میری سادگی دیکھ ۔۔۔۔۔

سیاست کو دنیا نے اس لئے اپنایا تھا کہ تمام وہ ممکنہ اقدامت کئے جائیں جس سے انسانوں کی بھلائی، ان کی فلاح اور معاشرے میں تعمیر و ترقی کی راہیں کھولی جاسکیں ، لوگ ایک دوسرے کے کام آنے کی وجہ بنیں ، یکساں حقوق کی فراہمی آسان ہوسکے، جھگڑے اور فاد کی جگہ امن و سکون پیدا ہو، اختلافات کی جگہ اتحاد و اتفاق سے زندگی گزارنے کی مواقع فراہم ہوسکیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ اس نظریہ میں تبدیلی آئی لوگوں نے جسے طرز حکمرانی کی بہتری کیلئے اصول کے طور پر اپنے لئے پسند کیا تھا وہ نظام ان کیلئے وبال جان بن گیا ۔اتفاق اور اتحاد کی جگہ نفرت و عداوت نے لے لی ، غریب لوگ کمزور تصور کئے جانے لگے، بااثر افراد حاکم بن بیٹھے اور ان کے ہر عمل میں مداخلت کرنے لگ گئے ،ان کی طاقت ان کا سرمایہ تھا جو دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی ان کا تسلط بڑھ گیا ، یہ سیاست کی بنیاد سے ناواقف ہونے کے باوجود اسے اپنی جاگیر اور عوام کو رعایا کے روپ میں دیکھنے لگے ۔ ان کی کج فہمی نے اقربا پروری ، لاقانونیت اور بدعنوانی کو فروغ دیا جس نے معاشروں کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ۔میل جول کے راستے مسدود ہوگئے ،مفادات کا حصول ہر شے پر غالب آگیا، تعصب نے لوگوں میں نفرت کے ایسے بیج بوئے کہ یہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن گیا ، اسی کے بل بوتے معاشرے میں تعلقات کا استوار ہونا وجہ قرار پائی ۔ لوگ قوم قبیلے ، رنگ نسل ، زبان کی عصبیت کے نرغے میں آگئے ۔اس کی بنیاد پر سیاست کے اصول بننے لگے ۔ انہیں یہ پرواہ بھی نہ رہی کہ اس سے معاشرے پر کیا اثرات ہوں گے ، اگلی نسلوں کا کیا ہوگا وہ اس سے درکنار اپنی مستی میں مست رہنے لگے ۔ قیام پاکستان کے بعد اور اس سے پہلے کی سیاست میں نمایاں فرق آیا ۔ پاکستان بننے سے قبل سیاست کا محور مسلمانان برصغیر کی بھلائی ، ان کے بنیادی حقوق تک ان کی پہنچ ، انہیں اپنی مذہبی رسومات اور عقائد کی ادائیگی میں آزادی دلانے کی جستجو تھی ۔ قیام کے بعد اس میں اقتدار کا حصول اصول بن کر سامنے آیا ۔ تعصب کے پودے نے اپنی جڑیں مضبوط کرلی تھیں ۔مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ سیاست میں انتقام نے جگہ لینا شروع کردی ۔ آمریت نے جمہوریت کا گلا گھونٹنا شروع کیا ۔ پھر آمریت اپنی موت آپ مرنے لگی لیکن اس کے اثرات سیاست پر ضرور نقش کردئے جو آج کی سیاست میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ مقتدر حلقے ہر جائز او ر ناجائز اقدام اٹھانے کو اپنا حق سمجھنے لگ چکے ہیں ۔ خلافت جو بہت عرصے سے ملکوکیت کی صورت دنیا میں ظہور پزیر ہوچکی ہے وہ وطن عزیز میں بھی فی زمانہ رائج ہے اب اس میں تبدیلی لانے کیلئے پھر سے کوششیں کی جارہی ہیں ۔ ہماری سیاست ، ملکی معاملات میں خرابی اور ریاستی اداروں میں خرابی اور تباہی اچانک نہیں آئی اور نہ یہ ممکن ہے کہ ہم اس تباہی و بردبادی کو یک جنبش سے قلم و انگشت سے ٹھیک کرسکتے ہیں ، اس کیلئے وہ تمام درخت جڑ سے اکھاڑ پھینکنے ہوں گے جن سے لاقانونیت اور بد عنوانی کے پھل دستیاب ہوتے ہیں ۔اس خوشہ گندم کو جلانا ہوگا جس سے کسان کو آسودگی حاصل نہ ہو ، پرواز میں کوتاہی آئے ۔ یہ مشکل امر ضرور ہے لیکن نہ ممکن نہیں ۔ اﷲ کے آخری نبی ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں تو اس کا طریقہ کار واضح ہوجاتا ہے ۔ آپ ﷺ نے بعثت سے قبل خود کو اہل عرب میں سب سے معتبر اور ممتاز بنایا۔ امانت دار اور سچا ثابت کیا۔ چالیس سال تک ایک ایسی شخصیت کے روپ میں رہے کہ لوگ کچھ بھی ہو ان پر اعتماد کئے بغیر نہیں رہے ، ہر فرد کوئی نہ کوئی کمزوری ، خامی میں مبتلا تھا لیکن آپ ﷺ سے متعلق کسی کو کوئی خامی ، خرابی یا کمی محسوس نہیں ہوئی۔ اہل قریش آپ ﷺ کو نبی ماننے کا تیار تھے مگر انا ان کے آڑے آجاتی تھی ، ابوجاہل بھی آپ ﷺ کے ہاتھ بیعت کرنے کو تیار تھا اگر وہ اپنے خاندانی وقار کو گردیتا ، وہ ایسا نہ کرسکا اور ہاتھ ملتے جہنم واصل ہوا۔ اس نے ہر طرح کی مخالفت کے باوجود آپ ﷺ کو سچا، دیانت دار ہی سمجھا کیونکہ اس نے آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں کبھی کوئی جھول ،کوئی غلط بیانی نہیں دیکھی ۔مکہ میں جب آپ ﷺ پر زمین تنگ ہونے لگی تو ہجرت کی ۔ نئے شہر میں بھی اﷲ کے قانون کے مطابق لوگوں کو زندگی گزارنے کی تربیت کرتے رہے ، مکہ جہاں سے انہیں محبت کی جگہ نفرت ملی تھی آپ ﷺ ان کے لئے رحمت بن کر آئے ، امان بخش دی ، ان کے دلوں میں آپ ﷺ نے جگہ بنالی ۔ اقتدار کی خواہش آپ ﷺ کو تھی اور نہ ہی آپ ﷺ کے اصحاب نے کبھی اس کی تمنا کی ۔ آپ ﷺ نے کبھی اقتدار کو وجہ بناکر اصلاح کرنے کا نہیں سوچا۔

عمران خان پاکستان کی سیاست میں دو دھائی سے موجود ہیں ۔ وہ کرکٹ کے کھیل میں بڑا نام بناچکے ہیں ، کینسر ہسپتال کے قیام کی وجہ سے ان کی عوامی مقبولیت اور بھی بڑھی ۔ انھوں نے اس کے بل بوتے سیاست میں قدم رکھا ، نئے لوگ ان کے قافلے میں شامل ہوئے ، سیاست میں صبر وتحمل بنیادی عنصر ہوتا ہے ، وہ اس کے متحمل نہیں تھے ۔وہ نئے خون پر بھروسے کی بجائے سیاست کی بساط کے پرانے مہروں پر تکیہ کرنے لگے ۔ یہ ان کی پہلی سیاسی غلطی تھی ۔ انہوں نے خیبر پختون خواہ میں حکومت تو بنالی لیکن سیاسی افق پر نمایاں تبدیلی نہ لا سکے ۔ حکومت اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو آڑے ہاتھوں لیا مگر اپنے اندر موجود خرابیوں کو دور کرنے میں ناکام رہے ۔