ترکی میں سلطنت عثمانیہ کا ظہور

طیب اردگان ترک قوم کے نجات دہندہ کے روپ میں

ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان اکثر اپنی تقریروں میں 2023ء کا حوالہ ضرور دیتے ہیں ؟وہ یورپ بالخصوص جرمنی سے اتنے خوفزدہ کیوں نظر آتے ہیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی تہہ میں اتر ے بغیر ان باتوں کا جواب تلاش نہیں کیاجاسکتا ۔ انگلینڈ سے موصولہ ایک رپورٹ جو میرے قابل احترام بزرگ ظفر زمان چشتی صاحب نے مجھے بھجوائی ۔اس رپورٹ میں ان واقعات کو بطور خاص زیر بحث لایاگیا ہے ۔ اس رپورٹ کا ذکرمیں اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں ۔ جدید ترکی کے معمار کمال اتاترک نے مغربی طاقتوں سے مل کر 1923ء میں ایک ایسے سوسالہ معاہدہ پر دستخط کیے۔ جسے تاریخ میں "معاہدہ لوزان " کے نام سے یاد کیاجاتا ہے ۔ اس معاہدے کی رو سے خلافت عثمانیہ ختم کردی گئی اور تینوں براعظموں میں موجود خلافت عثمانیہ کے اثاثوں اور املاک سے بھی دستبرداری اختیار کرلی گئی تھی ۔2023ء میں یہ معاہدہ خود بخود اپنی مدت پوری ہونے پر ختم ہورہاہے ۔ یہ معاہدہ لوزان ٗ جنگ عظیم اول کی فاتح قوتوں نے آپس میں ہی طے کیا تھا اور دستخط کمال اتاترک نے کرکے مہر تصدیق ثبت کردی۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ فاتح قوتیں ترکی کے بڑے حصے پر قابض تھیں ۔ ان قوتوں میں سے برطانیہ نے وہ خطرناک اور ظالمانہ شرائط معاہدہ لوزان میں شامل کروائیں جن کی رو سے ہاتھ پاؤں باندھ کر ترکی کو یورپی ممالک کا محکموم بنا دیاگیا تھا۔ ترکی اگلے سو سال تک اس معاہدے کو نبھانے کا پابند قرار پایا۔اس معاہدے کے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل تھے -:
-1 خلافت عثمانیہ فوری طور پر ختم کردی جائے ۔ سلطان اور ان کی فیملی کو ترکی سے جلاوطن کردیاجائے ۔
-2 خلافت عثمانیہ کی تمام املاک اور اثاثے ضبط کرلیے جائیں جس میں سلطان کی ذاتی املاک بھی شامل ہوں ۔
-3 ریاست ترکیا مستقبل میں ایک سیکولر ریاست ہوگی اس کا دین اسلام ٗ خلافت عثمانیہ اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔
-4 ترکی اپنی سرزمین اورسمندری حدود میں تیل کی تلاش نہیں کرسکے گا اور اپنی ضرورت کا تیل دوسرے ملکوں سے منگوانے کا پابند ہوگا ۔
-5 باسفورس عالمی سمندر میں شمار ہوگا اور ترکی یہاں سے گزرنے والے بحری جہازوں سے کسی بھی قسم کا کوئی ٹیکس وصول کرنے کا مجاز نہیں ہوگا ۔

یادرہے کہ باسفورس۔ بحراسود ٗ بحر مرمر ہ اور بحر متوسط کے درمیان میں وہ سمندر ہے جو عالمی تجارت کا مرکزی راستہ ہے جہاں سے بحری جہازوں کے ذریعے دنیا کی کثیر تجارت ہوتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس بحری راستے کو وہ اہمیت حاصل ہے جو مصر نہر سویز کو دنیا میں حاصل ہے ۔

