بھارت ایک مکار بلکہ ازلی دشمن ہے جو ہمیشہ پاکستان کے
خلاف سازشوں کے جال بنتا رہتا ہے۔ وہ تو چاہتا تھا کہ ابتداء ہی میں ناکام
ہوکر پاکستان اس کی جھولی آگرے لیکن سیاسی عدم استحکام اور بار بار مارشل
لاء لگنے کے باوجود پاکستان نے نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھا بلکہ ایٹمی
میدان اور میزائل ٹیکنالوجی میں بھارت سے آگے نکل کر لوہے کا چنا ثابت ہوا
۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کتنی بار کہہ چکے ہیں کہ مشرقی پاکستان کو
بنگلہ دیش بنانے میں بھارت کا اہم کردارتھا۔ اب جبکہ گوارد عالمی سطح پر
تجارتی راہداری کا مرکز بن رہا ہے تو بھارت کو یہ منصوبہ بھی ایک آنکھ نہیں
بھا رہا ۔بھارت نے بلوچستان اور سندھ میں پاکستان مخالف افراد کا ایک وسیع
نٹ ورک قائم کررکھاہے ۔گزشتہ دنوں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن سبرامینیم
سوامی نے ایک ٹویٹ میں کہااگر پاکستان نے کل بھوشن یادیو کو تختہ دارپر
لٹکادیا تو بھارت کوبلوچستان کو ایک علیحدہ ملک کے طور پر تسلیم
کرلیناچاہیئے اگر پاکستان نے اس کے بعد بھی کوئی ایسی حرکت کی تو سندھ ٗ
پاکستان سے علیحدہ کردیاجائے ( مونہہ میں خاک) ۔ یہ وہ عزائم ہیں جن
کوناکام بنانے کے لیے ہر محبت وطن پاکستانی کو دفاع وطن کے لیے اپنا
بھرپورکردار ادا کرنا ہوگا اور یہ بات ہر پاکستانی کے ذہن میں ہونی چاہیئے
کہ جو مکروہ لوگ قوم پرستوں کے روپ میں پاکستان کے خلاف باتیں کرتے ہیں وہ
دوسرے لفظوں میں ہندو کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنا چاہتے ہیں ۔آزاد ی کی
قیمت کیا ہے ۔کوئی کشمیریوں اور فلسطینوں سے جا کرپوچھے ۔ بہرکیف بھارتی
بحریہ کے ایک حاضر سروس افسر کل بھوشن یادیو کو پھانسی کی سزا کااعلان کیا
ہوا ۔ بھارتی ایوانوں میں ایک زلزلہ سا آچکاہے ۔ وزیر خارجہ ششما سوراج
کہتی ہیں کل بھوشن بھارت کا بیٹا ہے ہم اسے بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا
سکتے ہیں ۔بھارت میں پاکستان کے جرات مند سفیر عبدالباسط نے دو ٹوک الفاظ
میں جواب دیا کہ دہشت گردی بھی کرتے ہو اور احتجاج بھی ۔میں سمجھتا ہوں
عبدالباسط جیسی زبان سے بھارتی حکمرانوں کو کراکرا جواب نواز شریف کو خود
بھی دینا چاہیئے تھا لیکن نواز شریف خاموشی کی چادر اوڑھ کر اپنے بارے میں
گردش کرنے والی افواہوں میں نہ جانے کیوں رنگ بھر رہے ہیں ۔ یہاں یہ عرض
کرتا چلوں کہ بھارتی حکمران مہا بھارت بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں ۔
وہ گائے کے تحفظ کی آڑ میں کتنے ہی مسلمانوں کو شہید کرچکے ہیں ٗ وادی
کشمیر میں بھارتی فوج جس قسم کی درندگی کا مظاہرہ کررہی ہے وہ بھی کسی سے
ڈھکی چھپی نہیں رہی ۔ فاروق عبداﷲ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ
کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے پھسلتا جارہا ہے لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں اور
بین الاقوامی میڈیا نے دانستہ کشمیر کی صورت حال پر آنکھیں بندکرکے انسانی
حقوق سے روگردانی کررکھی ہے ۔اقوام متحدہ جو مسلم ملک پر سلامتی کونسل کی
قرار کا سہارا لے کر ہمیشہ چڑھ دوڑاتی ہے اسے بھی کشمیرکے حوالے سے اپنی
قرار داد یاد نہیں رہی ۔ اگر افغانستان ٗعراق ٗ مشرقی تیمور ٗ شام پر یلغار
ہوسکتی ہے تو وادی کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم روکنے کے لیے اقوام متحدہ
کی فوج اتار کر وہاں استصواب رائے کیوں نہیں کروایا جاسکتا ۔امریکہ نے جان
بوجھ کر اپنے دفاعی حلیف بھارت کے انسانیت سوز مظالم پر آنکھیں بندکررکھی
ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ دو ایٹمی طاقتیں جنگ جیسی صورت حال سے دوچار ہوچکی ہیں
۔ کنٹرول لائن پر آئے دن بھارتی فوج قدر درندگی کا مظاہرہ کررہی ہے جس سے
شہر ی آبادی کے ساتھ ساتھ فوج کے افسر اور جوان شہید اور زخمی ہو رہے ہیں ۔
