کراچی سمیت پورے پاکستان سے خوف ودہشت کی سیاست کا خاتمہ
کرنے والوں میں عمران خان اور مصطفی کمال کا نام سرفہرست ہے جن کی شبانہ
روز انتھک سیاسی جدوجہد کی وجہ سے آج کراچی سمیت پورا پاکستان بہت بدل چکا
ہے اب یہاں امن وامان کی صورتحال بہت بہتر ہے خوف ودہشت کا بت توڑا جاچکا
ہے وقت کے فرعونوں کو اس دورکے موسیٰ نے اس دلیری اور جاں فشانی کے ساتھ
للکارا ہے کہ وہ جو خود کو سیاست کا کنگ سمجھتے تھے آج عوام کی نظروں میں
زیروہوچکے ہیں اور ان نام نہاد جالی ہیروز کو زیرو بنانے کا سہرا عمران خان
اور مصطفی کمال جیسے سچے اور بہادر پاکستانی سیاست دانوں کے سر ہے جنہوں نے
ذاتی اور پارٹی مفادات سے بالا تر ہوکر محض عوامی اور ملکی مفاد میں سیاست
کرکے سیاست سے بدمعاشی اور کرپشن کا خاتمہ کرکے شرافت کی سیاست کا بول بالا
کیا جس پر انہیں جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔
نواز شریف کی کرپشن کے خلاف تو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے مسلسل
جدوجہد کرکے اسے عدالت کے ہاتھوں جس انجام سے دوچار کیا ہے اس کا تماشہ آج
کل ساری دنیا دیکھ رہی ہے جبکہ کراچی اور حیدرآباد کی سیاست سے
بدمعاشی،بھتہ خوری ،کرپشن ،مفاد پرستی ،دہشت گردی اور منافقت کا خاتمہ کرنے
کے لیئے مصطفی کمال نے ایک نئی سیاسی پہچان کے ساتھ گزشتہ ایک سال کے دوران
ایم کیو ایم کے بانی وقائد الطاف حسین اور ان کے کرپٹ اور مفاد پرست
حواریوں کا جو حشر کیا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ الطاف جسے ایک سال قبل تک
کراچی کا بادشاہ کہا جاتا تھا آج آسمان کی بلندیوں سے گرکر ذلت کی پستیوں
میں اس بری طرح غرق ہوچکا ہے کہ کسی زمانے میں الطاف کو اپنا مائی باپ اور
روحانی باپ قرار دینے والوں نے بھی وقت کی چال اور ستاروں کے حال کو
بھانپتے ہوئے خود اپنی پارٹی کے بانی و قائد کو اس کی پارٹی سے باہر نکال
کر اس کی پارٹی پر غاصبانہ قبضہ کر کے اپنے حکومتی اور پارٹی عہدوں کو
برقرار رکھا ہوا ہے تاکہ الطاف کے نام پر ملنے والے مینڈیٹ کا آخری وقت تک
فائدہ اٹھاکر زیادہ سے زیادہ عیش وآرام کیاجاسکے اور جاتے جاتے جتنی لوٹ
مار ممکن ہوکرکے اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کرکے اپنے مستقبل کو محفوظ
بنانے کی کوشش کی جاسکے ۔مراعات اور سہولیات سے چمٹے رہنے کا اس سے زیادہ
شرمناک مظاہر ہ اس سے قبل پاکستان میں کبھی نہیں دیکھا گیا جو کہ ایم
کیوایم کی جانب سے جاری ہے،ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لند ن کا
ٹوپی ڈرامہ کرنے کے باوجود لندن گروپ ہو یا فاروق ستار گروپ عوام میں ان کی
حیثیت اب زیرو ہوچکی ہے جس کا اندازہ 2108 کے عام انتخابات کے نتائج دیکھ
کر ایم کیو ایم سمیت ان کے تمام حامیوں اور سپورٹرز کو بخوبی ہوجائے گا۔
کراچی اور حیدرآباد کی سیاست سے الطاف حسین ان کے حواریوں اور ایم کیو ایم
کی مفاد پرستانہ اور دہشت گردانہ سیاست کا خاتمہ کرنے کا کریڈٹ پاک فوج اور
