جب دن گزرتا ہے تو وہ دن ما ضی کا حصہ بن جا تا ہے اور اس
میں ہو نے والی اہم بات اور اس دن کے غیر معمولی واقعات ماضی کے ساتھ تاریخ
کا حصہ بن جا تے ہیں اور ایسے دن تاریخی حیثیت کے ساتھ صدیوں تک یا د کیے
جا تے ہیں جب ایسے غیر معمولی واقعات سیاسی اور حکومتی تبدیلی کی نوعیت کے
ہو ں جس میں کوئی اقتدار سے اتا را جا رہا ہو اور کسی کو چند دن کی بادشاہت
دی جا رہی ہو تو وہ یقینی طور پر اہم دن ہو گا 18اپریل بھی پا کستا ن میں
ایک اہم تا ریخی دن کے طور پر یاد کیا جا تا ہیمیں تاریخ کے زیادہ ورق نہیں
الٹتے ہیں آپ کو 90 ء کی دہا ئی کے صفحے پر روکتا ہو ں 6 اگست 1990 کو
محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کا آخری دن اور اسی دن کو غلام مصطفی جتوئی
نے بطور نگران وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان حلف اٹھا تے ہیں انتخابات
نگران وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی کرواتے ہیں ان انتخابات میں میاں محمد
نواز شریف اپنی جماعت مسلم لیگ اور اسلامی جمہوری کے اتحاد سے کامیاب قرار
پا تے ہیں 6نومبر 1990 ء کو میاں محمد نواز شریف پہلی مر تبہ اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو تے ہیں اور اس وقت کے صدر غلام
اسحاق خان(مرحوم ) سے حلف لیتے ہیں ۔جمہوریت اور اقتدار کا پہیہ چلتا رہا
11 جنوری 1993 کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز کا انتقال ہو جاتا ہے اسی
وقت سے صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم محمد نواز شریف میں اختلاف کا
آغاز ہو جاتا ہے اختلافات کی وجو ہات جنرل آصف نواز (مرحوم ) کے جا نشین کی
تقرری کے مسئلے پر الجھنیں پیدا ہو جا تی ہیں اسی زما نے میں وزیر اعظم میا
ں محمد نواز شریف نے اٹھویں ترمیم کے خاتمے کے لئے کوششوں کا آغاز کر دیا
انہوں نے خیر سگالی کے طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو قومی اسمبلی میں اس
کمیٹی کا چیرمین مقر ر کیا ادھر محمد خان جونیجو امریکہ میں علالت کے سبب
انتقال کر جا تے ہیں دوسری طرف ان کی مو ت کے فوراً بعد وزیر اعظم میاں
محمد نواز شریف مسلم لیگ کے صدر منتخب ہو جا تے ہیں جس پر کچھ پرانے ساتھی
نا راض ہو جا تے ہیں جس کی وجہ سے دوریا ں او ر بڑھ جا تی ہیں 1993 اپریل
کے آغاز سے حامد ناصر چٹھ کی سر براہی میں مرکزی وزراء نے کا بینہ سے
مستعفی ہو ناشروع ہو گئے اور پورے ملک میں افوائیں گردش کرنے لگی کہ صدر
پاکستان غلام اسحاق خان کسی وقت بھی اسمبلیاں توڑ سکتے ہیں 17 اپریل 1993 ء
کو وزیر اعظم نواز شریف نے ریڈیو اور قومی ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کیا جس
میں انہوں نے بڑے جذ با تی انداز میں قوم کو اپنی خدمات کے بارے میں آگاہ
کیا ۔اور کہا کہ ایو ان صدر سازشوں کی آما جگاہ بن چکا ہے اور یہ کہ وہ کسی
کمزوری کو تا ہی یا پسپا ئی کا مظاہرہ نہیں کر یں گے نہ ہی اسمبلیاں توڑیں
گے اور نہ ہی اس بارے کسی سے ڈکٹیشن لیں گے اس خطاب کے بعد صد ر غلام اسحاق
خان جو پہلے ہی سے تذبذ کا شکارتھے ان کو مضبوط سہارا مل جا تا ہے بالا آخر
18 اپریل 1993کو صد ر پا کستان غلام اسحاق خان نے قومی ریڈیو اور ٹیلی ویژن
پر قوم سے خطاب کر تے ہو ئے قومی اسمبلی کو توڑنے اور وزیر اعظم میاں محمد
زواز شریف اور ان کی کا بینہ کو بر طرف کر نے کا اعلان کر تے ہیں اسی شام
کو قرعہ راجن پور سے تعلق رکھنے والے سیاست دان میربلخ شیر خان مزاری کے
نام نکلتا ہے جن کو اسلامی جمہوریہ پا کستا ن کے نگران وزاعظم کی حیثیت سے
صدرغلام اسحاق خان حلف لیتے ہیں ان کی کا بینہ میں اہم رکن حامد ناصر چٹھ
اور فاروق احمد خان لغاری ہو تے ہیں میاں محمد نواز شریف اس اقدام کے خلاف
اپنا مقدمہ سپرئم کورٹ لے جاتے ہیں 25مئی 1993 کو سپرئم کورٹ آف پا کستان
چیف جسٹس نسیم شاہ کی سربراہی میں میاں محمد نواز شریف کو بحالی کا حکم سنا
یا جا تا ہے یو ں 25 مئی 1993 کو نگران وزیر اعظم میر بلخ شیر خان مزاری 39
دن وزیر اعظم رہتے ہیں اور ان کااقتدار 39 دن کے قلیل وقت میں اختتا م کو
پہنچتا ہے اب جبکہ مو جو دہ دور میں جب میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم پا
کستا ن تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں تو اب بھی ان کے اقتدار کا فیصلہ
عدالت میں محفوظ ہے فیصلہ جو بھی آئے پر وہ دن بھی ایک تا ریخی دن ہو گا جس
کو ہمیشہ یاد کیا جا تا رہے گا
|