پاکستان میں الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے، اس کے ساتھ
سیاسی گہما گہمی میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی
آئندہ الیکشن کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ ملک بھر میں جلسے کیے جارہے ہیں۔
حکمران اور اپوزیشن جماعتیں عوام کو سبز باغ دکھا کر رام کرنے کے لیے کوشاں
ہیں۔ پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت آہستہ آہستہ اپنے عروج کی طرف بڑھ رہا
ہے۔ جے یو آئی کی جانب سے صد سالہ اجتماع اور دیگر جماعتوں نے مختلف شہروں
میں جلسے کر کے الیکشن 2018کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ پاناما کیس کا فیصلہ
آنے سے قبل سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتیں حکومت کے
خلاف محاذ آرائی کی سیاست کا آغاز کرچکی تھیں۔ پی پی پی نے وفاق کے خلاف
بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ ، زرعی پانی اور کراچی میں پانی کی قلت اور سندھ میں
نئے کنکشنز نہ دینے پر تحریک چلانے کا اعلان کردیا تھا۔ ایم کیو ایم سندھ
کی دوسری بڑی سیاسی جماعت اور صنعت و حرفت کے مرکزی شہر میں میئر شپ کی
حامل پارٹی بھی وسیم اختر کو اختیار اور حقوق کی فراہمی کے لیے آواز بلند
کررہی تھی۔ کراچی کے سیاسی افق پر نمودار ہونے والی پاک سر زمین پارٹی
مصطفیٰ کمال کی قیادت میں عوامی مسائل بالخصوص کراچی کے کھنڈر بن جانے پر
دل گرفتہ تھی اور اسی دکھ کے ساتھ اس نے حکومت سندھ کو کراچی کے مسائل کے
حل کے لیے 16نکاتی چارٹر پیش کرنے کے بعد اپنے مطالبات منوانے کے لیے 6
اپریل کو کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگایا۔ جماعت اسلامی کراچی
کے ایک اور اہم اور بڑے مسئلے یعنی بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ اور کے الیکڑک کی
اوور بلنگ کے خلاف احتجاج کرتی ہوئی نظر آئی، جس میں اصل ذمہ دار سندھ
حکومت کو ٹھہرایا گیا۔ لوڈشیڈنگ اور بجلی کے غلط بلوں کا معاملہ پورے کراچی
کا مسئلہ ہے لہٰذا اسے بھر پور عوامی پذیرائی ملی۔ دوسری جانب میاں نواز
شریف بنفس نفیس سندھ میں وارد ہوئے ، جلسے کیے، پیکجز کا اعلان بھی کیا۔
ساتھ ہی سندھ حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ تحریک انصاف کو پاناما لیکس کے
فیصلے کا انتظار تھا، فیصلہ تو مکمل طور پر نہ آسکا، دو ماہ کے لیے عوام کو
مزید انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑے گا، اس لیے تحریک انصاف نے بھی اپنی
انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز 30اپریل سے کردیا ہے۔ پاناما کیس کا فیصلہ آنے
کے بعد سیاسی درجہ ء حرارت میں بھی موسم کی مناسبت سے اضافہ ہوا ہے۔ حکمراں
جماعت سمیت پی پی پی ، ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی پی ایس پی ، تحریک انصاف
اور مختلف سیاسی جماعتوں نے سیاسی جدجہد کا آغاز کرلیا ہے۔ کراچی میں
پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور پاک سر زمین
پارٹی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، جبکہ مسلم لیگ بھی ملک کے دوسرے
شہروں میں جلسے کر ر ہی ہے۔
30اپریل کو پیپلزپارٹی نے بجلی کی لوڈشیڈنگ پر احتجاج کیا۔ جماعت اسلامی نے
کے الیکٹرک کی جانب سے اوور بلنگ، غیر قانونی سرچارجز اور لوڈشیڈنگ کے خلاف
احتجاج کیا اور کراچی گورنر ہاؤس کے باہر دھرنا دیا ہوا ہے۔ پاک سرزمین
پارٹی کراچی میں پانی کی قلت، صفائی کا فقدان اور دیگر مسائل پر اپنے سولہ
نکات پر مشتمل مطالبات پیش کرچکی ہے اور کراچی کلب کے باہر کئی روز دھرنا
دینے کے بعد 14مئی کو ملین مارچ کا اعلان کرچکی ہے۔ پاک سرزمین پارٹی ملین
مارچ کامیاب بنانے کے لیے عوامی رابطہ مہم چلا رہی ہے۔ عمران خان نے بھی
30اپریل کو مزار قائد سے جیل چورنگی تک نکالی گئی ’’حقوق کراچی‘‘ ریلی میں