رینجرز کے علاوہ سیاسی طور پر صرف سید مصطفی کمال کو جاتا ہے جس نے اپنی
جان کو خطرے میں ڈالتے ہوئے اپنے دیرینہ ساتھی انیس قائم خانی کے ہمراہ 3
مارچ2016 کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف ببانگ دہل علم بغاوت بلند
کرکے بھارتی خفیہ ایجنسی را سے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے روابط کے
بارے وہ ہوشربا انکشافات کیئے کہ کیا اپنے کیا پرائے سب ہکا بکا رہ گئے ،مصطفی
کمال اور انیس قائم خانی کی جانب سے اٹھایا جانے والا یہ قدم کوئی معمولی
بات نہیں تھی بلکہ ایم کیو ایم کے طرز سیاست کے حوالے سے یہ ایک طرح کی
خودکشی کے مترادف تھا کہ اس سے قبل جس نے الطاف حسین کے خلاف بغاوت کی کوشش
کی وہ اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا اور اگر کوئی بچ بھی گیا تو اس کا حال
آفاق احمد جیسا ہوا کہ اسے برسوں کی اختلافی سیاست کرنے کے باوجود عام
انتخابات میں کبھی قابل ذکر کامیابی حاصل نہ ہوسکی ۔لیکن مصطفی کمال نے
اپنی جان و مال اور اہل وعیال کو خطرے میں ڈالتے ہوئے وہ کام کردکھایا جس
کا ایک سال قبل تک کوئی تصور بھی نہیں کرسکتاتھا ،مصطفی کمال نے کراچی اور
حیدرآباد کی سیاست پر 30 سال سے قابض مفاد پرست، کرپٹ اور ملک دشمن
سرگرمیوں میں ملوث سیاسی قائد الطاف حسین کا جس بری طرح بینڈ بجاکر اس کا
دھڑن تختہ کیا وہ یہ بات ثابت کرتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جب چاہتا ہے وقت کے
فرعون کے لیئے ایک موسی ٰ پیدا کردیتا ہے جیسا کہ اﷲ نے ایم کیو ایم کے
ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے کراچی وحیدرآباد کے باشندوں کے لیئے مصطفی کمال کو
موسی ٰ بنا کر بھیجا جس کی آمد سے یہاں کے باشندوں کو ایسا لگا کہ جیسے اﷲ
نے ان کی مدد کے لیئے آسمان سے کوئی فرشتہ بھیج دیا ہو،مصطفی کمال فرشتہ تو
نہیں لیکن ایک بہت اچھا اور محب وطن اور ہمدرد انسان ضرور ہے جسے مخلوق خدا
کی خدمت کرنے کا شوق ہے وہ پوری ہمدری ،خلوص اور سچائی کے ساتھ کراچی سمیت
پورے پاکستان کے عوام کی خدمت کرنے کے جذبے کے ساتھ میدان سیاست میں ایک
نئی پہچان کے ساتھ سر سے کفن باندھ کر کودا ہے اسے مرنے سے ڈر نہیں لگتا
اور جو مرنے سے نہیں ڈرتا وہ اﷲ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ،راقم کو خوش
قسمتی سے مصطفی کمال کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا ہے راقم الحروف نے
مصطفی کمال کو بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا ہے جس کی روشنی میں یہ بات ضرور
کہی جاسکتی ہے کہ مصطفی کمال کسی اندرونی یا بیرونی ایجنسی کا بھیجا ہوا
بندہ نہیں بلکہ اﷲ کی طرف سے ہدایت یافتہ انسان ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے قوم کی
خدمت کرنے کے لیئے منتخب کیا اور میں پوری ایمانداری اور سچائی کے ساتھ
اپنے مشاہدے کے مطابق یہ کہہ سکتا ہوں کہ مصطفی کمال نہ تو جھوٹا ہے اور نہ
