چند دن قبل امام حرم شیخ صالح آل طالب نے وطن عزیز
پاکستان کا پانچ روزہ انتہائی کامیاب دورہ کیا۔ان چند ایام میں ان کو قریب
سے دیکھنے کا موقع ملا۔شیخ صالح آل طالب انتہائی معتدل اور نفیس شخصیت کے
مالک ہیں۔انتہائی بر محل اور دھیمے لہجے میں گفتگو ان کا خاصہ ہے۔ذہانت کسی
سے ڈھکی چھپی نہیں ، کم عمر ی میں ہی قرآن کریم حفظ کیااور حفظ قرآن کی
تکمیل کے بعد سعودی عرب کے شہر ’’ریاض‘‘ کے شریعہ کالج میں داخلہ لیااور
وہیں سے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ہائرانسٹی ٹیوٹ آف جسٹس سے ایم اے
کی ڈگری حاصل کی ۔شیخ صالح کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا
سکتا ہے کہ جب سعودی ولی عہد نے ملک میں بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی
ضرورت کے پیش نظر اس کمی کو پورا کرتے ہوئے تین علمائے دین کی برطانیہ سے
بین الاقوامی دستور میں پی ایچ ڈی کے لئے خصوصی منظوری دی تو ان میں شیخ
صالح کا نام بھی شامل تھا۔شیخ صالح نے اپنی عملی زندگی کا آغاز سپریم کورٹ
سے کیا اور اہم عہدوں پر فائز رہے۔ 3 نومبر2002ء کو شیخ صالح مسجد حرام کے
امام مقرر ہوئے اور اسی دن آپ نے نماز عصر پڑھا کر اپنی امامت کا آغاز
کیا۔پھر کچھ ہی عرصہ کے بعد 11 اگست 2009 ء میں مسجد حرام کے مدرس بھی
مقرر کر دئے گئے۔شیخ صالح آل طالب متعدد کتب کے مصنف بھی ہیں۔جن میں’’
تہذیب و ثقافت کی اشاعت میں مسجد الحرام کا کردار‘‘ ’’نو مسلموں کے احکام
‘‘جیسی شہرہ آفاق کتب شامل ہیں ۔اس کے علاوہ وہ اور بھی کئی عنوانات
پرکتابیں لکھ چکے ہیں۔
امام حرم شیخ صالح آل طالب نے اپنے دورہ پاکستان کا آغاز 7 اپریل کو جمعیت
علماء اسلام کے صد سالہ اجتماع سے کیا۔جہاں انہوں نے مسلمانان پاکستان کے
ایک عظیم اجتماع کو جمعہ کے خطبہ کے موقع پر مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ
علماء کرام دین کی تعلیمات کے امین ہیں۔تمام مسلمان فرد واحد ہیں۔قرآن کی
یہ تعلیم ہے کہ اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑواور فرقہ واریت میں نہ
پڑو۔اسلام امن و محبت کا دین ہے،اﷲ جس سے خیر کا کام لینا چاہیں اسے دین کی
سمجھ عطاء کر دیتے ہیں۔جو لوگ دین میں فرقہ واریت پیدا کرتے ہیں وہ فلاح
نہیں پائیں گے۔پھر فرمایا کہ جس میں تقوی زیادہ ہے اﷲ کے ہاں اس کابلند
مقام ہے۔قرآنی تعلیمات اور اسوہ حسنہ میں ہی فلاح ہے۔اسلام امن و محبت کا
دین ہے۔اس امت کو اﷲ نے بہترین امت بنایا ہے۔خدائی وحدانیت پر یقین ہمارے
ایمان کا بنیادی جزو ہے۔
اسی طرح اجتماع کی اختتامی نشست کے موقع پر بھی امام کعبہ شیخ صالح آل طالب
نے امت مسلمہ اور خصوصا پاکستان کے حالات کو سامنے رکھ کر انتہائی پر مغز
گفتگو فرمائی۔آپ نے فرمایا کہ اس وقت عالم اسلام پاکستان کی طرف دیکھ رہا
ہے۔اﷲ تعالی پاکستان کی حفاظت فرمائیں اور عالم اسلام کی ترقی کا ذریعہ
بنائیں۔پھر فرمایا کہ دینی مدارس خیر کا سبب ہیں اور دین کی تعلیم پہنچانے
کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی مخالفت کرتے ہیں۔دہشت گردی معاشرے اور ملک کو
اقتصادی طور پر مفلوج کر دیتی ہے۔لہذا آج تمام مسلمان مل کر دہشت گردی کے
خلاف کھڑے ہو جائیں۔ہم سب کو معلوم ہے کہ ہماری زندگی کی بنیاد اور ترقی کا
دارومدار قرآن و سنت پر ہے اور قرآن و سنت ہمیں اﷲ کے رسول ﷺ اور صحابہؓ کے
ذریعے ملی ہے۔اگر صحابہؓ پر اعتماد ختم ہو گیا تو سارا دین مجروح ہو جائے
گا۔اس لئے ہمارے نبی ﷺ اور صحابہؓ کے درمیان رشتوں کو کاٹنے کی کوششیں کی
