ترک صدر کا مثبت بیان اور بھارت کا منفی ردعمل

ترک صدر طیب رجب ایردوان کے دورہ بھارت کے موقع پر کشمیر کی جنگ بندی الائن کے پونچھ سیکٹر میں پاک بھارت فوج کے درمیان گولہ باری اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ جب جناب ایردوان کی نریندر مودی کے ساتھ دہلی میں بات چیت ہو رہی تھی اسی وقت بھارت نے پاکستان پر جنگ بندی لائن پار کرنے اور دو بھارتی فوجیوں کے سر قلم کرنے کا الزام لگا دیا۔پاکستان نے فوری طور پر بھارت کے اس الزام کو جھوٹا اور گمراہ کن قرار دے کر اسے مسترد کر دیا۔ بھارتی پروپگنڈہ کے باوجود ترک صدر نے اصولی موقف اپنایا۔ بھارت کو مسلہ کشمیر حل کرنے کے لئے’’ کثیر الملکی ڈائیلاگ ‘‘شروع کرنے کا مشورہ دیا۔ مسلہ کشمیر حل کرنے کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی۔یہی نہیں بلکہ ترک صدر نے زوردار الفاظ میں کہا کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی)کی رکنیت کے لئے پاکستان اور بھارت کا مساوی حق ہے۔ جب کہ بھارت این ایس جی پر صرف اپنا حق جتلاتا ہے۔ ترک صدر کے بیانات پر بھارتی حکومت کو سفارتی دھچکا لگا ہے کیوں کہ بھارت کا دورہ کرنے والے ترک صدر نے بھارت کی چاپلوسی اور جی حضوری کرنے کے بجائے پاکستان کے موقف کی دہلی میں بیٹھ کر اصولی حمایت کی۔ انھوں نے وزیاعظم نریندر مودی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرسچائی بیان کی۔اس پر بھارتی وزارت خارجہ نے فوری بیان دیا۔ مسلہ کشمیر کو کثیرالملکی مذاکرات سے حل کرنے کے بجائے پاک بھارت دو طرفہ بات چیت کی روایتی رٹ لگائی۔ جب کہ 70سال سے پاکستان اور بھارت بات چیت کر رہے ہیں لیکن مسلہ حل ہونے کے بجائے مزید بگڑ رہا ہے۔بھارت نے بندوق کی نوک پر کشمیر پر قبضہ جمائے رکھا ہے اور اس کی فوج نے لاکھوں معصوم کشمیریوں کو قتل کر دیا ہے۔ یہ قتل عام آج مزید تیز کیا گیا ہے۔ ترک صدر کے حقیقت پسندانہ موقف پر بھارت سیخ پا ہو گیا ہے۔ اس کا میڈیا بھی میدان میں کود پڑا ہے۔ بھارتی میڈیا کشمیر کا موازنہ کردستان اور قبرص کے مسائل سے کر رہا ہے۔ وہ ترکی کو آرمینیا اور دیگر ممالک سے تنازعات یاد دلا رہا ہے ۔ ترک صدر کے سچ نے بھارت کو جیسے سفارتی طور پر بہت بڑی شکست سے دوچار کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں سچ اور حقائق کو تسلیم کرنے کی جرائت اور سکت نہیں۔

ترک صدر کو دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔ اس موقع پر بھی جناب ایردوان نے کہا کہ عالم اسلام کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہاں انھوں نے اتحاد امت پر سخت زور دیا۔ انھوں نے مسلم ممالک کے آپسی انتشار پر دکھ کا اظہار کیا۔ اسے فراموش کرنے کی صلاح دی۔ کیوں کہ یہی ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ ترکی نے تحریک خلافت میں برصغیر کے مسلمانوں کی خدمات کی تعریف کی۔ یہ درست ہے کہ ترک آج تک یہاں کے مسلمانوں کے کردار کو یاد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستانیوں سے محبت اور خلوص کا رشتہ استوار کئے ہوئے ہیں۔ 2005کے زلزلہ میں ترکی نے دل کھول کو پاکستان کی مدد کی۔ مظفر آباد شہر اور دیگر متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو ترک محنت کشوں اور انجینئرز کی دین ہے۔ ا ن کا اس میں کلیدی کردار ہے۔