تاریخ اس بات کی شاہدہے کہ ترکی میں فوج اور عدلیہ کے باہمی ملاپ میں ترک معاشرے کو کس قدر مضبوطی سے جکڑ رکھا تھا کہ وہاں کھلے عام قرآن پاک پڑھنے کی بھی اجازت نہیں تھی اور اگر سیکورٹی اداروں کو پتہ چل جاتا کہ کسی گھر یا مقام پر قرآن کی تعلیم دی جارہی ہے تو وہ گھر ہی بحق سرکار ضبط کرلیا جاتا ۔ نماز کے حوالے سے بھی کہیں نرمی دیکھنے میں نہیں آئی ۔جبکہ روشن خیالی کا اس قدر چرچا تھا کہ سر پر دوپٹہ پہن کر کسی بھی سرکاری تقریب ٗ سکول ٗ کالج میں جانا سب سے بڑا جرم تصورکیا جاتاتھا ۔ اس سخت گیر معاشرے میں طیب اردگان سے پہلے بھی وہ تین بار اسلامک ذہن رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے عوام کے ووٹوں سے حکومتیں توبنالیں لیکن یہ حکومتیں عدلیہ اور فوجی بیورو کریسی نے مل کر ختم کردیں اور اسلامی ذہن رکھنے والے افراد کو مشق ستم بنا ڈالا ۔ طیب اردگان کا وجود یقینا ایسے ترک معاشرے کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتاہے جنہوں نے ایسے سیکولر اور سخت معاشرے میں نہ صرف اپنے وجود کو برقرار رکھا بلکہ ہر سطح پر سیکولر روایات کو آہستہ آہستہ ختم کرڈالا ۔

اسی سال 15جون کو ترکی میں جو ناکام فوجی بغاوت ہوئی تھی اس کے پیچھے بھی امریکہ سمیت یورپی ممالک تھے ۔ اس بغاوت کا محرک طیب اردگان جیسے اسلامی ذہن کے عوامی لیڈر کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانا تھا جس طرح مغربی ممالک نے مصر میں صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں ایک امریکی پٹھو مصری جرنیل بٹا دیا اور مرسی کو عدالت کی جانب سے کبھی سزائے موت اور کبھی عمرقید کی سزا سنادی گئی ۔ مصرکی فوجی بغاوت کو ایک مثال بنا کر ترک معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔ یہ تو اﷲ تعالی کا کرم ہوا کہ عوام کے شدید ردعمل کی بنا پر ترکی میں فوجی بغاوت کو کچھ اس طرح کچل دیاگیا کہ تاریخ میں اس کا ذکر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا ۔ اور دنیا نے دیکھا کہ جب عوام کسی نظریے یا عوامی لیڈر کا تحفظ کرتی ہے تو ٹینکوں توپوں اور جہاز وں سے لیس فوج بھی راکھ کا ڈھیر ثابت ہوتی ہے ۔ فوج کے سامنے کھڑا ہوناکوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ پھر مسلم ممالک کے عوام توفوجی بغاوت پر مٹھائیاں تقسیم کرنے میں مشہور ہیں ۔ بطور خاص پاکستان میں جتنے مرتبہ بھی مارشل لاء نافڈ ہوا تو عوام نے مزاحمت کی بجائے ہمیشہ میٹھائیاں بانٹ کر اپنی خوشی کا اظہار کیا ۔ اس اعتبار سے رجب طیب اردگان دنیائے اسلام کے وہ ہیرو ہیں جن کی پشت پر ترک عوام کھڑی ہوگئی ۔ جس طرح عوام اور پولیس والوں نے باغی فوجیوں کو ٹینکوں سے نکال نکال کر درگت بنائی اس کو صدیوں تک بھولایا نہیں جاسکے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ترک قوم ایک بار پھر اردگان کی قیادت میں سلطنت عثمانیہ کے ظہور کی جانب لوٹ رہی ہے ۔

قصہ مختصر یہ کہ رجب طیب اردگان ایک سے زائد بار یہ واضح کرچکے ہیں کہ 2023ء کے بعد ترکی ایک کمزور اور بیمار ملک نہیں رہے گا بلکہ ایک طاقت ور اور ترقی یافتہ ملک کی حیثیت سے ابھر کر یورپی سازشوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوگا ۔ ہم ترک سرزمین پر اپنی ضرورت کے مطابق تیلاور دیگر معدنیات بھی تلاش کریں گے اور نہر سویزکی طرح ایک ایسی نہر بھی کھودیں گے جو بحر اسود کو بحرہ مرمر ہ کے ساتھ ملا کر مربوط کرے گی ۔ اس نہر کی کھدائی کے بعد ترکی یہاں سے گزرنے والے ہر بحری جہاز سے ٹیکس وصول کرے گا ۔جس سے ترک معیشت مضبوط سے مضبوط تر ہوگی ۔

