افغانستان میں ’’بموں کی ماں‘‘ کو گرانے کے بعد
ٹرمپ انتظامیہ کے مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل ایچ آر میک ماسٹرکی اچانک
کابل، اسلام آباد اور نئی دہلی آمد خطے میں نئی امریکی حکمت عملی کا اشارہ
دے رہی ہے۔ تاہم کابل ائرپورٹ پرانہوں نے جس روایتی لب ولہجے میں پاکستان
پر’’پراکسی‘‘ ہونے کا الزام لگایا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ واشنگٹن کی
نئی انتظامیہ کے دل میں بھی اسلام آباد کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں ہوگا۔
جنرل میک ماسٹر کا کہنا تھا کہ پاکستان پراکسی میں نہ پڑے اور سفارتکاری کی
راہ اپنائے۔کابل میں پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے کے بعد اسلام
آباد میں انہوں نے وزیراعظم نوازشریف کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جو ’’نیک خواہشات
‘‘پہنچائی ہیں، ان کی حقیقت کا رازشاید کچھ عرصہ بعد واضح ہوگا۔ تاہم
سرکاری اطلاعات کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے ساتھ روابط کو مضبوط اور
افغانستان میں امن و استحکام اور خطے کی سلامتی کے لیے مل کر کام کرناچاہتی
ہے۔وزیراعظم نواز شریف نے بھی انہیں آگاہ کیا کہ پاکستان بھی خطے میں امن
اور ترقی کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے کا خواہشمند ہے۔ انہوں نے
یہ بھی بتایا کہ ان کی حکومت نے ملک سے انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے
خاتمے کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا اوراب معاشی اصلاحات سے اعتدال وترقی
پسند اور جمہوری ملک کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم یا ان کے
کسی نمائندے نے امریکی مشیرکی طرف سے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات
کے بارے میں ان سے پوچھنے کی جرات نہیں کی تاہم پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر
جاوید باجوہ نے جنرل ہیڈکوارٹرز میں امریکی سفیر سے ملاقات میں پاکستان
پر’’پراکسی ‘‘ کے الزامات کویکسر مسترد کرتے ہوئے ان پر واضح کیا کہ
پاکستان کی سر زمین کسی پراکسی کیلئے استعمال نہیں کررہا۔ ان کا کہنا تھا
کہ پاکستان خود ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کا شکار ہے، وہ اپنی سرزمین
کسی کیخلاف استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔
افغانستان اور پاکستان کے بعد امریکی مشیر کی اگلی منزل نئی دہلی تھا جہاں
انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی اوربھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول سے
ملاقاتوں میں امریکہ بھارت ’’دوستی ‘‘ کو مزید گہرا کرنے کے عہدوپیمان
باندھے۔سب کو معلوم ہے کہ دونوں کی یہ دوستی خطے میں کیا گل کھلا رہی ہے۔
یہ دوستی کا نہیں بلکہ پراکسی کا گٹھ جوڑ ہے جو بش دور میں بنا، اوبامہ نے
اسے پروان چڑھا یااور اب ٹرمپ اسے استعمال کریں گے جس کا اظہار وہ اپنی
انتخابی مہم کے دوران کرچکے ہیں۔ ایک انٹرویو کے دوران ان کہنا تھا کہ
پاکستان پر ’’چیک‘‘ رکھنے کے لیے بھارت کو ملوث کرنا پڑے گا۔ وہ بھارت کو
امریکا کا فطری اتحادی قراردیتے ہوئے یہ اعلان بھی کرچکے ہیں کہ ان کے
دورِحکومت میں امریکہ بھارت تعلقات ایسے ہوں گے جو آج سے پہلے کبھی نہیں
تھے۔امریکی صدر کا حلف اٹھانے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کو اداروں اور میڈیا کی
جس مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، اس کے پیش نظر وہ فوری طورپر اپنی فارن
پالیسی پر توجہ نہ دے سکے تھے لہٰذا وہ کچھ عرصہ تذبذب کا شکاررہی۔ خاص طور
پر افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی عدم دلچسپی نمایاں رہی۔جس سے افغانستان
میں بھارتی خفیہ ایجنسی سمیت بہت سی قوتوں کا اثرورسوخ نمایاں ہوگیا۔ افغان