مسلم لیگ ن پر سخت تنقید اور کراچی کے مسائل پر بات کی گئی۔ پاکستان تحریک
انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ایک جھوٹا شخص ملک کا وزیراعظم
نہیں بن سکتا، جب تک ملک کا گاڈ فادر گھر نہیں جاتا اس وقت تک ملک سے کرپشن
ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ ایف آئی اے، نیب اور ایف بی آر جیسے ادارے ان کے
ماتحت ہیں۔ ہم ایک مافیا اور گاڈ فادرکا مقابلہ کررہے ہیں، قوم کے بچے،
نوجوان اور خواتین گو نواز گو کہنے کے لیے تیار ہیں۔ کراچی پاکستان کا
معاشی حب ہے، لیکن یہاں کا پیسہ ایان علی جیسے لوگ دبئی لے کر جارہے
ہیں۔عمران خان نے میاں نواز شریف کی طرف سے پی ٹی آئی کی خواتین پر تنقید
کرنے پر بھی میاں نواز شریف کو آڑے ہاتھوں لیا۔ پیپلزپارٹی نے حیدر آباد
میں وفاق کے خلاف دھرنا دیا۔ پیپلزپارٹی نے لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت کے
خلاف مظاہرہ کیا۔ دھرنے میں نثار کھوڑو، شرجیل میمن سمیت پیپلزپارٹی کے
سینئر رہنماؤں نے شرکت کی۔ پیپلزپارٹی رہنماؤں نے کہا زیادتیاں جاری رہیں
تو احتجاج ملک گیر ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن نے کہا کہ
سندھ میں 20، 20گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ عوام نے دما دم مست قلندر
کیا تو نواز شریف لاہور بھی نہیں رہ سکیں گے۔ جماعت اسلامی کراچی کے تحت کے
الیکٹرک کے خلاف گورنر ہاؤس کے باہر دھرنا جاری رہا۔ مظاہرین نے مرکزی کیمپ
میں ناشتہ کیا۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ مطالبات
کی منظوری تک دھرنا جاری رہے گا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کراچی میں
کے الیکٹرک کے خلاف گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کراچی
کے لوگ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے تنگ ہیں۔ غریبوں کو دن رات مشکلات کا سامنا ہے۔
جماعت اسلامی ڈرنے اور بکنے والی پارٹی نہیں۔ مسلم لیگ ن والوں نے ووٹ لے
کر عوام کو دیکھا دیا، جو حکومت کرپشن میں ملوث ہو وہ قوم کو ترقی نہیں دے
سکتی۔ دوسری جانب اتوار کے روز ہی مسلم لیگ ن نے بھی نوشہرہ میں اپنی سیاسی
قوت کا مظاہرہ کیا، جس میں وزیراعظم کے مشیر امیر مقام نے اپنی تقریر کا
زیادہ تر حصہ عمران خان کے خلاف کیا۔نوشہرہ میں خطاب کرتے انہوں نے کہا کہ
کوئی مائی کا لعل 20 کروڑ عوام کے منتخب وزیراعظم سے استعفیٰ نہیں لے سکتا۔
عمران کب تک نوجوانوں کو دھوکا دیں گے؟ عمران کے تبدیلی کے نعرے دھرے کے
دھرے رہ گئے۔ عمران خان نے کہا تھا کہ 90 دن میں تبدیلی لائیں گے۔ عمران ہر
وقت عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عمران کے بچے بیرون ملک پڑھتے
ہیں۔ 2018ء میں پھر عوام کی عدالت میں جائیں گے اور نواز شریف کو پھر
وزیراعظم بنائیں گے۔ نواز شریف کو حکومت خیرات میں نہیں ملی۔ مسلم لیگ ن کے
رہنما طلال چودھری اور دانیال عزیز نے کہا ہے کہ عمران خان گھٹیا زبان
استعمال کرتے ہیں۔ عمران اپنے کیس کا جواب دینے کے لیے تیاری کریں۔ طلال
چودھری کا کہنا ہے کہ عمران خان مایوسی کی وجہ سے ہر جگہ ایسی باتیں کرتے
ہیں۔
جوں جوں الیکشن کا زمانہ قریب آرہا ہے، سیاسی گہما گہمی میں اضافہ ہوتا
جائے گا۔ 2017 انتخابات کی تیاری کا سال ہے، جس میں سیاسی گرما گرمی بڑھے
گی۔ 2017 میں نئے سیاسی اتحاد بن سکتے ہیں اور مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف
سے ایک دوسرے پر تنقید بھی بڑھے گی۔ پاکستان کی قوم کا جو سب سے بڑا سرمایہ
ہے، وہ اْن کا سیاسی شعور ہے اور ہمارا سیاسی شعور بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا
ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات اور اْن پر موقف زیادہ واضح ہوں گے۔
پاکستان کا جو حکمران طبقہ ہے، چاہے وہ مرکز میں ہو یا صوبوں میں ہے (وہ
کوشش کرے گا کہ) 2017 میں کم از کم عام پاکستانی کی زندگی کو کچھ بہتر بنا