اس صورت حال سے ساری کہانی واضح ہوجاتی ہے کہ مغرب کیوں اردگان کا اس قدر سخت دشمن بنا ہوا اور مغرب کے اپنے مفادات کس طرف ہیں ۔ اردگان کیوں ترکی کے لیے ایک پاور فل منتظم اورصدر چاہتے ہیں۔ طیب اردگان کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ لولا لنگڑا اور کمزور صدر ٗ ترکی کے لیے زیادہ جرات مندی سے اہم ترین فیصلے نہیں کرپائے گا اور نہ ہی یورپی ممالک کی سازشوں کا مقابلے کرنے کی اس میں جرات ہوگی ۔تجزیہ نگار کے مطابق یہ بات ترکی کے مفا د میں ہے کہ امریکی طرز پر صدارتی اختیارات سے لیس ترک فوج کاکمانڈر انچیف اور قوم کا اعتماد رکھنے والا صدر ہو جو عالمی سطح پر ترکی کو اس کا آبرو مندانہ مقام دلاسکے ۔

اسی حوالے سے امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کا بھی جائزہ لیتے چلیں جو پینٹاگان نے میڈیا کو جاری کی ہے جس میں امریکی خباثت کس قدر چھپی ہوئی ہے اور امریکی کس طرح مسلم ممالک میں حکومتوں کا تختہ الٹنے اور وہاں اپنی کٹھ پتلیوں کو منصب اقتدار پر بٹھانے کے لیے ہوم ورک کرتے ہیں ۔امریکی انٹیلی جنسی رپورٹ کے مطابق 15 جون کو ترکی میں برپا ہونے والی بغاوت محض ڈراما تھا ۔اس جعلی بغاوت کے ذریعے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان یورپ کے ساتھ دشمنی کی نمائش کرنا چاہتے تھے ۔ تاکہ ریفرنڈم سے پہلے اپنے ساتھیوں کو تیار کرسکیں ۔رپورٹ کے مطابق اردگان یورپ کے ساتھ اپنی دشمنی کے مسائل کو اٹھا رہے ہیں تاکہ عوام کی توجہ ریفرنڈم کی جانب مبذول کروا سکیں ۔ جبکہ اردگان کا کہنا ہے کہ یورپ ان کے ملک کو اپنے اتحاد میں اس لیے شامل نہیں کرنا چاہتا کہ وہ عیسائی حکومتوں کااتحاد قائم رکھنا چاہتا ہے ۔ امریکی محکمہ دفاع کے سابق افسر مائیکل روبن کاکہناہے کہ صدر اردگان اپنے ساتھیوں کو ریفرنڈم سے مسلح کررہے تھے کیونکہ انہیں ریفرنڈ م میں شکست کاخوف تھا ۔

جہاں تک اس امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کا تعلق ہے دنیا نے اپنی آنکھوں سے عوام کو فوجی بغاوت کچلتے ہوئے دیکھا جبکہ طیب اردگان تو کسی اور مقام پر مقیم تھے جہاں بمباری کرکے انہیں ہلاک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن جسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ طیب اردگان جیسے عظیم لیڈر دنیا میں بہت کم کم دکھائی دیتے ہیں ان کی عوامی مقبولیت کو دیکھ کر ایرانی انقلاب کی یاد تازہ ہوتی ہے جس میں امام خیمنی نے شنہشاہ رضا پہلوی جیسے امریکی پٹھو کا بستر کچھ اس طرح گول کیا کہ اسے دنیا میں پھر کہیں پناہ نہیں ملی ۔