صدر اشرف غنی بھارتی اشاروں پرپاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہے۔ کابل
اور اسلام آباد کی ان دوریوں کا فائدہ دہشت گردوں نے اٹھایا۔گزشتہ ماہ
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کے تانے بانے افغانستان میں
موجود قوتوں سے ملنے کے شواہد ملے تو پاکستان نے معاملہ کابل انتظامیہ کے
سامنے رکھا تاہم اشرف غنی کی بے بسی اورسردمہری کے پیش نظر اسے خود ہی دہشت
گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرناپڑی۔یہی نہیں، پاکستان میں موجودان
کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کے قلع قمع کے لیے آپریشن ردالفساد بھی شروع
کیا۔علاوہ ازیں چین اور روس سے مل کر افغانستان میں قیام امن کے لیے ہونے
والی کوششوں میں بھی شرکت کی۔ اس سلسلے میں تینوں ممالک کے درمیان حوصلہ
افزاء مذاکرات کے دو دور ہوچکے ہیں۔
افغانستان کی صورتحال پریہ مذاکرات بھارت اور امریکہ کے لیے باعث تشویش
ہوسکتے ہیں کیونکہ افغانستان میں امن کی کوئی بھی کوشش براہ راست خطے میں
امریکی مداخلت کے جواز کو ختم کرسکتی ہے جو یقینا اسے قبول نہیں ہوگی۔ وہ
تو افغانستان کو دہشت گردی کا پھوڑا بناکر اپنی موجودگی اس خطے میں برقرار
رکھنا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ روس اور چین پر ’’چیک‘‘ رکھ سکے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی ویسے تو گزشتہ دو دہائیوں سے افغانستان میں دہشت
گردوں کے خاتمے کے لئے جتے ہوئے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ابھی تک انہیں
کامیابی حاصل کیوں نہیں ہوئی․․․ افغانستان اب بھی دہشت گردوں کی ’’جنت‘‘
کیوں ہے․․․․ یہ بھی سوال ذہن میں آرہا ہے کہ طالبان کے بعد القاعدہ اور اب
داعش کی موجودگی امریکی حکمت عملی کی ناکامی ہے یا کامیابی ․․․؟ اب تو یہ
حقیقت کھلتی جارہی ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں امریکی خفیہ ایجنسیوں کا دوسرے
ممالک میں مداخلت کا سب سے بڑا ’’آلہ کار‘‘ ہیں۔ یہ تنظیمیں پہلے مسلمان
ممالک کے نہتے عوام پر ظلم و تشدد کرتی ہیں، وہاں افراتفری اور انارکی
پھیلاتی ہیں جس پر قابو پانے کے لیے امریکہ اوراس کے اتحادی جنگ میں کود
پڑتے ہیں۔ عراق، افغانستان، یمن اور شام کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
سوال یہ ہے کہ القاعدہ جس کو ختم کرنے کے بہانے امریکہ بہت سے ممالک کو کچل
چکا ہے، لاکھوں افراد کا خون بہا چکا ہے وہ اچانک کہاں غائب ہوگئی۔ چلیں
اسامہ مارا گیا، اس کے باقی ساتھی کہاں گئے۔ اسی طرح داعش مختصر عرصہ میں
اتنی توانا کیسے ہو گئی۔ اس کے پاس چھوٹے بڑے ہتھیار کہاں سے آئے۔ اس کا
اتنا منظم نیٹ ورک کیسے بن گیا کہ وہ بہت سے ممالک کے وسائل پر قابض ہوکر
ان کا تیل پانی فروخت کررہی ہے؟امریکہ اور اس کے اتحادی القاعدہ کو چھوڑ
کراب اس کی سرکوبی کے لیے سرگرم ہیں اور یہ ردعمل میں مسلمانوں کا ہی قتل
عام کررہی ہے۔بہرحال ’’مدر آف دی بمز‘‘ گرا کر ٹرمپ نے دنیا خاص طور
پرایشیائی ممالک کے لیے اپنی فارن پالیسی کا دبنگ انداز میں اعلان کردیا
ہے۔ پیغام واضح ہے کہ وہ اپنے افغان بیس کے ذریعے پورے خطے کو اپنے مٹھی
میں رکھنے کے عمل سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا ۔ اس سلسلے میں بقول ٹرمپ
بھارت اس کا ’’فطری اتحادی‘‘ ہے۔ جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں تو افغانستان
کے شہر مزارشریف میں دہشت گردوں نے فوجی ہیڈکوارٹرز پر حملہ کرکے سو سے
زائد افغان فوجیوں کو اس وقت ہلاک کردیاجب وہ جمعہ کی نماز پڑھ رہے تھے۔ذمہ
داری افغان طالبان نے قبول کرلی ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ ’’مدرآف دی بمز‘‘
کا ردعمل ہے۔تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ مدر آف بمز بھی افغان عوام پر گرا،
بدلے میں خون بھی انہی کا بہایا جارہا ہے! |