جس دن ترک صدر دہلی میں موجود تھے۔ اس وقت بھارتی ریاست آسام میں ہندو انتہا پسند دو مسلم نوجوانوں پر گائے چوری کے الزام میں تشدد ڈھارہے تھے۔ دونوں اس تشدد سے شہید ہو گئے۔ بھارت میں مودی حکومت کے دوران اب تک درجنوں مسلمانوں کوزندہ جلا دیا گیا یا انہیں تشدد سے قتل کیا گیا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی میں اضافے کے باوجود بھارت مسلم دنیا کے ساتھ تجارتی تعلقات کو تیزی سے فروغ دے رہا ہے۔ 2008میں جب جناب ایردوان نے بھارت کا دورہ کیا اس وقت دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت2.8ارب ڈالر تھی جو 2016میں بڑھ کر 6.4ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ نریندر مودی نے جناب ایردوان سے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اسے 10ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں۔ترک صدر کے ساتھ150کاروباری شخصیات بھی ان کے وفد میں شامل تھیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی بھی بھارت سے تجارت چاہتا ہے۔ مگر بھارت اس تجارت کی آڑ میں اپنے سیاسی اور سفارتی مسائل سامنے لانے کی لالچ میں ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ ترکی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے لئے تعاون کرے، این ایس جی کے لئے پاکستان کے بجائے بھارت کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ کشمیر کو عالمی تنازعہ کے بجائے پاک بھارت دو طرفہ مسلہ قرار دیا جائے۔ لیکن ترک صدر نے بھارت کی خواہشات کے برعکس اصولی اور حقیقت پسندانہ موقف اپنا لیا ہے۔ جس پر بھارت واویلا کرنے لگا ہے۔ پاکستان پر بھارتی فوجیوں کے سر قلم کرنے کا الزام لگا کر بھارت نے کشمیر کو کردستان سے جوڑنے کی ناکام کوشش اور ترکی کو بلیک میل کرنا چاہا۔ مگر وہ اس میں ناکام ہو گیا۔ ہمیں ترکی جیسے دوست پر فخر ہے جو ہر موقع پر پاکستان کی اصولی حمایت کرتا ہے۔ ترک صدر کے دہلی میں اپنائے گئے موقف پر بھارتی میڈیا نے یہ تک کہا کہ طیب ایردوان ایسے صدر ہیں جو شیشے کے مکان میں موجود ہیں۔ یہ ترکی کو بھارت کی بلاواسطہ دھمکی بھی ہے کہ وہ خود شیشے کے مکان میں بیٹھ کر بھارت کو پتھر نہ مارے۔ یہ بھارت کی طرف سے ترکی کی سفارتی بلیک میلنگ ہے۔ جس کا ترکی کو نوٹس لینا چاہیئے۔بھارت فتح اﷲ گولن کی بھی خفیہ حمایت کرتا ہے جس کا تذکرہ جناب ایردوان نے بھی کیا۔ کیوں کہ بھارت ترکی میں بغاوت کے ماسٹر مائینڈ گولن تحریک کی حمایتی داعش اور پاکستانی طالبان کی مدد کرتا ہے۔ پاکستان ، ترک صدر کے بیان کی تعریف ہی نہیں بلکہ بھارت کی سفارتی بلیک میلنگ کی شدید مذمت کرے اور مسلم دنیا سے ترک صدر کے موقف کی حمایت پر آمادہ کرنے کے لئے رجوع کیا جائے۔ کیوں کہ مودی گاندھی کی سرزمین پر اب فرقہ پرستوں کا قبضہ ہے۔ مودی دنیا کو رواداری، یوگا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ترغیب دیتے ہیں ۔ لیکن خود مسلمانوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی تیز کر رہے ہیں۔ مودی ایک طرف ڈیجیٹل انڈیا، میک ان انڈیا اور کلین انڈیا کی مہم چلاتے ہیں اور دوسری طرف اقلیتوں کے قتل عام میں مصروف ہیں۔ بھارتی میڈیا مودی حکومت کا غلام بنا ہوا ہے۔ چند میڈیا اداروں کے بغیر تمام میڈیا ہاؤسز مودی کے ساتھیوں کی ملکیت ہیں۔ ایڈوانی تک اعتراف کر رہے ہین کہ بھارتی میڈیا حکمرانوں کے سامنے جھک گیا ہے۔ جس طرح ہٹلر اور مسولینی کے دور میں جرمنی اور اٹلی میں آئین و قانون اور جمہوریت تباہ ہو گئی ، یہی صورتحال مودی کے دور میں بھارت کی ہو گئی ہے۔ ترک صدرآج جس طرح یوپین یونین کے ساتھ وابستگی کے لئے بریکسیٹ طرز پر ریفرنڈم کا سوچ رہے ہیں اسی طرح مسلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ریفرنڈم کی ضرورت ہے تا کہ کشمیری خود فیصلہ کر سکیں کہ وہ اپنا سیاسی مستقبل کیسا چاہتے ہیں۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 557215 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More