بدعنوانی اور پریس کلب

 صدر ممنون حسین نے ایک فارمولا بیان کیا ہے، جس سے کرپٹ افراد کی پہچان ممکن ہو سکے گی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ’’․․․ میں بدعنوان افراد کے پاس زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکتا، کیونکہ مجھے ان سے بدبو آتی ہے اور کراہت محسوس ہوتی ہے ․․․ بدعنوانی پر قابو نہیں پائیں گے تو ملک کیسے آگے بڑھے گا ․․․ لوگ خوامخواہ بھاگتے رہتے ہیں، اﷲ نے جو دینا ہے وہ دے دیتا ہے، بھاگنا بے کار ہے ․․․‘‘۔ وہ کراچی پریس کلب کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے، جو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی جانب سے ڈھائی کروڑ روپے کی گرانٹ دینے کے لئے منعقد کی گئی تھی، اس موقع پر گورنر سندھ، وزیراطلاعات پنجاب اور کراچی پریس کلب کے ممبران موجود تھے۔ بدعنوان لوگوں سے بدبو آنے کا معاملہ صدر اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اٹھا چکے ہیں، یعنی مختلف تقریبات میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ تاہم لگتا یہی ہے کہ یار لوگ ان کی باتیں سنتے اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اس کے بعد بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ میڈیا بھی ایسی بات کو خبر کی صورت جاری کرکے اپنا فرض ادا کر دیتا ہے۔

ظاہر ہے بدعنوان افراد عام لوگ تو نہیں ہوتے، یا یوں کہیے کہ صدر عام لوگوں کے ساتھ تو بیٹھ نہیں سکتے، کیونکہ ان کا آئینی عہدہ اسی قسم کی پابندیوں کا متقاضی ہے۔ ہاں کوئی منصبی مجبوری بن جائے تو عام لوگوں سے ملنے کی حد تک کمپنی ممکن ہے، جب بات صرف ملنے تک ہی ہو تو پھر صدر کسی کا یہ تجزیہ نہیں کر سکتے کہ وہ بدعنوان ہے یا دیانتدار، کیونکہ اس فرق کو پرکھنے کے لئے انہیں کچھ دیر ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے، پھر جس سے بدبو آئے گی اور کراہت محسوس ہو گی تو صاحب جان لیں گے کہ جس فر د کے ساتھ وہ بیٹھے ہیں، وہ بدعنوان ہے۔ یہاں ایک اور مسئلہ بھی سراٹھا رہا ہے کہ اگر صدر کو معلوم ہو جائے کہ کوئی بدعنوان ہے تو ا س سے کیسے جان چھڑاتے ہیں؟ کیونکہ صدر کا عہدہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ نہ تو کسی محفل یا تقریب سے یوں اچانک اٹھ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو اٹھانے کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے، اس لئے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کسی بدعنوان کے پاس زیادہ دیر نہ بیٹھنے کا کیا مطلب ہے؟ چلیں کوئی بات نہیں، بدعنوان کو کچھ دیر برداشت کیا جاتا ہوگا، یہ تو ہوا کہ انہیں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ فلاں بدعنوان ہے۔ یہ بہت اہم ایشو ہے، جو بندہ صدر کے پاس بیٹھے گا وہ یقینا عام آدمی نہیں، اگر وہ خاص ہے اور بدعنوان بھی ہے تو صدر اس کا کیا بندوبست کرتے ہیں، صرف یہی کہ ’’زیادہ دیر ساتھ نہیں بیٹھ سکتا‘‘ پر ہی اکتفا ہوتا ہے، یا بدعنوانی کے مرتکب فرد کو اپنے کئے کی سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے؟ برے کو صرف برا کہہ دینا ہی کافی ہے، یا اس کے جرم کے مطابق قانون کی گرفت میں بھی لایا جانا چاہیے؟ بدبو آنے کی باتیں تو بارہا سنائی دیتی ہیں، مگر کبھی کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ صدر کو کسی سے بدعنوانی کی بنا پر بدبو آئی، اور اسی وجہ سے وہ قانون کی گرفت میں آگیا۔ گویا بدعنوانی سونگھنے والا فارمولا تو اچھا ہے، مگر نتیجہ صفر۔

یہ بات تو سنی تھی کہ اگر کوئی بڑے صاحب کسی جگہ نہ جا سکیں تو وہ اپنے نمائندہ کو بھیج دیتے ہیں، مگر یہ پہلی مرتبہ دیکھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی نمائندگی صدر پاکستان نے کی۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ اپنے برادر صوبوں میں بھی تحفے تحائف بھجواتے رہتے ہیں،یہ کام برادرِ بزرگ اور وفاقی حکومت کے ذریعے بھی ہو سکتا تھا، چلیں خیر سگالی ہی سہی۔ یہ بات جہاں قابلِ رشک ہے، وہاں پنجاب کے اضلاع بھی اپنے خادمِ اعلیٰ کے ایسے ہی اقدامات کے منتظر ہیں۔ پنجاب میں نو ڈویژن ہیں، اضلاع تو دور کی بات ہے، ڈویژن بھی سرکاری گرانٹوں اور صحافی کالونیوں سے محروم ہیں۔ اب جبکہ آنے والے قومی انتخابات کے لئے مہم کا آغاز ہو چکا ہے اور مرکزی اور صوبائی حکومتیں میدان عمل میں نکل چکی ہیں، حکومتیں مختلف علاقوں میں ان کی ضرورت کے مطابق منصوبے جاری کر رہی ہیں ، جن سے انتخابات کے نتائج پر مثبت اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔کوئی بات نہیں پنجاب میں یہ چیک صدر مملکت نہ بھی تقسیم کریں تو کام چل جائے گا، یہ کام چھوٹے پیمانے پر ہو سکتا ہے، مگر شرط یہی ہے کہ پنجاب کے پریس کلبوں اور صحافیوں پر بھی کوئی نظرِ کرم ہونی چاہیے۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472568 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.