ان کی پارٹی میں تنظیم سازی کا فقدان عرصہ سے موجود ہے اور وہ ہر تھوڑے دنوں کے بعد اس میں اصلاحات کیلئے اقدامات کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔سابق چیف جسٹس وجیہہ الدین ناکام ہوئے اور سابق گورنر چوہدری سرور نے پی ٹی آئی بھی اس کا بیڑا اٹھارکھا ہے ، وہ اس میں بہتری لانے کیلئے سرگرم ہیں ۔ پاناما کیس کا فیصلہ محفوظ ہوچکا ہے ۔ اب عمران خان کے پاس کوئی کام نہیں رہا ۔ ان کا سیاسی کاروبار ٹھپ ہوچکا ہے ۔ ان کے پاس میڈیا کے لوگ وقت گزاری کیلئے آتے ہیں ، ان کے دل کی بات ان کی زبان پر ذرا سے دباؤ ، معمولی سے شہہ پر آجاتی ہے ، دھرنے میں انہوں نے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کرکے ایک جانب انہوں نے سیاست کے داؤ پیچ نہ سمجھنے کی یقین دھانی کروادی دوسری طرف کئی دلوں پر تیر بھی چلادئے ۔ عمران خان عرصہ سے وزیراعظم بننے سے متعلق فضا سازگار کررہے تھے ، ان کی گفتگو، نشست برخاست میں اس کا اشارہ کیا جاتا تھا، اب وہ اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہوچکے ہیں ۔ وہ اپنے دل کی بات زبان پر لے آئے ہیں کہ انہیں وزیراعظم بننا ہے ، کیوں ۔۔۔؟ یہ اہم سوال ہے ۔ ان کی سیاسی بصیرت اس کے آگے جواب دینے کیلئے معذور ہے ۔ وہ ایک عام کم فہم آدمی کی طرح سے جواب دیتے ہیں، جیسے کسی کو کہیں سے امداد مل جائے ، اس کا انعام لگ جائے ، لاٹر ی کھل جائے تو وہ اس کے بعد کیا کیا کرے گا ، یہی حال کپتان کا بھی ہے ، وہ وزارت عظمیٰ مل جانے کے بعد تمام خرابیوں کو دور کردیں گے ، تمام ریاستی اداروں کا قبلہ درست کردیں گے ، قوم کا مزاج بدل دیں ، جس تبدیلی کا نعرہ وہ عرصہ دراز سے لگارہے اسے حقیقت کا روپ دے دیں گے ۔ وہ اپنی کارکردگی سے بہت زیادہ مطمئن نظر آتے ہیں ، ان کے ہم نوا اس طرح سے اس کا ساتھ دینے پر زیادہ آمادہ ہیں ، ان کی سیاست میں اول اقتدا ر ہے جس کے حصول کے بعد ہی وہ حقیقی تبدیلی لاسکتے ہیں ۔ ہے نا ۔۔! سیاسی نا پختگی ۔ اب کوئی ان پر طعنہ زنی کرے یا ان کی عقل پر ماتم کرے ، انہیں برا نہیں لگنا چاہئے ، کیونکہ جس چیز کو وہ بنیاد بنا کر تبدیلی لانا چاہتے ہیں ایسا کہیں ہوتا ہے اور نہ تصور کیا جاتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی سادگی ہو ۔ عام طور بچے اس طرح کی سادگی کا مظاہر ہ کرکے لوگوں کی توجہ حاصل کرلیتے ہیں ، ممکن ہے کہ عمران خان ان فارغ ایام میں اپنی جانب توجہ کا سامان کررہے ہوں

Mujahid Shah
About the Author: Mujahid Shah Read More Articles by Mujahid Shah: 60 Articles with 43297 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.