لاہور میں داخل ہوتے ہی عجیب احساس ہوتا ہے کہ جیسے یہ
پنجاب کا حصہ نہ ہو بلکہ کسی ترقی یافتہ ملک کا ترقی یافتہ شہر ہے، جگہ جگہ
اوور ہیڈ برجز ، انڈرپاسز، خوبصورت پھولوں سے بنی ہوئی رنگ برنگی چھوٹی بڑی
پارکس، دیواروں سے لگے پھولوں کے گلدستے، سڑکوں کے کنارے پانی کے دلکش
فوارے، لاہوریوں کو اِدھر اُدھر لیجانے کیلئے خصوبصورت میٹرو بس، بڑے بڑے
ہسپتال، کالجز اور یونیورسٹیاں لاہور کو پنجاب کا پایۂ تخت ثابت کرنے میں
اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ پنجاب کے دور دراز کے علاقوں سے آنے والے لوگ لاہور
کی خوبصورتی کے سحر میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، اربوں روپے سے بننے
والے اورنج ٹرین منصوبہ کی تکمیل کے بعد لاہور کی شان و شوکت بلاشبہ قابل
دید ہوگی، ان منصوبوں پر تنقید اور طعن و تشنیع اپنی جگہ مگر شاید یہ وقت
اور حالات کا تقاضا بھی ہے جس کا سارا کریڈٹ وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف
کو جاتا ہے جن کی دن رات اَنتھک محنت اور ذاتی دلچسپی نے لاہور کو دنیا کے
صفحہ اول کے شہروں میں لا کھڑا کیا ہے، مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ پنجاب کے
عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ میاں شہبازشریف صرف لاہور کے وزیراعلیٰ
ہیں، باقی پنجاب لاوارث ہے، چند ایک چھوڑ کر پنجاب کے بڑے بڑے شہروں، قصبات
اور دیہات کا کوئی حال نہیں، لاہور کو دیکھ کر پنجاب کے دوسرے شہروں اور
دیہات سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں، سڑکوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ،
سرکاری ہسپتالوں، پی ایچ یوز، آر ایچ سیز سے لے کر تحصیل ہیڈ کوارٹر اور
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے، سکولز و
کالجز کے حالات اس سے بھی بد تر ہیں، لاء اینڈ آرڈر کی صورتِ حال روزانہ کی
پولیس پریس ریلیز میں صرف اور صرف لفظوں کی جادوگری اور اعداد و شمار کی
ہیرا پھیری کے علاوہ کچھ نہیں، جنوبی پنجاب تو کسی تھرڈ ورلڈ کنٹری کے گئے
گزرے علاقے سے بھی بد تر لگتا ہے حالانکہ ان علاقوں کے نمائندے ملک کے
وزیراعظم تک کے عہدوں پر براجمان رہے ہیں مگر آج میں ایک بہت دور افتادہ
علاقے کی نہیں بلکہ پنجاب کے اہم ترین ضلع کا ذکر کروں گا جو لاہور سے صرف
ایک گھنٹہ کی مسافت پر ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب میں محمد شہبازشریف کی پارٹی
کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے، ضلع گوجرانوالہ جسے پہلوانوں کا شہر کہا جاتا ہے
مگر اب صنعتکاروں کا شہر بن چکا ہے۔جناب وزیراعلیٰ ، گوجرانوالہ بجلی، گیس
اور ایف بی آر کی ریکوری میں بیسٹ پے ماسٹر ہے، اربوں روپے سالانہ ریونیو
جرنیٹ کرکے ملکی خزانے کا حصہ بنتا ہے، ضلع بھر میں تمام ڈمی صوبائی اور
بلدیاتی اداروں میں صرف اور صرف مسلم لیگی ہی براجمان ہیں اس کے باوجود ڈی
ایچ کیو ہسپتال ایک تماشہ طرفہ بن کر رہ گیا ہے، آئے روز ہسپتال انتظامیہ
کی جانب سے مریضوں سے مار دھاڑ کی خبریں ٹی وی چینلز کی زینت تو بنتی ہی
ہیں مگر ہسپتال کے اندرونی حالات لکھنے کے لیے تو کئی کالم درکار ہوں گے۔
سپیشلسٹ ڈاکٹرز ڈیڑھ دو گھنٹوں کیلئے آ نا گوارا کرتے ہیں وہ بھی یہاں سے
مریضوں کواپنے پرائیویٹ ہسپتالوں میں لے جانے کیلئے، مقامی ایم پی ایز ،
ایم این ایز جو کسی بھی حکومت کی آنکھ اور کان ہوتے ہیں اُنھوں نے اپنے آپ