بہرکیف یہ سازشیں ایک طرف تو دوسری جانب ترکی میں ہونے نظام حکومت کی تبدیلی اور صدر کے اختیارات میں توسیع کے حوالے سے ہونے والا عوامی ریفرنڈم ترکی کے موجودہ صدر جناب اردگان نے 51.4 فیصدووٹ لے کر جیت لیا ہے ۔ اس ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد اردگان کو کابینہ کے وزراء ٗ سینئر ججوں کے چناؤ اور پارلیمان کو برخاست کرنے کے وسیع اختیارات حاصل ہوگئے ہیں ۔ نئی اصلاحات کے تحت ملک میں وزیر اعظم کا عہدہ ختم کردیاجائے گا۔اس کی جگہ نائب صدر لے لیں گے ۔اس طرح ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان 2029ء تک ترکی کے صدر رہ سکیں گے ۔ قدرت نے ایک بار طیب اردگان کی شکل میں ایک مضبوط اور توانا آواز سلطنت عثمانیہ کے آمین ترکی کو فراہم کردی ہے جو اندرونی سطح پر بھی اپنے اچھے کارناموں کی بدولت گزشتہ ایک عشرے سے مقبول ترین عوامی لیڈر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔ اﷲ تعالی نے انہیں اتنی جرات بھی عطا کررکھی ہے کہ وہ امریکہ ٗ جرمنی ٗ فرانسٗ برطانیہ اور اسرائیل جیسے طاقتور ملکوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کاہنر بھی خوب جانتے ہیں بلکہ عیسائی اوریورپی ممالک کی تمام سازشوں کا تن تنہا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ حالیہ ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد اردگان 2029ء تک ترکی کے صدر رہیں گے قدرت نے انہیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ امت مسلمہ کی آواز بن کر ایک بار پھر سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھیں جس کے پلیٹ فارم پر تمام اسلامی ممالک نہ صرف اپنے مسائل حل کریں بلکہ امریکہ اور یورپی ممالک کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کریں ۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان ٗ سعودی عرب ٗ ایران کو بطور خاص اردگان کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیئں اور کچھ عرصے کے لیے مسلکی مسائل اور اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلمان ہونے کا ثبوت دیں ۔ اس وقت شام ٗ عراق ٗیمن ٗ لیبیا اور افغانستان میں جو نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی جاری ہے اختلافات کی اس آگ کو تب ہی بجھایا جاسکتا ہے جب تمام مسلم ممالک ایک اقتصادی ٗ معاشی اور عسکری گروپ کی شکل اختیار کرلیں ۔ اسلامی اتحادی فوج کی سربراہی سنبھالنے کے لیے جنرل راحیل شریف سعودی عرب پہنچ گئے ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنا کام شروع کرنے سے پہلے ایران کا دور ہ کریں اورایرانی غلط فہمیوں کو سب سے پہلے ختم کریں گے اور اسلامی اتحادی فوج میں ایران کی شرکت بھی یقینی بنائیں گے ۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید قدرت کو سو سال کے بعد بالاخر مسلمانوں پر رحم آ ہی گیاہے جس کا اظہار بیمار اور کمزور ترکی کی جگہ ایک مرد آہن کی شکل میں ابھر ے گا۔ اس کے باوجود کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور دنیا بھر میں اس کی افواج کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے لیکن پاکستان کے نابالغ سیاسی قائدین اس قدر غیر ذمہ دارہیں کہ باہمی اتحاد اور یگانگہت کو ہی ہمیشہ داؤ پر لگاکر رکھتے ہیں ۔ دشمن کی سازشوں کوناکام بنانے کی بجائے وہ آپس میں ہی الجھتے رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایٹمی ملک اور گوادر جیسے مقام رکھنے کے باوجود سیاسی عدم استحکام کا دن بدن شکار ہوتا جارہا ہے ۔ جو انتہائی تشویش کی بات ہے ۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتاہے کہ پانامہ کیس کی آڑ میں ملک دشمن عناصر پاکستان کی سالمیت کو ہی خطرے میں ڈالنے پر تلے بیٹھے ہیں وہ نواز شریف جس نے سی پیک جیسے اہم ترین منصوبے شروع کرکے دنیا بھر کی نگاہیں پاکستان کی جانب مرکوز کرلی تھیں خودان کی شخصیت ایک سازش کے تحت متنازعہ بنا دی گئی ہے ۔ اس سازش میں وہ تمام کٹھ پتلیوں شامل ہیں جن کی ڈوریں بھارت ٗامریکہ اوراسرائیل سے ہلائی جاتی ہیں ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 661389 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.