پانامہ فیصلے کے آفٹرشاکس و اثرات

پانامہ لیکس کا فیصلہ آنے کے بعد مداریوں کی طرح حکمران جماعت اور پی ٹی آئی دونوں خوشیاں منانے میں مصروف ہیں۔ ہر کوئی اپنا راگ الاپ رہاہے۔ ایک تماشا جو گذشتہ سال سے جاری تھا عدالتی فیصلے کے بعد بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچا ،دو جماعتوں کے کارکنان لیڈران اپنی الگ الگ دوکان سجاکر بیٹھے ہیں او راپنا اپنا سودا فروخت کررہے ہیں ایک عوام ہے بیچاری جس کی قوت خرید جواب دے چکی ہے کیونکہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ملک کے خزانوں ، وسائل کو اس بے دردی سے لوٹا ہے کہ اب عوام کیلئے کچھ بچانہیں ۔ سوئس بینک، سرے محل، لندن فلیٹس ، چینی کے کارخانو ں کے مالک ہمارے حکمرانوں کی کرپشن کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی سکت ہمارے سسٹم میں موجود ہی نہیں ہے۔ عوام کیلئے کچھ عرصے بعد ایک ڈرامہ سٹیج کیاجاتاہے ۔ بہکارا اور مقصد عوام کی توجہ ان کے اجتماعی مسائل سے ہٹانی ہوتی ہے۔ ہمارا عدالتی نظام مصلحتوں کا شکار ہے جن سے کوئی بھی ایسے فیصلے کی توقع کرنا جو کرپشن کے خلاف بند باندھ سکے دیوانے کا خواب ہے اصولی اور اخلاقی طورپر جب حکمران جماعت پر منی لانڈرنگ کے الزامات لگے تو کم از کم وزیراعظم کو مستعفی ہوکر الاؤ کو ٹھنڈا کرنا چاہئے تھا یا اب دو ججوں کے اختلافی نوٹ کے بعد تو ایسا کرلینا چاہئے ، ایسا کرنے سے ان کا قد کاٹھ بڑھ جاتا ہے لیکن اقتدار کی ہوس ایسی ہے کہ مشکل ہی سے چھوٹتی ہے ۔ اب سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق JITجائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کیلئے متعلقہ اداروں سے نام طلب کئے گئے ہیں جو نواز شریف کے فرزندان حسن اور حسین نواز سے پوچھ گچھ کریں گے۔ JITکے ممبران کے سامنے ظاہر ہے ان دونوں بھائیوں کے وہ متضاد بیانات موجود ہو ں گے جو انہوں نے مختلف مقامات پر دئیے۔ یہ بیانات خود مبینہ طورپر منہ بولتا ثبوت ہیں کہ رقم قانونی طریقے سے نہیں بھیجی گئی۔ سپریم کورٹ کے تین معزز ججوں کی جانب سے JITبنانے اور عدالت کے فیصلے کو سیاسی جماعتیں تسلیم نہیں کررہی ہیں ، قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اسے مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ JTIسپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل ہو کیونکہ ان کے بقول 19گریڈ کے افسران جو سرکار ہی سے تنخواہ لیتے ہیں کیسے ایمانداری اور غیر جانبداری سے انکوائری کرسکتے ہیں۔ بلاول بھٹو کے مطابق ایک وزیراعظم کو تین اور دو ججوں کے تناسب سے کچھ نہیں کہاجاتا جبکہ دوسرے یعنی بھٹو کو چار تین ججوں کے فیصلے پر پھانسی دے دی جاتی ہے جبکہ سینٹ کے اجلاس میں اپوزیشن نے وزیراعظم سے مستعفی کا مطالبہ کیاہے ۔ تحریک انصاف کے سینیئر رہنما نے قطری خط مسترد ہونے کو اپنی فتح اور شریف فیملی اور ان کے درباریوں کے منہ پر طمانچہ قرار دیا۔ جبکہ شیخ رشید نے کہا کہ نواز شریف عدالتی فیصلے کے بعد اپنا مقام کھوبیٹھے ہیں ۔ انہوں نے گو نواز گو کو آئندہ انتخابی مہم کا سب سے بڑا نعرہ قرا ردیا۔ پختون ملی عوامی جماعت کے محمود خان اچکزئی نے کہا کہ نوا زشریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنا گناہ نہیں ہے۔ انہوں نے پانامہ فیصلے کو کسی کی ہار جیت قرار نہ دیا۔ حکمران جماعت کے چوہدری نثار علی نے کہا کہ عدالتی فیصلے کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہئے۔ یہ قیامت کی نشانی ہے کہ زرداری لوگوں کو ایمانداری کی اور دیانت کا لیکچر دے رہے ہیں۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ اداروں کی تضحیک کرنے والو ں کو عدالتی جواب مل گیا جبکہ وزیر پانی وبجلی عابد شیر علی نے زرداری کو ملک کا سب سے بڑا دہشت گرد ، ڈاکو قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ عزیر بلوچ کے بیانات کے مطابق قتل ، ڈکیتی، ملوں پر قبضہ کرنے کے فیصلوں کے پیچھے زرداری ٹولہ، اور فریال گوہر کا ہاتھ ہوتاہے۔ انہوں نے زرداری کے خلاف JTI بنانے اور انکا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ کیا۔ عمران خان کے بقول نواز شریف کی اخلاقی حیثیت ختم ہوگئی ہے ایک مجرم ملک کا وزیراعظم کیسے رہ سکتاہے۔ جبکہ اب سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ لاہور ہائی کورٹ نے بھی نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیاہے۔ انہوں نے حکومت کو ہفتے کی مہلت دی ہے بصورت دیگر ملک گیر تحریک چلانے کا عندیہ دیا جبکہ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اﷲ نے کہا کہ تمام سیاس جماعتیں مل کر بھی وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ نہیں کرسکتیں۔ ان کے بقول سپریم کورٹ سے دو جنازے نکلے ایک لال حویلی اور دوسرا بنی گالہ گیا ہے اور JIT ان جنازوں کو دفنانے کیلئے بنی ہے جبکہ جماعت اسلامی کے سراج الحق پانامہ کیس کی شفاف تحقیقات کیلئے وزیراعظم سے سے استعفی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ موجودہ تمام تر معاملات میں جب ہمارے حکمرانوں کی توجہ عوام کے مسائل خاص کر لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی سے ہٹ کر اقتدار کے حصول کیلئے ہوقابل افسوس ہے۔ نواز شریف اگر مستعفی بھی ہوجائیں تو ملکی مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔ جب تک ان کے حل کیلئے خلوص دل کے ساتھ کام نہیں کیاجاتا۔ پی ٹی آئی کی پانامہ سیکنڈل کے سلسلے میں نواز شریف ہٹاؤ مہم کا ایک ملک گیر اثر ہوا ہے کہ پہلے کرپشن کے خلاف جب بھی بات ہوتی تھی تو زرداری کا نام سرفہرست ہوتا تھا ، نواز شریف اور ان کی جماعت پر کوئی ایسا بڑا الزام نہ تھا لیکن پانامہ سکینڈل نے پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کو ساتھ ساتھ کھڑا کردیاہے۔ اب پانامہ سکینڈل عدالتی فیصلہ کچھ بھی ہو نواز شریف اور ان کی جماعت کے تعاقب میں رہیگا۔ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے اور پارٹی کو آئندہ الیکشن میں عوام کا سامنا کرنے کیلئے بہتر ہے کہ نواز شریف مستعفی ہوجائیں ۔ ان کے ایسا کرنے سے اقتدار تو ان کی جماعت کے پاس ہی رہیگا لیکن اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش میں ان کی ساکھ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے جھوٹے دعوؤں او رکرپشن الزامات کے باعث مثاتر رہے گی۔ بصورت دیگر جسطرح پی ٹی آئی ، وکلاء و دیگر جماعتوں نے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیاہے وہ اگر شروع ہوگئیں تو ملک میں افراتفری بڑھے گی، لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرے ویسے ہی ہورہے ہیں اگر تحریک بھی شروع ہوگئی تو ہوسکتاہے کہ حالات حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوجائیں۔

Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 137165 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.