کو ترقیاتی کاموں میں بڑے دھڑلے کے ساتھ کمیشن وصول کرنے اور ہر جائز و
ناجائز کام میں ٹانگ اڑا کر اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے مختص کردیا ہے۔ پنجاب
بھر میں گڈ گورننس کا یہ عالم ہے کہ ہر ضلع میں ہر ادارہ مادر پدر آزاد
دکھائی دے رہا ہے، ہر ادارے کی اپنی داستان ہے، گوجرانوالہ میں پاکستان کی
95 فیصد سرامکس انڈسٹری ہے، یہاں کا ورکر سینٹری وئیر سے لے کر ٹائل تک
اپنے خون پسینے کی محنت سے ملک بھر کی ضرورت پوری کرنے کیساتھ ساتھ اپنے
بال بچوں کا پیٹ پالتا ہے، اب سوئی گیس کی بجائے ایل این جی کے ریٹ کی وجہ
سے یہ انڈسٹری بھی آخری سانسیں لے رہی ہے جس سے ہزاروں افراد بے روز گار
ہونے کا خدشہ ہے۔
جناب وزیراعلیٰ آپ تو پورے پنجاب کے وزیرا علیٰ ہیں مگر بدقسمتی سے لاہور
تک محدود ہو گئے ہیں ، اپنے مشاہیر جن کو ہم کاپی کرتے ہیں ان کی باتیں ان
کے قصے اپنی تقریروں میں دھراتے نہیں تھکتے، بائیس لاکھ مربع میل کے حکمران
جن کے پاس جدید ٹیکنالوجی اور آج کی دنیا کے وسائل بھی نہ تھے، حضرت عمر
فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مدینتہ الرسولؐ میں بیٹھ کر یہاں تک فرما دیا
تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے
روز اﷲ کے حضور میں کوئی جواب نہیں دے سکوں گا۔۔۔ یہاں ہر روز بے گناہ
انسان آپ کی عدم توجہی سے مررہے ہیں مگر ضلعی اداروں کے ملازمین کی فوج ظفر
موج کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، گوجرانوالہ شہر سے صرف 10 کلو میٹر کے
فاصلے پر حافظ آباد روڈ شدید ٹریفک کے دباؤ کی وجہ سے ہر ماہ بے شمار
انسانی جانیں نگل جاتا ہے، سنگل روڈ پر ٹریفک کا اس قدر دباؤ ہے کہ ملتان،
فیصل آباد، جھنگ اور سرگودھا کی ساری ٹریفک حافظ آباد سے نکل کر گوجرانوالہ
پہنچتی ہے جس کی تیز رفتاری اور سنگل روڈ اس روڈ کے قرب و جوار میں رہنے
والوں کیلئے روزانہ کسی عذاب سے کم نہیں، موٹر سائیکلز اور چاندگاڑیوں (موٹرسائیکل
رکشہ) پر نکلنے والوں کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ محنت مزدوری کیلئے جانے پر
واپس گھروں کو آئینگے بھی کہ نہیں، ان علاقوں میں طبعی موت سے کہیں زیادہ
روزانہ کی بنیاد پر لوگ حادثات کا شکار ہو رہے ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری
حکومت ِ وقت پر ہے۔گوجرنوالہ کے شہریوں کیلئے پچھلے 10 سال سے بہت بڑا عذاب
گوجرانوالہ سے شیخوپورہ روڈ بھی ہے جہاں لوگوں کو آدھے گھنٹے کا سفر دو
گھنٹوں میں کرنا پڑتا ہے۔ وزیراعلیٰ صاحب یہ آپ کے لئے معمولی باتیں ہیں
مگر یہاں کے باسی آپ سے سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آپ لاہور کے
وزیراعلیٰ ہیں یا پنجاب کے، خدا کیلئے آپ پنجاب کے وزیراعلیٰ بنیں، ہم آپ
کو صرف لاہور کا ہیں بلکہ پورے پنجاب کا وزیراعلیٰ دیکھنا چاہتے ہیں، خدا
نہ کرے کہ ایسا دن آئے کہ پنجاب کے دوسرے اضلاع کے لوگ بھی لاہور آکرمشرقی
پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے شیخ مجیب الرحمن کی طرح سڑکوں کو سونگھ کر
کہیں کہ اس سڑک سے پٹ سن کی خوشبو آرہی ہے، پنجاب کے لوگوں کے ٹیکسوں کا
حصہ لاہور کے علاوہ باقی شہروں اور قصبات کو بھی دیں اور باقی آبادی کو بھی
ایسی سہولیات دیں جس کی وجہ سے دیہاتوں سے شہروں کی طرف جاری نقل مکانی کو
روکا جاسکے، اگر اسی رفتار سے لوگ نقل مکانی کرتے رہے تو لاہور جیسے شہر
میں بھی وسائل مسائل کا شکار ہوجائیں گے۔ |