اتوار 23 اپریل 2017 کو کراچی میں سیاست کا اتوار بازار
گرم تھا، شہر میں تین سیاسی جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)
پاکستان، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے شہر کے مختلف
علاقوں میں ریلیاں نکالیں۔ اس کے علاوہ پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) نے
کراچی پریس کلب سے اپنا اٹھارہ روزہ احتجاجی دھرنا ختم کردیا۔تاہم ریلیوں
کے دوران ٹریفک اہلکار نظر نہیں آئے، جس کے باعث اہم شاہراہوں پر ٹریفک کا
نظام درہم برہم ہوگیا اور شہری گھنٹوں اذیت کا شکار رہے۔گاڑیوں کے درمیان
ایمبولینسزبھی پھنسی رہیں۔ شہریوں کے گھنٹوں اذیت میں رہنے کی زمہ دار
پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت ہے جو شہری حکومت کے اداروں پر قبضہ کرکے
بیٹھی ہوئی ہے لیکن شہریوں کو سہولتیں دینے کے بجائے شہریوں کو دن رات عذاب
میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ صوبائی حکومت نے شہر کے مسائل تو حل نہیں کرنا ہیں
لیکن حکومت شہر کے مسائل سے بخوبی واقف ہے۔ کیا یہ مناسب تھا کہ شہر میں
ایک ہی دن میں تین مختلف جگہاوں پر ریلیاں نکالنے کی اجازت دی گئی،
حکمرانوں کوتو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن عام شہری پریشان ہوتے ہیں۔
آجکل پاکستان بھرمیں مردم شماری بھی ہورہی ہے، پاکستان کے آئین کی رو سے
ملک میں مردم شماری کا عمل ہر دس سال کے بعد ضروری ہے، تاہم پاکستان میں
آخری مردم شماری 19 سال قبل 1998 میں ہوئی تھی۔ اگلے سال 2018 میں پاکستان
میں عام انتخابات بھی ہونے ہیں، اس لیے آنے والے انتخابات میں مردم شماری
کے بعدپاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں لازی اضافہ ہوگا،
کراچی میں بھی قومی اورصوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوگا ۔کراچی کے
سابقہ حالات کے مقابلے میں اب حالات پہلے سے بہتر ہیں لیکن ابھی مکمل بہتر
نہیں ہیں۔کراچی کے 87 فیصد عوام کی نمائندہ ہونے کی دعویدار ایم کیو ایم
اپنے بدترین دور سے گزر رہی ، اب اس کے چار گروپ بن گئے ہیں لہذا کافی حد
تک اپنی سیاسی طاقت کھوچکی ہے۔موجودہ حالات میں کراچی سیاستدانوں کو ایک
آسان شکار لگ رہا ہے، ہر سیاسی پارٹی کی کوشش یہ ہے کہ’’کراچی پراپنا
سیاسی قبضہ کرلیا جائے‘‘۔ اس کوشش میں پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی
جماعتیں شامل ہیں۔ اب مختلف سیاسی پارٹیاں مختلف مسائل پر بات کررہی ہیں
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے مسائل کافی پرانے ہیں۔ مصطفی کمال سابق میر
کراچی جن کا مرنا جینا ایم کیو ایم کے ساتھ تھا ، ان کا اختلاف اپنے قائد
الطاف حسین کے ساتھ ہوا تو دبئی جاکر بیٹھ گئے، اور پھر تین سال بعد 3 مارچ
کی صبح متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے سابق ڈپٹی کنوینر انیس قائم
خانی کے ہمراہ کراچی پہنچے اور الطاف حسین سے اپنے راستے جدا کرلیے، پاک
سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے نام سے ایک پارٹی تشکیل دی جو ابھی تک عوام کو
اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہی ہے، اب مسائل کے نام پر کراچی پریس کلب
کے باہر 18 دن سےدھرنا دیے بیٹھے تھے اتوار 23 اپریل کو بغیر کچھ حاصل کیے
اپنے احتجاجی دھرنے کو ایک 16 نکاتی مطالبات کے ساتھ ختم کردیا اور اس طرح
اتوار 23 اپریل کو شہر کی پہلی سیاسی مصروفیت اپنے انجام کو پہنچی۔
اتوار 23 اپریل کی تین ریلیوں میں سے ایک ریلی وزیراعظم سے یکجہتی کےلیے
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وزیر اعظم سے اظہار یک جہتی کےلیے’نوازشریف زندہ
باد‘ ریلی نکالی گئی۔ریلی کی قیادت کراچی کے رہنے اور پنجاب سے منتخب ہونے
والے سینٹر نہال ہاشمی، اورمسلم لیگ (ن) کے صدر بابو سرفراز جتوئی نے کی
۔ریلی کے اختتام پربابوسرفراز جتوئی کا کہنا تھا کہ آئندہ2018کے انتخابات
مسلم لیگ (ن) ہی جیتے گی، بابو سرفراز جتوئی نے دعوی کیا کہ کراچی میں امن
قائم کرنے پر کراچی کے عوام میاں نواز شریف کے ساتھ ہیں ۔ اور اس طرح اتوار
