میرے پچھلے مضمون پر چند دوستوں
اور محب وطن پاکستانیوں نے میرے تجزیے پر اپنے خیالات مجھ تک پہنچائے جس کے
لیے میں انکا شکر گزار ہوں. آج کی یہ تحریر انہی درد دل رکھنے والے وطن
دوستوں کے سوالات اور میرے مشاہدات پر مبنی ہے. امید کرتا ہوں کہ چند
تاریخی اور زمینی حقائق کی روشنی میں کچھ باتیں کی جائیں. سب سے پہلے ان
دوستوں کے لیے ایک گزارش ہے جو آصف زرداری اور پرویز مشرف کا موازنہ کرتے
ہیں. میرے خیال سے یہ موازنہ ہر صورت غلط ہے دونوں کے درمیان موازنہ کرنے
سے پہلے ان کے پس منظر پہ نظر دوڑانا ضروری ہے. آصف زرداری کے دور کی
زیادتیاں اور آصف زرداری کی حکومت کی چیرہ دستیاں ہمارے لیے کوئی اچنھبے کی
بات نہیں ہونی چاہیے جو حکمران ملک کو سیلاب کی بد مست موجوں میں چھوڑ کر
یورپ میں اپنے محلات اور عجائب گھروں کے دوروں کر رہا ہو اور جس کا کل
پاکستان اسکی سرکاری رہائش گاہ ہو اور جسکے دور حکومت میں لاشیں سیالکوٹ
جیسے شہر میں لٹکائی جائیں اسے صدر پاکستان نہیں صبر پاکستان کہا جا سکتا
ہے اس پر مزید بات کبھی بعد میں کریں گے.
آتے ہیں ایک فوجی پس منظر رکھنے والے کمانڈو کی طرف جس کی تربیت ایک عسکری
تربیت گاہ میں ہوئی جو ملک پاکستان کی فوج کا سربراہ رہا اور جس نے تین
جنگیں لڑیں. پرویز مشرف نو سال تک پاکستان کے صدر رہے نو سال تک انہوں نے
پاکستان کے عوام کے مقدر کا فیصلہ دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھ کر
عوام کی منشا اور مرضی کے خلاف ایسے کیا جیسے وہ ملک اور اس کے عوام ان کی
زر خرید جاگیر ہیں. میرے پچھلے مضمون میں میں نے تنقید نہیں توجہ مبذول
کروانی چاہی تھی مگر افسوس اس بات کا ہے کہ سیاستدان پرویز مشرف صاحب میری
سوچ سے بھی زیادہ سیاسی دنیا سے نابلد ثابت ہوئے.
مزاج کا اکھڑ پن اور کھلنڈری طبیعت شاید مشرف صاحب کی پہچان بن جائے.
برطانیہ سے اپنی عملی سیاست کا آغاز کرنے کے بعد مجھے ایسے لگا کہ کوئی
قیدی پاکستان نامی جیل سے نکل کر پہلی بار برطانیہ میں آزاد گھوم رہا ہے
اور وہ دنیا کو اپنا غم رو رو کر بیان کر رہا ہے. ایسے لگتا ہے پرویز مشرف
نو سال تک پاکستان کے صدر نہیں پاکستان میں قیدی تھے اور شاید اسی لیے
بھارت کے خلاف تین جنگیں لڑنے کے بعد وہ اسی پاکستان کے داخلی معاملات کا
پردہ بھارت کے حق میں ایک یورپی اخبار کے سامنے کھول رہے تھے جسمیں انہوں
نے کشمیر ایشو کی دھجیاں اڑا دیں یہ کہہ کر کہ پاکستان میں کشمیری حریت
پسندوں کو بھارت میں در اندازی کی تربیت دی جاتی تھی.
لگتا ہے یہ قیدی جو کسی اے کلاس جیل میں پابند سلاسل تھا اب اس بات کا رونا
رو رہا ہے کہ پاکستان میں اسکے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے – پرویز مشرف صاحب
کی بیان بازی سیاسی بین بازی کم اور جغت بازی زیادہ لگتی ہے. پاکستان کے
نظام کو مفلوج کرنے کے بعد اب وہ کچھ اس انداز سے مغرب سے مخاطب ہیں جیسے
ان نو سالوں میں وہ ایک دید بان کی طرح دور سے یہ سب زیادتیاں دیکھ رہے تھے
اور اب ان کا اظہار ایک مظلوم کی صورت کر رہے ہیں.
تھوڑا ٹیپ کو ری واینڈ کرتے ہیں. پاکستان میں جب پرویز مشرف پہلی بار قومی
نشریاتی ادارے پر نمودار ہوئے تو آپ نے سیاست کو گندی سیاست کا نام دیا اور
اسے ختم کرنے کا وعدہ کیا پاکستان کے سب اداروں کا اختیار اپنے ہاتھ لیا
اور قوم کو امید دلائی. مگر ان نو سالوں میں وہ کاغذی جمع تفریق کے سوا
پاکستان کو کچھ نہ دے پائے. نیچے کی سطور میں پاکستان کو ملنے والے تحفوں
کا بھی ذکر ہے مگر یہ ضروری ہے کہ ریکارڈ درست کیا جائے اور اس بات کا پتہ
کیا جائے کہ وہ کیا کر سکتے تھے.
