میں کسی کی سوچ یا کہے الفاظ پر تنقید نہیں کر رہا بلکہ
اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ حقائق اور دروغ گوئی یا تصورات میں زمین آسمان کا
فرق ہوتا ہے یعنی جتنے منہ اتنی باتیں بلکہ منہ کم اور باتیں زیادہ ، کہ
انسان کی پہچان اسکے خون سے ہوتی ہے ،کئی لوگوں کا تو خون ہی سفید ہو گیا
ہے، تمہارا خون خون ہمارا خون پانی ہے، خون آخر اپنا رنگ دکھا ہی دیتا ہے ،
کسی گندے خون کی پیداوار ہے جیسے الفاظ دنیا بھر میں ہر کو ئی موقع محل کی
مناسبت سے اپنی زبان میں ادا کرتا رہتا ہے،کسی کو برا منانے کی ضرورت نہیں
کیونکہ کئی لوگوں کو کسی بھی پہلو پر سوچنے یا مطالعہ کرنے کی فرصت نہیں
اور بس اس بات پر ہی اتفاق کرتے ہیں کہ یہی سنا ہے اور اسے فارورڈ کرتے ہیں
ایسے لوگ قطعاً بے بہرہ ہوتے ہیں کہ ہم جو الفاظ کسی دوسرے کو آسانی سے کہہ
رہے ہیں اسکے دل پر کسی ایٹم بم کی طرح گرتے ہونگے ،رٹے رٹائے اور سنے
سنائے الفاظ کئی انسانوں کی روزمرہ روٹین بن چکے ہیں مثلاً تین ٹائم کھانا
کھانا اور تین سو ٹائم نازیبا الفاظ ادا کرنا اور قائم بھی رہنا کہ ہم سچ
اور حق پر ہیں جیسے برسوں ریسرچ کی ہو کہ فلاں کا خون صاف ہے اور فلاں کا
خون گندہ،یا خون کا رنگ سفید ہے یا کالا پیلا،لفظوں کے ہیر پھیر سے ہم جسے
چاہیں کچھ بھی کہیں لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ خون سرخ
ہے یعنی لال ہے۔بات کو طول دیا جائے تو کتاب بنتی ہے جبکہ میرا مقصد کالم
کے نام پر انفارمیشن دینا ہے کہانیا ں یا افسانے گڑنا نہیں یا کسی کی
ذاتیات ،لقوبیات یا الفاظوں میں زیر زبر پیش کی تلاش کرنا۔لیبارٹریز
ویلیویا بلڈ ٹیسٹ وغیرہ کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آخر بلڈ ٹیسٹ
کیوں لیا جاتا ہے کیا صرف اس لئے کہ خون گندہ ہے اور لیبارٹریز ویلیوکی کیا
اہمیت ہے ،خون سفید یا کالا پیلا ہوگا تو وہ انسان ہو نہیں سکتا یعنی زومبی
یا ایلین میں شمار ہو گا اور ٹیسٹ کے بعد اسے زیرو یعنی ایرر قرار دیا جائے
گا۔انسانی زندگی کا رس یا جوس اسکا خون ہے خون خشک تو زندگی خشک۔انسانی جسم
میں خون اور پانی ایسے لیکویڈ ہیں جن کی سرکولیشن کے بغیر کوئی انسان زندہ
نہیں رہ سکتا کیونکہ خون جسم میں سانسیں چلنے اور ساکت ہونے کے بعد بھی کئی
گھنٹوں تک سرکولیشن کرتا ہے یعنی انسان کے مرنے کے بعد بھی خون فوری طور پر
منجمد نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ پانی کے علاوہ خون کا ہمارے جسم میں اہم
رول ہے،اگر ہم بیمار ہو جائیں اور ڈاکٹرز بیماری کا سراغ نہ لگا سکیں تو
بلڈ ٹیسٹ لازمی قرا ر دیا جاتا ہے۔ کوئی زندگی خون کے بغیر مکمل نہیں، ایک