ہی منافق وہ جیسا باہر سے دکھتا ہے ویسا ہی اندر سے بھی ہے جو نہایت خلوص
کے ساتھ سیاست میں شرافت کا کلچر متعارف کروا کر ایک نئی تاریخ رقم کر رہا
ہے ۔سیاست جسے آج کے مفاد پرست سیاست دانوں نے کاروباراور لوٹ مار کا ذریعہ
بنارکھا ہے اگر مصطفی کمال اسی سیاست کوعوامی خدمت کا ذریعہ بنا کر دنیا و
آخرت میں سرخ ر و ہونا چاہتا ہے تو اسے ایجنسیوں کا بندہ کہہ کر اس پر بے
جا تنقید کرنے کی بجائے اس کے ہاتھ مظبوط کرنے چاہیں کہ اس کا گزشتہ ایک
سال کا سیاسی رویہ ،قول وفعل اور طرز سیاست اسے ایک سچا اور محب وطن
پاکستانی عوامی لیڈر ثابت کرنے کے لیئے کافی ہے۔
خوف ودہشت کے ماحول میں ڈوبے ہوئے کراچی کو پرامن بنانے میں جہاں ہماری فوج
اور رینجرز نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے وہیں سیاست میں شرافت کو فروغ
دینے والے مصطفی کمال کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔آج کراچی
اور حیدرآباد میں جو پرامن اورسیاسی رواداری کا ماحول نظر آرہا ہے وہ بجا
طور پر مصطفی کمال اور ان کی قائم کردہ نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی
کے مثبت طرز سیاست کا مرہون منت ہے ۔پاک سرزمین پارٹی کے جلسے جلوس ہوں یا
دھرنے اور ریلیاں سب میں شرافت کی سیات کا عملی مظاہرہ واضح طور پر دکھائی
دیتا ہے جو پاکستان کے پر تشدد سیاسی کلچر کے تنا ظر میں ایک نہایت مثبت
اور قابل تعریف کارنامہ ہے جس پر اس پارٹی کے قائدین مصطفی کمال ،انیس قائم
خانی ،وسیم آفتاب،رضا ہارون اور افتخار رندھا وا سمیت تمام اہم لوگ بجا طور
پر مبارکباد اور خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ ان کی وجہ سے آج کراچی و
حیدرآباد میں سیاسی مخالفین آپس میں گلے مل رہے ہیں ایک دوسرے کی سیاسی
سرگرمیوں کوخندہ پیشانی سے برداشت کررہے ہیں اورکسی بھی سیاسی پارٹی کے
قائدین یا کارکن ہوں اب سب کراچی آکر کراچی والوں کے حقوق اور بنیادی
سہولتوں کے حوالے سے دھرنے دے رہے ہیں اور ریلیاں نکار رہے ہیں اور مزے کی
بات تو یہ ہے کہ مصطفی کمال کے مثبت اور پرامن طرز سیاست سے متاثر ہوکر
دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کی نقالی کرتے
ہوئے نہایت شرافت کے ساتھ کسی اہم شاہراہ کو بند کیئے بغیر کسی مخصوص علاقے
کی مخصوص روڈ پر احتجاج اور دھرنا دینے کا کلچر اختیار کیا ہوا ہے جو کہ
مصطفی کمال کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ ان کے بدترین مخالفین بھی آج ان کے
اسٹائل کو کاپی کرنے پر مجبور ہیں۔
6 ،اپریل 2017 کو مصطفی کمال کی قیادت میں پاک سرزمین پارٹی نے کراچی پریس
کلب کے باہر ایک سڑک پر 18 دن تک پرامن دھرنا دیا جس کے دوران مصطفی کمال
اور پی ایس پی کی جانب سے سندھ حکومت کے سامنے 16 عوامی مطالبات پیش کیئے
گئے جو کہ سارے کے سارے کراچی اور حیدرآباد کے عوام کو درپیش مسائل کے
حوالے سے تھے جن میں 8 مطالبات صرف مئیر کو اس کے اختیارات واپس کرنے کے
حوالے سے کیئے گئے جبکہ اس وقت کراچی کا مئیر ایم کیو ایم کا وسیم اختر ہے
