ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن ، عزیر بلوچ و دیگر کئی قاتلوں،
کرپٹ افسران و دیگر سیاستدانوں کی ضمانتیں منظور ہونے اور امتحانی ہال میں
نقل کرنے والے اورغربت اور بھوک کو مٹانے کیلئے دو روٹی چرانے والے بچوں کی
گرفتاری کے بعد ہمارا تمام سسٹم ، عدالتی نظام، احتسابی ادارے سوالیہ نشان
بن گئے ہیں۔ پہلے بھی عوام عدالتی نظام اور کرپشن کے خلاف ہمارے احتسابی
اداروں کی کارکردگی سے مطمئن نہ تھی اب اربوں روپوں کی کرپشن کرنے والوں کی
تواتر کیساتھ ضمانتوں اور بیرون ملک روانگی کے بعد یہ تاثرمضبوط ہوتا
جارہاہے کہ اس ملک میں طاقتور کیلئے الگ اور غریب کمزور کیلئے الگ نظام ہیں۔
اربوں کی کرپشن کرنے والے قاتل ، چور، لٹیرے، ڈاکو جب ضمانتیں منظور ہونے
اور باعزت رہائی کے بعد وکٹری کا نشان بناتے ہیں تو ہر درد دل رکھنے والا
پاکستانی خون کے آنسو رورہا ہوتاہے کہ کیسے اس ملک میں چند ہزار کے بجلی
گیس کے بقایا جات والے صارف کا میٹر اکھاڑلیاجاتاہے ، کیسے ہاؤس بلڈنگ
فنانس کارپوریشن والے چند ہزار کی ادائیگی نہ کرنے پر گھر نیلام کردیتے ہیں
، تعلیمی اداروں میں فیس جمع نہ کرنے پر غریب کے بچے کو فارغ کردیاجاتاہے،
پولیس والے کی جیب گرم نہ کرنے پر جیل کی ہوا کھانی پڑجاتی ہے۔ کیسے ہمارے
جاگیردار، وڈیرے، زمیندار اپنے کسانوں ، ہاریوں کی جانب سے قرض واپس نہ
کرنے پر انہیں تمام عمر کیلئے غلام بنالیتے ہیں۔ کیسے ہمارے شہروں، دیہاتوں
میں موجود جعلی پیر، گدی نشین تمام عمر اپنے مریدوں کے خون پسینے کی کمائی
کو اڑاتے رہتے ہیں۔ ان کی عزتوں سے کھیلتے ہیں، ان کے ایمان کو برباد کرکے
انہیں ہمیشہ ہمیشہ کی آگ میں جلنے کیلئے دھکیل دیتے ہیں۔ کیسے اس ملک میں
کھربوں کی سرمایہ کاری ، جائیداد، اثاثوں، اداروں کو اونے پونے ملی بھگت سے
پرائیویٹائزیشن کے نام پر فروخت کردیاجاتاہے (حال ہی میں پی آئی اے کے ایک
سینیئر افسر نے 35.5 کروڑ کی مالیت کا طیارہ صرف 55لاکھ میں ایک نجی کمپنی
کو فروخت کردیا) کیسے ہمارے عوامی نمائندے اربوں کی ناجائز جائیدادوں کے
مالک ہوتے ہوئے اپنی جائیداد کو انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کرتے
بلکہ 90%زراعت کے پیشے سے وابسطہ افراد کسی قسم کا کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
دو نمبر ، نام کسٹم پیڈ اور جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں میں آزادانہ گھومتے
ہیں اور ہمارے قانون کا آزادانہ مذاق اڑاتے ہیں (حال ہی میں JUI Fکے سینیٹر
حافظ حمد اﷲ کو محکمہ ایکسائز اسلام آباد نے جعلی نمبر پلیٹLEB 2664 عرصہ
دوسال سے غیر ٹوکن اداکئے ہوئے استعمال کرتے ہوئے پکڑا) کیسے ہمارے حکمران
اپنی الیکشن مہم میں کشکول توڑنے اور ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے
دعوے کرتے ہیں لیکن پھر قرضوں کے بوجھ کو دگنا کرتے ہوئے انہیں69ارب ڈالر
تک پہنچادیتے ہیں۔ جنہیں ظاہر ہے اس غریب مہنگائی کی چکی میں پسی ہوئی عوام
نے ہی ٹیکسوں ، بجلی، گیس، پیٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے ہی