پرویز مشرف پاکستان کے مختار کل تھے اگر وہ چاہتے تو پاکستان میں نہ کیے
گئے تاریخی کام کرتے. بھاشا ڈیم اور کالا باغ ڈیم بنواتے، جاگیردارانہ نظام
ختم کرتے، سٹیٹ کی مشنری درست کرتے اور ہر محکمے کو جھوٹ اور کرپشن سے آزاد
کرواتے. اگر امریکا کی جنگ میں انہوں نے حصہ لینا تھا تو امریکا سے ایسے
معاہدے کرتے کہ جن کی بنیاد پر پاکستان میں ترقی کی لہر دوڑتی. وہ پاکستان
کے قرضے معاف کرواتے اور پاکستان کی سرزمین کو خوشحال بنانے کے لیے ہر طرح
کی مدد لیتے اور "سب سے پہلے پاکستان " کا نعرہ نہ مارتے بلکہ سب سے پہلے
پاکستان کو رکھتے اور پھر اپنے فائدے کو. لیکن ہوا اس کے برعکس.
مشرف صاحب صدر بنے تو ان کے دور میں لال مسجد، سوات آپریشن، بگٹی کا قتل،
کشمیر پر مختلف منصوبے، امریکا میں میل ملاپ، ڈرون حملے، دہشت گردی، عوام
کا اغوا، ہر طرز کی طالبان تنظیمیں اور تحریکیں، منہ زور بیورو کریٹ اور
کاروباری جرنیل پاکستان کو ملے. امریکا سے جو معاہدے وسطی ایشیا کی ریاستیں
نہ کر پائیں وہ مشرف صاحب نے کر لیے اور پاکستان کو مال مفت سمجھ کر امریکا
بہادر کے سامنے پیش کر دیا. کراچی سے خیبر تک کا راستہ بغیر کسی راہداری کے
ان کے حوالے کر دیا جس کے بدلے میں پاکستان کو ٹوٹی سڑکوں، ٹوٹے پلوں اور
بے تحاشہ تکلیفوں کے سوا کچھ نہ ملا. ہزاروں کی تعداد میں نیٹو کے ٹرک
پاکستان کی سڑکوں سے گزرتے ہیں اور ایک پیسہ بھی پاکستان کے قومی خزانے میں
نہیں آتا. ان ٹرکوں میں سے بیشتر پاکستان میں غائب ہو جاتے ہیں اور ان میں
لدھا اسلحہ بارود پھر سے پاکستان میں پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے.
کیا اس بات کا جواب مشرف صاحب کے پاس موجود ہے. پاکستان کی سمندری
بندرگاہیں تباہ ہو رہی ہیں اور عوام پریشان حال ہیں.
اب ایسے میں یہ بے وقت کی راگنی مشرف صاحب کس کو سنا رہے ہیں میری سمجھ سے
باہر ہے. تعلیم، صنعت، معیشت سب کو تباہی کے دھانے پر دکھیلنے کے بعد مشرف
صاحب اور ان کے منظور نظر شوکت عزیز آج پاکستان سے باہر ہیں جبکہ مشرف صاحب
کے ایک اور وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی اب اپنے اصل بلوچ ہونے کا ثبوت مشرف
صاحب کے خلاف ایک ٹی وی انٹرویو میں دیتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ مشرف
پاکستاں کو اپنی ٹیم کے ساتھ بیٹھ کر اپنے کیمپ آفس سے چلاتے تھے اور عافیہ
صدیقی، قدیر خان اور دیگر معاملات کہ جن کا ان کو علم تھا وہ ان میں بیرونی
طاقتوں کی خوشی کی خاطر کوئی بھی قربانی دینے کو تیار تھے. کاش جمالی صاحب
اصل بلوچ ہوتے ہوئے ان مسائل کو قوم کے سامنے تب لیکر آتے جب ان کو حکومت
چھوڑنے کا کہا گیا اور تب وہ بلوچوں کی عزت کا پاس رکھتے ہوئے خود حکومت
چھوڑنے کے بجائے اسمبلی توڑ دیتے تو آج ہم مشرف صاحب کی یہ بے وقت کی راگنی
نہ سن رہے ہوتے. لگتا ہے مشرف صاحب کو لاہور اور اوکاڑہ کی شامیں لندن میں
نصیب نہیں ہو رہیں اور پھر وہ میٹھی صدارتی جیل کی یاد انھیں بے چین کیے ہے
اسی لیے وہ جب سے سیاست دان بنے ہیں ایک عجیب کھلنڈرے پن کا مظاہرہ کر رہے
ہیں.
لگتا ہے نو سال ان کو کم لگتے ہیں کسی قوم کے صبر کا امتحان لینے کو. ایک
بات یاد رکھیے ایوب خان بھی ایک فوجی جرنیل اور حکمران تھے جہاں لوگ ان کے
خلاف بات کرتے ہیں وہیں انھیں تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم کے علاوہ کامیاب
نہری نظام کی وجہ سے بھی یاد کیا جاتا ہے.
کیا مشرف صاحب اپنے پیچھے کوئی ایسی یاد چھوڑ آئے ہیں سوائے حامد علی خان
کے ساتھ گائے ہوئے گیتوں کے اور چند بدمست بیوروکریٹوں کے. فیصلہ عوام کو
کرنا ہے اور فیصلہ عوام ہی کرے گی میرا مقصد بس توجہ دلانا تھا. |