جارہی ہیں۔ان رشتوں کو ہم نے مضبوط بنانا ہے۔ مقدس مقامات کی حفاظت ودفاع
تمام مسلمانوں پر فرض اور واجب ہے۔ہر معاملے میں درگزر کرنا ضروری ہے لیکن
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مقدس مقامات کی حفاظت سے ہٹ جائیں ۔اس لئے اس پر
کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔
امام کعبہ شیخ صالح آل طالب نے اپنے دورے کے دوران پشاور ، اسلام آباد اور
لاہور کا سفر کیا۔جہاں آپ نے صدر پاکستان ،وزیر اعظم پاکستان،وزیر مذہبی
امور ، وزیر اعلی پنجاب سمیت ملک کی دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کی قیادت
سے بھی ملاقاتیں کیں۔امام حرم نے ان ملاقاتوں کے دوران جب بھی سعودیہ اور
پاکستان پر گفتگو فرمائی تو انتہائی متفکر نظر آئے۔آپ نے متعدد بار فرمایا
کہ سعودی عرب اور پاکستان میں دہشت گردی ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔دشمن
نہیں چاہتا کہ یہ دونوں ملک ترقی کریں۔اس لئے دہشت گردی کی سر پرستی کرنے
والے عناصر پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ایک طرف امت مسلمہ دہشت گردی کا
شکار ہے تو دوسری طرف اسے کچلنے کے لئے بین الاقوامی سطح پر چال چلی جا رہی
ہے۔اسی لئے اسلامی عسکری اتحاد قائم کیا گیا ہے۔یہ اتحاد کسی مخصوص ملک کے
خلاف یا حفاظت کے لئے نہیں بلکہ دہشت گردی خلاف قائم کیا گیا ہے۔ہم امن و
محبت والی امت ہیں نہ کہ قتل و غارت کو فروغ دینے والوں میں سے۔
امام کعبہ شیخ صالح آل طالب کے دورہ پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان
تعلقات مزید گہرا کرتے ہوئے اک نئی روح پھونک دی ہے۔اس دورے کے پیچھے جہاں
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی فراست چھپی ہوئی ہے وہیں شیخ
صالح آل طالب کی ذاتی شخصیت کا بھی بہت عمل دخل ہے۔شیخ کی مختصر،پراثر
گفتگو، الفاظ کا چناؤ، عالمی حالات پر گہری نظر، داخلہ و خارجہ پالیسی سے
آگاہی اور گرفت جیسے عوامل نے بہت سی نادیدہ قوتوں کے’’ شر‘‘ کو زائل کر
دیا ہے۔
تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات اور’’ گریٹ گیم ‘‘کے اثرات نے جب ملک سعودی
عرب کو اپنی لپیٹ میں لیا تو بہت سی اسلام ، سعودی عرب وپاکستان دشمن قوتوں
نے موقع گنوائے بغیر پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی
ناکام کوششیں کیں،لیکن ان قوتوں کے عزائم اسی وقت خاک میں مل گئے جب
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے حرمین شریفین کے دفاع اور سعودی عرب کی
سالمیت کی خاطر اسلامی عسکری اتحاد میں شامل ہو کر مثالی کردار ادا کرنے کا
فیصلہ کرتے ہوئے تمام استعماری قوتوں کو یہ پیغام دیا کہ’’ سعودی عرب کی
سالمیت پر حملہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ تصور کیا جائے گا‘‘۔
حکومتی موقف اپنی جگہ مگر پاکستان کی غیور عوام نے امام کعبہ شیخ صالح آل
طالب کی موجودگی میں اضاخیل کے میدان سے اسلام آباد کے ایوان تک اور اسلام
آباد کے ایوان سے بادشاہی مسجد کے میدان تک جس انداز میں حرمین سے عقیدت و
محبت کا اظہار اور دفاع حرمین کی خاطر والہانہ انداز میں اپنی جانیں تک
قربان کرنے کا عہد کیا اس کی مثال دینا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔امام
کعبہ اس وقت واپس جا چکے ہیں لیکن جس طرح اپنی یادیں چھوڑ کر گئے ہیں اسی
طرح مسلمانان پاکستان کی طرف سے محبت و عقیدت کے گلدستے ساتھ لے کر گئے ہیں
جو انہیں ہمیشہ اہل پاکستان کی یاد دلاتے رہیں گے۔
|