ادا کرنا ہے۔ کیسے ہمارے حکمران ارب پتی ہوتے ہوئے ماہانہ کروڑوں کا بھتہ
لیتے ہیں، لوگوں کی ملوں پر قبضہ کرتے ہیں ، عام آدمیوں کے بنگلوں، تجارتی
مراکز کو دھونس دھمکی کے ذریعے ہتھیا لیتے ہیں ، کیسے کھربوں روپوں کو منی
لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کردیتے ہیں لیکن کوئی نظام و ادارہ انکا
بال بھی بیگا نہیں کرسکتا۔ وہ ویسے ہی گنگا میں نہاکر پاک و صاف ہوکر عوام
سے ووٹ مانگنے آجاتے ہیں اور پھر جاگیرداروں، وڈیروں، چوہدریوں، سرداروں کے
شکنجے میں جکڑی ہوئی عوام انہی لوگوں کو ووٹ دینے پہ مجبور ہوجاتی ہے جن کے
ہاتھوں وہ پہلے ہی لٹ چکے ہوتے ہیں ایسے حالات میں جب کوئی کسی کو جوابدہ
نہ ہو، عدالتی، احتسابی نظام مفلوج ہوکر کرپشن کا جادو سر چڑھ کر بول رہاہو
، ناانصافی ، بے قاعدگیاں عام ہوں تو ترقی و خوشحالی کا ڈھنڈورا پیٹنا عوام
کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے کیونکہ کوئی بھی معاشرہ مہنگائی،
غربت کو تو برداشت کرسکتاہے لیکن ناانصافی پر مبنی معاشرہ زیادہ عرصے تک
نہیں چل سکتا۔ جس معاشرے میں مظلوم کو انصاف نہ ملے اور ظالم دندناتا پھرے
اور عوام کو حکمران اپنا محکوم سمجھیں نہ کہ خادم تو وہاں پر اﷲ کی جانب سے
عذاب کا آنا دور نہیں ہوتا۔ آجکل کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہر پاکستانی
افسردہ ہے کہ آخر کب تک ہمارے کرپٹ افراد عدالتی اور قانونی پیچیدگیوں کا
سہار الیکر عوام پر مسلط رہیں گے ان کا خون چوستے رہیں گے۔ جب عام آدمی یہ
دیکھتاہے کہ کھربوں کی کرپشن کرنے والے پاک صاف ہوکر یا پلی رگین کرکے رہا
ہوجاتے ہیں تو پھر انہیں بھی شہ ملتی ہے کہ کیوں نہ ہم بھی بہتی گنگا میں
ہاتھ دھولیں۔ ایسی صورتحال میں ہم سب کو ملک کر سوچنا ہوگا کہ کیسے ہم اپنے
عدالتی و احتسابی نظام کو درست کریں اسکے لئے کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف
دیکھنا فضول ہے کیونکہ تمام کا ماضی اکا دکا کے علاوہ داغدار ہے وہ کبھی
بھی ملک میں صاف و شفاف انصاف و عدل پر مبنی نظام کی حمایت نہیں کریں گے۔
اس سلسلے میں عوام کو چاہئے کہ وہ آئندہ الیکشن میں اچھے کردار کے حامی
افراد کو گے لائیں اس سلسلے میں ہر قسم کے سیاسی دباؤ، حربوں کو خاطر میں
نہ لائیں جب تک عوام ایماندار، محب وطن، غریب پرور، امیدواروں کو ووٹ نہ دے
گی تو انہیں کسی بھی مثبت تبدیلی کا خواب دیکھنا نہیں چاہئے ۔ میں ایک ملک
کی ویڈیو دیکھ رہا تھا جہاں پر عوام اپنے کرپٹ عوامی نمائندو ں کو اٹھا
اٹھاکر کوڑے کے گندے ڈبوں، ڈھیروں پر پھینک رہے تھے۔ ہمارے عوامی نمائندے
اور ہمارے ادارے اپنی کرپشن کے نہ رکنے والے سلسلے کے باعث عوام کو ایسے ہی
تحریک کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔ تنگ آمد بجنگ آمد جب ظلم و ذیادتی ، کرپشن،
ناانصافی کی ساری حدیں پار ہوجائیں تو پھر خداوند قدوس کی ذات یا تو خود
صفائی کرتی ہے آسمانی عذاب کے ذریعے یا پھرکسی ایسے کردار، انسان ،سجماعت
کو پیدا کرتی ہے جو یہ کام کرتاہے۔
|