مائکرو لیٹر خون میں تقریباً پانچ میلین سرخ خلیات سرکولیشن کرتے ہیں پانچ
سے چھ لیٹر خون دل سے تمام جسم اور جسم سے دل تک پمپ کرتا ہے جس کی بدولت
سرخ غذائی اجزاء اور دیگر مادہ ہماری زندگی کو بزریعہ خلیات زندہ رکھتے ہیں
مثلا آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔یہ سرخ لاوہ جسے ہم خون کہتے ہیں اور گندہ بھی
ہماری اپنی جسمانی غلاظت کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرتا ہے یعنی جگر اور
گردوں کی گندگی کو مخصوص مقام پر ٹرانسفر کرتا ہے اور اسی خون کی سرکولیشن
کی بدولت ہم دن میں کئی بار لیٹرین کا استعمال کرتے ہیں ،یہ کوئی ہائی لیول
کی بات نہیں ہم اپنا خون دوبارہ اپنے اندر ہی جذب کرتے ہیں چاہے وہ کسی بھی
طریقے سے کیوں نہ ہوں کھاد ہو،چاول ہو،مکئی ہو،دودھ یا پانی۔ہائی لیول کی
بات سمجھنا آسان نہیں ہوتا اسی لئے آسان لفظوں میں تشریح لازمی ہے۔خون میں
کچھ اجزاء مدافعتی نظام کی مدد کرتے ہیں کچھ خلیات جنہیں سفید جراثیم بھی
کہا جاتا ہے بیماریوں کو جنم دیتے ہیں اور سرخ خلیات ان سے انٹرنل جنگ کرتے
ہیں تاکہ جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کر سکیں سرکولیشن برقرار رہے اور
ٹرانسپورٹ رواں رہے گرمائش میں کمی واقع نہ ہو منفی خلیات اور دیگر مدافعتی
عوامل سے خون منجمد نہ ہو۔بلڈ ٹیسٹ کو ایک نظر سے دیکھا جائے تو مختلف
نتائج برامد ہوتے ہیں یا اخذ کئے جاسکتے ہیں مثلاً میڈیسن، ٹھوس جسمانی
اجزاء یا بلڈ پلازما۔پلازما کو معالجین سیرم کہتے ہیں اور یہ اس وقت
استعمال کیا جاتا ہے جب خون کی سطح کا تعین کیا جاتا ہے ،لیبارٹریز میں
تجزیہ کار مائع سے ریسرچ کرتے ہیں جس سے انہیں انفارمیشن ملتی ہے کہ خون کی
رفتار کیا ہے،مختلف جراثیم کی آمد اور اخراج،یا کس جراثیم کی آمد سے کون سی
انفیکشن ہوئی یا نہ نظر آنے والی بیماری کا پتہ لگایا جاتا ہے اور طے
ہوجانے کی صورت میں تمام بلڈ ٹیسٹ رپورٹ متعلقہ ڈاکٹر کو پیش کی جاتی ہے
تاکہ وہ علاج جاری رکھ سکے۔لیبارٹریز ٹیسٹ۔ایچ بی اے ون سی۔گاما جی ٹی ۔آئی
جی جی۔کے علاوہ جن خونی خلیات کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے
مثلاًکیلشیم،کولیسٹرین،ایریتھروسائنٹین،فیری ٹین،فوک ایسیڈ،گاما،ہیما ٹو
کریٹ،ہیمو گلوبن،کوریٹسول،میگنیزم،پروگیسٹیرون،پی ایس اے،ٹیسٹو
سٹیرون،ٹرومبوسٹین،وٹامن بی بارہ،اس کے علاوہ کئی ٹیسٹ ایسے ہیں جنہیں ارود
میں ترجمہ نہیں کیا جا سکتا بہر کیف۔خون بہت قیمتی اور انمول ہے بہت پیار
سے بنتا ہے اسے بے جا اور اپنی ضد میں آکر بہانے سے گریز کیا جائے، جب
بنانے والے نے اس میں کوئی فرق نہیں رکھا کہ یہ کالے پیلے یا گورے کا ہے تو
ہم کون ہوتے ہیں کسی بھی خون کو گندہ کہنے والے۔؟ ۔
|