جس کا شمار مصطفی کمال کے بدترین مخالفوں میں کیا جاتا ہے لیکن مصطفی کمال
نے مخالفت برائے مخالفت کی سیاست کو رد کرتے ہوئے کراچی کے مئیر آفس کے
لیئے اختیارات مانگے ،عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیئے سندھ حکومت سے 16
مطالبات کرتے ہوئے 18 دن تک تپتی دھو پ میں سڑک کے فٹ پاتھ پر اپنے دن اور
رات بسر کیئے جس کے دروان مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کو عوام کی جانب
سے زبردست پذیرائی حاصل ہوئی اور ہر مکتبہ فکر کے علما ،مفکرین ،دانشور،فنکار
اور نامور شخصیات نے مصطفی کمال کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیئے پی ایس پی کے
احتجاجی دھرنے کے کیمپ کا دورہ کرکے انہیں کراچی کے عوامی حقوق کی بازیابی
کے لیئے دیے گئے دھرنے کی حمایت کا ٰیقین دلایااس دوران عوام کی دلچسپی اور
پذیرائی کے جو مناظر نظر آئے اس کی روشنی میں ہم مصطفی کمال کی جانب سے دیے
گئے اس عوامی دھرنے کا ایک کامیاب دھرنا کہہ سکتے ہیں جو نہایت پرامن انداز
میں شروع ہوکر بہت مثبت تاثر پیدا کرکے ختم ہوا۔
دھرنے کے اختتام پر مصطفی کمال نے 14 مئی 2017 کو کراچی کی شاہراہ فیصل پر
عوامی حقوق کی بازیابی کے لیئے ’’ملین مارچ ‘‘ کا اعلان کیا جس کے لیئے
دھرنا ختم ہونے کے فوراً بعد سے عملی کوششیں شروع کردی گئیں جس کے دوران
کراچی اور حیدرآباد کے بہت سے علاقوں میں مصطفی کمال اور ان کے ساتھی گلی
اور محلوں میں جاکر عام لوگوں کو 14 مئی کے عوامی ملین مارچ میں شرکت کی
دعوت دے رہے ہیں اور اس موقع پرعوام کی جانب سے ان سب کا جو والہانہ
استقبال کیا جارہا ہے اس سے مستقبل کی سیاسی تبدیلی کا اندازہ لگایا جاسکتا
ہے۔رابطہ مہم کے سلسلے میں مصطفی کمال اور دیگر قائدین عوام کے درمیان جاکر
انہیں 14 مئی کے ملین مارچ میں شرکت کرنے کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ کراچی
میں موجود نامور علمائے کرام سے ان کی درس گاہوں میں خود جاکر بھی ملاقاتیں
کررہے ہیں اور علما کو اپنے سیاسی مقاصد اور عزائم کے حوالے سے دعوت فکر دے
رہے ہیں اس حوالے سے مصطفی کمال ،انیس قائم خانی اور وسیم آفتاب نے چند روز
قبل دارالعلوم نعیمیہ کراچی کے مہتمم مفتی نعیم اور جامعہ دارالعلوم کورنگی
کراچی کے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب سے خود ان کی درس گاہوں پر جاکر ملاقات
کی اور کراچی کے مسائل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہیں اپنے موقف سے
آگاہ کیا ۔مصطفی کمال کی جانب سے شرو ع کی گئی حالیہ عوامی رابطہ مہم کی سب
سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں مصطفی کمال کی جانب سے مسلسل یہ کہا جارہا ہے
کہ:’’ کراچی والو ! آپ بے شک جسے چاہو اسے ووٹ دینا میں آپ سے ووٹ مانگنے
نہیں آیا میں آپ کے مسائل حل کروانے کے لیئے جدوجہد کررہا ہوں جس سے آپ
اپنے گلی محلوں میں دوچارہیں اگر آپ اپنی حالت بدلنا چاہتے ہیں تو 14 مئی
