداخلت کررہی ہے جو کہ ریاستی پوزیشن پر جارحانہ حملہ ہے۔
جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور مہاراجہ کے بنانے ہوئے سٹیٹ سبجیکٹ
قوانین کے مطابق کوئی بھی غیر ریاستی باشندے آزاد اور مقبوضہ کشمیر میں
زمین نہیں خرید سکتا اور نہ ہی وہ ریاستی شہریت اختیار کر سکتا ہے۔ مسلہ
کشمیر کے حل تک اس سٹیٹس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔ کیوں کہ اسمبلیوں کو
اس طرح کے آئینی ترمیم کی اجازت نہیں۔ریاست کے سٹیٹ سبجیکٹ قوانین مہاراجہ
1927میں بنانے پر مجبور ہوا جب پروسی ریاستوں کے باشندوں نے ریاست پر قبضہ
کرنا شروع کر دیا جس پر مہاراجہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے سٹیٹ
سبجیکٹ قوانین کی تشریح کی اور ریاستی شہریت قوانین بنائے۔ جموں میں بی جے
پی ، آر ایس ایس اور دیگر ہندو انتہا پسندوں کو بنگالی ہندؤں کو بسانے میں
دلچسپی ہے مگر وہ جموں میں وادی کشمیر کے مسلم شہریوں کے بسنے پر احتجاج
کرتے ہیں کہ یہ آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ یہی رویہ مہاجرین
روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ آزاد کشمیر حکومت ہی نہیں بلکہ
پاکستان کو اس پر احتجاج کرنا چاہیئے کیوں کہ بنگالی ہندو ریفیوجیز کو
کشمیر کی شہریت دینے سے مسلہ کشمیر کی متنازعہ عالمی حیثیت متاثر ہو گی۔
کیوں کہ کسی رائے شماری میں غیر ریاستی آبادی کی شرکت مسلے کو مزید الجھانے
کی کوشش ہو گی۔جموں کے ہندو فرقہ وارانہ ذہنیت کے شرپسندوں کے حصار میں ہیں۔
وہ لاکھوں بنگالی ہندو ریفیوجیز کو شہریت دینے اور چند ہزار برمی مسلمانوں
کو قتل کرنے کی حمایت کریں گے تو فسادات کی راہ ہموار ہو گی۔ جس کا فائدہ
ریاست کو نہیں بلکہ بھارتی شر پسندوں کو ہو گا۔کیوں کہ وہ اس خطے کو آگ لگا
دینے کی سوچ رکھتے ہیں۔ |