23 اپریل کو شہر کی پہلی ریلی کا خاتمہ ہوا جو بے مقصد سیاسی مصروفیت تھی،
لیکن جناب خوشامد بڑئے کام کی چیز ہے اور نہال ہاشمی اس کام میں ماہر ہیں۔
دوسری ریلی پاکستان پیپلزپارٹی نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور وفاقی حکومت کے
خلاف کراچی میں دو جگہ سے نکالی، ایک ریلی لیاری سے ریگل چوک تک نکالی گئی
جبکہ دوسری ضلع شرقی کے مختلف علاقوں سے ہوکر حسن اسکوائر پر اختتام پزیر
ہوئی۔ شرکاء سے سینیٹر سعید غنی نے خطاب کیا اور کہا کہ وزیراعظم خود چلے
جائیں، ایسا نہ ہو کہ ہم ان کی وزارت عظمی کی نشست کھینچ لیں۔پیپلز پارٹی
کی اس ریلی کے بارئے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ وفاقی حکومت کے خلاف ایک
احتجاج تھا، اس سے کراچی کے مسائل کا کوئی تعلق نہیں تھا، اور حقیقی بات
بھی یہ ہی ہے کہ پیپلز پارٹی کو کراچی کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
کراچی میں آخری اور تیسری ریلی ایم کیو ایم پاکستان کی تھی، کراچی کے
مسائل کے حل کیلئے نکالی جانے والی اس ریلی کو ’’حقوق ریلی‘‘ کا نام دیا
گیا تھا۔ریلی میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ، ریلی کے شرکا اپنے
ہاتھوں میں ایم کیوایم (پاکستان) کے پرچم تھام ہوئے تھے۔میڈیا کے مطابق
ریلی میں ایم کیو ایم (پاکستا ن) کا نظم و ضبط دیکھنے میں آیا ۔ یہ ریلی
کراچی کی سیاست میں اب بھی ایم کیو ایم پر عوام کے اعتماد کا مظر تھی۔
کراچی کے مسائل کی نمائندگی صرف اس ریلی میں نظر آئی جس میں کراچی کے
مسائل کو حل کرنے کے نعرئے لگائے گئے، اس ریلی میں خواتین کی ایک بڑی تعداد
نے بھی شرکت کی۔شرکاء کے ہاتھوں میں موجود بینرز پر کراچی کو اس کے جائز
حقوق دو، ظالموں کراچی کے لوگوں کو پانی دو، کے ساتھ اور بھی بہت سے نعرے
درج تھے۔ ریلی مزار قائد پہنچ کر جلسہ میں تبدیل ہوگئی۔ تو جناب یہ تھیں
کراچی کے 23 اپریل کی سیاسی اتوار بازار کی ریلیوں کی کہانیاں۔
پیپلز پارٹی سندھ میں نو سال سے برسراقتدار ہے، لیکن اسے سندھ کے شہری
علاقوں خاص کر کراچی اور حیدرآباد کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں، مسلم لیگ
(ن) کو بھی کراچی اور اس کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، مرکز اور پنجاب
نواز شریف کےلیے کافی ہے، دو سال پہلے کراچی میں گرمی کی شدت سے 2000 افراد
مرگئے ، نواز شریف صرف چند گھنٹوں کے لیے کراچی آئے، کسی ہسپتال میں جاکر
کسی مریض کی عیادت نہیں کی، اگلے سال 2018 میں بھی یہ رسماً ووٹ مانگنے
کراچی آینگے، پیپلز پارٹی کراچی سے دو سیٹوں کے علاوہ اور بھی جیتنا چاھتی
ہے لیکن کراچی کے مسائل حل کیے بغیر۔ عمران خان اور انکی تحریک انصاف نے
گذشتہ چار سال نواز شریف کو فوکس کیے رکھا اور اس انتظار میں رہے کہ کب
نواز شریف استعفی دیں اور وہ وزیر اعظم بنیں، اگر تحریک انصاف جو کے پی کے
میں برسراقتدار ہے وہاں کچھ کام کرتی اورکراچی میں جہاں سے 2013 کے
انتخابات میں انہیں 8 لاکھ ووٹ ملے تھے، لیکن بعد میں انہوں نے صرف حلقہ
246 کے انتخابات میں حصہ لیا اور پھر کراچی کو بھول گئے، اگر وہ مستقل
کراچی میں کام کرتے تو آج وہ کراچی میں ایک اجنبی پارٹی نہ کہلاتے۔ جماعت
اسلامی کراچی کی ایک پرانی جماعت ہے، مولانا مودودی کی زندگی میں کراچی میں
یہ مہاجروں کی جماعت کے طور پر کام کرتی تھی، اس کو کام کرنے کا موقعہ بھی
ملا لیکن اس کی دلچسپی کراچی کے مسائل سے کم اور اپنے شدت پسند نظریات سے
زیادہ رہی، اب یہ مذہبی شدت پسندی کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کی سہولت کاری
میں زیادہ دلچسپی لیتی ہے جو کراچی کے لوگوں کو پسند نہیں، دکھانے کے لیے
یہ اب بھی انتخابات لڑتے ہیں ۔ اتوار 23 اپریل کی سیاسی مصروفیات میں سے
صرف ایم کیو ایم (پاکستان) کے سیاسی شو نے یہ پیغام دیا ہے کہ کراچی کے عام
عوام اور خا صکر اردو بولنے والے الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی پاکستان
مخالف تقریر سے لاتعلق ہوچکے ہیں اور ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت کو تسلیم
کررہے ہیں، اس وقت تک تو کراچی کی قیادت ایم کیو ایم (پاکستان)کے پاس ہی
ہے۔
|