تحمل اور برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے لیکن بھارت نہ صرف مشرقی سرحد کو
گرم رکھے ہوئے ہے بلکہ مغربی افغان سرحد پر بھی بھارتی ایما پر افغان
حکمرانوں نے پاک فوج کے لیے بے سکونی پیدا کررکھی ہے ۔ ایران ہمارا برادر
اسلامی ملک ہے اور وہ اس بات کا دعوی بھی کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف
کسی سازش کا حصہ نہیں بنے گا لیکن کل بھوشن سمیت کتنے ہی بھارتی ایجنٹ
ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوکر باغیوں کو اکسانے اور اسلحی امداد
فراہم کر رہے ہیں ۔ کیا ایران کا یہ رویہ برادرانہ تعلقات کی نفی نہیں کرتا
۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان اس وقت تین اطراف سے کھلے اور
چھپے ہوئے دشمنوں میں گھرچکا ہے ۔ بھارت تو ازلی دشمن کا روپ دھار چکا ہے
لیکن افغان حکمران مسلمان ہونے کے باوجود ہندو کے غلام بن کرپاکستان کے لیے
سانپ کی شکل اختیار کرچکے ہیں اور موقع ملتے ہی ڈسنے سے گریز نہیں
کرتے۔بھارت کی آبی جارحیت بھی عروج پر پہنچتی جارہی ہے ۔پہلے سے زیر تعمیر
70 ڈیموں کے علاوہ دریائے سندھ ٗ جہلم اور چناب پر پن بجلی کے مزید 47
منصوبوں کے ٹینڈ ر بھی ہوچکے ہیں اور پاکستانی چیف واٹر کمشنر کے پاکستانی
موقف کی ترجمانی کرنے کی بجائے اب تک بھارت کو فری ہینڈ دیتے نظر آرہے ہیں۔
جس سے پاکستانی زراعت کا تباہ ہونا یقینی بنتا جارہا ہے ۔ وزیر دفاع خواجہ
آصف نے پارلیمنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ80 ہزار فوج کنٹرول لائن
پر اوردو لاکھ فوجی افغان سرحد پر تعینات ہیں ۔ اگر ایران کی جانب سے
بھارتی جاسوسوں کا سلسلہ نہ رکا تو ایران کی سرحد پر بھی چالیس پچاس ہزار
فوجی تعینات کرنے پڑیں گے ۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ جب ملک تین اطراف سے
دشمنوں میں گھیرتا جارہا ہے تو کیا پاک فوج اکیلے ملک کادفاع کامیابی سے
کرلے گی ۔ ہم باتیں تو بہت کرتے ہیں اور واہگہ سرحد پر پرچم کشائی کی تقریب
میں پرجوش نعرے بازی بھی بہت لگاتے ہیں لیکن عملی طور پر ہم اس قدر غافل
ہیں کہ ہماری صفوں میں ملک دشمن عناصر اور دہشت گردوں کے وسیع نٹ ورک موجود
ہیں ۔عوام کی صفوں میں چھپے ہوئے دشمنوں کو پہچان کر نکالنا فوج یا پولیس
کے لیے ممکن نہیں ہے اس مقصد کے لیے عوام کو اپنے گھر کے افراد اور اردگرد
رہنے والوں پر کڑی نظر رکھنا ہوگی ۔اس کے ساتھ ساتھ ہنگامی صورت حال
کامقابلہ کرنے کے لیے ہماری نوجوان نسل کو از خود آگے بڑھنا ہوگا۔ بھارت
اگر پاکستان پر فوجی یلغار نہ بھی کرسکے تو وہ اپنے ایجنٹوں اور زہریلے
پروپیگنڈہ کے ذریعے ہمارے دلوں میں دراڑیں پیدا کر نے کے ساتھ ساتھ ہمیں
تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گزار کر ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے ۔بدقسمتی
سے قوم پرست اور سیاسی رہنما دشمن کے مکروہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے
میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔پرویز خٹک ٗ سیدمراد علی
شاہ ٗ مولا بخش چانڈیو ٗ سید خورشید شاہ ٗ عمران خان ٗ اسفند یار ولی اور
محمود اچکزئی جیسے لوگوں کی زبانیں ہمیشہ زہر اگلتی دکھائی دیتی ہیں ۔ حیرت
کی بات تو یہ ہے کہ ان میں سے اکثر حکومتی اور انتظامی عہدوں پر فائز بھی
ہیں ۔ مجھے یہ کہنے کا حق دیجیے کہ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت تو فوج
کامیابی سے کرلے گی لیکن اندورن ملک سیکورٹی اور تقسیم در تقسیم کے جو
خدشات درپیش ہیں اس کو دور کرنے کے لیے سیاسی قائدین کو ذمہ دارانہ گفتگو
کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی فوج اور حکومت کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا ۔ آزادی
کی قیمت 9 لاکھ مسلمانوں کی جانی و مالی قربانی ہے اس آزادی کے تحفظ کے لیے
اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور ہر سطح پر اپنا موثر اور بھرپور
کردار ادا کریں ۔ |