کو کراچی کی شاہراہ فیصل پر آدھے گھنٹے کے لیئے میرے ساتھ روڈ پر دھرنا دو
انشااﷲ اگر عوام نے ساتھ دیا اور ایک ملین افراد ہماری کال پر شاہراہ فیصل
پر جمع ہوگئے تو کراچی کے عوام کے تمام مسائل پر مشتمل 16 مطالبات ہم عوامی
حمایت اور اﷲ کی عنایت سے صرف آدھے گھنٹے میں حکومت سندھ سے منوا لیں گے
کوشش کرنا ہمارا کام ہے کامیابی یا ناکامی اﷲ کے ہاتھ میں ہے لہذا کراچی
والو اپنے مسائل کے حل کے لیئے 14 مئی کو گھروں سے باہر نکلو اور شاہرہ
فیصل پر پہنچ کر ہمارے ساتھ حکومت وقت کو اپنا احتجاج ریکارڈ کرواؤ۔ ہمارا
یہ احتجاج مکمل طور پر پرامن ہوگا آپ لوگ اس میں اپنے گھر والوں بیوی بچوں
بہنوں بھائیوں کو لے کر شریک ہو تھوڑی سے تکلیف برداشت کرلو صرف ایک دن پھر
دیکھو حکومت کیسے تمہارے مطالبات تسلیم کرکے عملی اقدامات کرتی ہے ‘‘۔
3 مارچ2016 سے لے کرتاحال مصطفی کمال کا قول وفعل اور پرامن شریفانہ طرز
سیاست سب کے سامنے ہے اب فیصلہ کرنا کراچی کے عوام کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ
گزشتہ 30 سال سے جن کرپٹ اور مفاد پرست حکمرانوں کے ہاتھوں یرغمال بن کر
اپنے سارے حقوق گنوا بیٹھے تھے کیا وہ اپنے ان حقوق کی بازیابی چاہتے ہیں ؟
کیا وہ اپنے حالات بدلنا چاہتے ہیں ؟ کیا وہ روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے
والے گوناگوں مسائل کا خاتمہ چاہتے ہیں ؟ کیا وہ کراچی میں پرامن اور مثبت
طرز سیاست کا فروغ چاہتے ہیں اور کیا وہ کراچی کو بدمعاشوں ،بھتہ خوروں ،ٹارگٹ
کلرز،دہشت گردوں اور مفاد پرست کرپٹ سیاست دانوں سے نجات دلانا چاہتے ہیں ؟
اگر کراچی والے ان سب باتوں کو پسند کرتے ہیں اور کراچی کو ایک بار پھر امن
وامان کا گہوارہ اور روشنیوں کا شہر بنانا چاہتے ہیں تو پھر انہیں 14 مئی
2017 کو مصطفی کمال کی کال پر گھروں سے باہر نکلنا ہوگا کہ یہ دن کراچی کی
تاریخ میں برسوں یاد رکھا جائے گا اگر مصطفی کمال کا یہ ملین مارچ کامیاب
ہوگیا تو کراچی والوں کی تقدیر بدل جائے گی اور اگر لوگ گھروں سے نہیں نکلے
اور ملین مارچ میں شریک نہ ہوئے تو انہیں آنے والے وقت میں مزید سخت اور
ناگوار حالات کا سامنا کرنے کے لیئے تیار رہنا ہوگا کہ نہ تو مصطفی کمال
جیسے لوگ بار بار پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہی قدرت اور وقت بار بار موقع دیتی
ہے لہذا کراچی والو !مصطفی کمال کی کال پر 14 مئی کو ملین مارچ میں شریک
ہونے کے لیئے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ گھروں سے باہر نکلو اور پاک سرزمین
پارٹی کی جانب سے اعلان کردہ’’ملین مارچ‘‘ کو اپنی شرکت سے اتنا کامیاب
بنادو کہ حکومت وقت کے پاس سوائے عوامی مطالبات ماننے کے علاوہ کوئی اور
راستہ باقی نہ رہے۔اﷲ تعالی ہم سے کو صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق
اور حوصلہ عطا فرمائے تاکہ ہم کراچی کو ایک پرامن شہر بنانے کے سلسلے میں
اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔(آمین) |