آج حالت یہ ہے کہ ہر کوئی دوسرے کو بدعنوان کہ رہا ہے۔
مقدمات چل رہے ہیں مگر نتائج کا حصول ماضی کی داستانوں کی طرح ممکن نظر
نہیں آ رہا۔ صدر پاکستان، عدلیہ اور ہر سیاسی جماعت کا سربراہ بلکہ آج
وزیر اعظم نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کی اتنے بڑے گھپلے ہورہے ہیں کہ
اگر ان کی طرف توجہ ہوگئی تو ترقیاتی کام رک جائیں گے۔اب یہ منطق ہم سمجھنے
سے قا صر ہیں کہ گھپلے بھی ہو رہے ہیں اور ترقی کا عمل بھی سلمانی ٹوپی
پہنے رواں دواں ہے۔ خیر یہ تو ثابت ہوا کہ موجودہ ادارے اور قوانین اس کو
روکنے میں ناکام ہیں لہذا بدعنوانی کے خاتمے کے لیےموجودہ اداروں سے تو عمل
درآمد کروانے کا سوچنا بھی خطرناک غلطی ہے۔ محض قوانین یا نئے اداروں کا
قیام ، سیاسی پنڈتوں کی موجودگی میں کوئی حل پیش نہیں کر سکتے بلکہ پہلے
بھی قوانین کی اور اداروں کی بہتات ہے اور یہ خواہ مخواہ خزانے پر بوجھ بنے
ہوئے ہیں۔
اور رہی یہ بات کہ اس کی ناکامی کی کیا وجوہات ہیں تو آج ہم اس کو یکسر
نظر انداز کرتے ہوئے اس کے حل کی طرف آتے ہیں کہ کیا ایسا ممکن ہے۔ ایسا
کوئی نمونہ موجود ہے جس پر عمل کرکے ہم کامیاب ہو سکیں۔
جی ہاں بلکل ہے۔
اگر آپ لوگوں کی طبیعت پر بھاری نہ گزرے تو میں آپکو مبارک باد پیش کرنا
چاہوں گا کہ آپ لوگ ہی اس نمونہ کے خالق ہیں۔
اگر ہوسکے تو ایک دفعہ پھر اس بے بسی کے عالم میں ہی سہی:
ایسا بل لایا جائے جس کے تحت ترمیم کے زریعے، دہشت گردی کے خاطمے کے لئے
جیسے فوجی عدالتیں بنائی گئی ہیں، کی طرز پر فوجی عدالتوں کو بد عنوانی کے
خاطمے کے اختیارات دیے جائیں۔ اس طرح سے اس بد عنوانی کی لعنت سے بھی
چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ
اگر بیمار جمھوریت کی ناساز طبیعت پر یہ ناگوار بھی گزرے تو اس کی صحت کی
بھلائی کی خاطر ہی سہی اس ناسور کے خاتمے کے لئے آنکھیں بند کرکے دوائی کا
یہ کڑوا گھونٹ گزار جائیں ۔
صحت مند جمھوریت اور تروتازہ ریاست کے لیے اب یہ سب کچھ ناگزیر ہے۔
|