سکیں۔ اس کے کچھ مظاہر لوشیڈنگ میں کمی کی صورت میں سامنے آئے بھی ہیں، سال
گزشتہ لوڈشیڈنگ بہت زیادہ تھی، حکومت نے اس پر کچھ خاص توجہ نہ دی، مگر اب
جب الیکشن قریب آنے لگے ہیں اور اپوزیشن جماعتیں بھی میدان میں آچکی ہیں تو
لوشیڈنگ کا دورانیہ کم کردیا گیا ہے تاکہ اگلے سال ووٹ لینا آسان ہوں۔ تمام
سیاسی جماعتیں ابھی سے انتخابی تیاریوں میں مشغول ہوگئی ہیں اور عوام کو
رام کرنے کی کوشش میں ہیں، مگر عوام کا کچھ نہ کچھ شعور بیدار ضرور ہوا ہے۔
لگتا ہے عوام اس بار بہت کم ہی سہی، اپنے شعور کے مطابق فیصلہ کریں گے۔
آئندہ الیکشن میں سب سے زیادہ چیلنج حکومت کے لیے ہیں، کیونکہ ان کے پاس
کھونے کے لیے حکومت ہے، جبکہ دوسری جماعتوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں۔
مسلم لیگ کو حکومت بچانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ وزیر اعظم نواز شریف
کے سامنے اس وقت چار بڑے چیلنجز ہیں۔ اول پانامہ کا عدالتی محاذ اور جے آئی
ٹی میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا سامنا اور سرخرو ہونا۔اگرچہ پانامہ
کا فیصلہ وہ نہیں آیا، جو عمران خان فوری طور پر چاہتے تھے، لیکن عدالتی
فیصلے کے تمام مندرجات اور تمام ججوں کے لکھے ہوئے فیصلے میں شریف خاندان
کے خلاف اتنا کچھ مواد ہے جسے عمران خان سیاسی میدان میں اپنے حق میں
استعمال کرسکتے ہیں۔ دوئم سیاسی محاذ پر تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی
مزاحمت کا سامنا اور پانامہ کے فیصلے سے سیاسی محاذ پر ان کو جو شدید دھچکا
لگا ہے، اس کا مقابلہ کرنا۔ سوئم 2018کے انتخابات میں اپنی سیاسی برتری کو
قائم رکھ کر مخالفین کو شکست دینا۔ چہارم ڈان لیکس کے معاملے سے بحفاظت
نکلنا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے نیوز لیکس کے معاملہ کو مس
ہینڈل کیا ہے، حکومت کو نیوز لیکس کا معاملہ پریس کونسل آف پاکستان یا
عدالت میں لے کر جانا چاہیے تھا، نیوز لیکس کی انکوائری رپورٹ عوام کے
سامنے لائی جانی چاہیے، سب سے پہلے تو خبر لیک کرنے والے یا جعلی خبر
بنوانے والے کا تعین ہونا چاہیے، اس کے بعد ہی کسی کے خلاف کارروائی کی
جاسکتی ہے۔ نیوز لیکس میں قربانی کے بکروں کی بجائے اصل مجرم اور مہم جو کو
سامنے لایا جانا چاہیے، تاکہ آئندہ کوئی اس قسم کی جرات نہ کرسکے، لیکن
لگتا ہے حکومت اصل ذمہ داروں کو بچانا چاہتی ہے، جس سے سول ملٹری تعلقات
میں تناؤ مزید بڑھے گا اور حکومت کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ان تمام مسائل پر
حکمران جماعت کو بخوبی اندازہ ہے کہ یہ سادہ نہیں، بلکہ واقعی ان کا مقابلہ
کرنے کے لیے اسے ایک مضبوط سیاسی حکمت عملی اور جارحانہ طرز کی سیاست کی
ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اگر وہ جلد ازجلد
پانامہ کے مقدمہ سے قانونی اور سیاسی طریقے سے سرخرو نہیں ہوتے تو اس فیصلہ
کے اثرات ان کے گلے میں ہڈی بنے رہیں گے۔ ان کو ہر محاذ پر اپنی صفائی پیش
کرنی ہوگی اور جو سیاسی کامیابی کے طور پر ان کو سیاسی میدان میں پیش کرنا
ہے اسے بھی عملی طور پر دکھانا ہوگا۔
تمام تر صورتحال میں سیاست دانوں کو یہ بات سامنے رکھنی چاہیے کہ سیاست میں
اختلافات اور اختلاف رائے یقینی بات ہے۔ اسے جمہوری روایات کا حصہ سمجھا
جاتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی محسوس کرلینا چاہیے کہ نعروں، دھرنوں،
احتجاج اور دھمکیوں سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ اگر عوام کے دلوں میں جگہ
بنانی ہے تو طرز سیاست میں تہذیب اور بردبار ی کو لانا ہوگا۔ رواداری اور
عوامی فلاح کے لیے مفاہمت کی سیاست کو فروغ دینا ناگزیر ہوچکا ہے۔ پاکستان
نے غلط طرز سیاست سے ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کیا ہے۔ اب ملک اس کا
اور متحمل نہیں ہوسکتا۔ دانش مندی اور سیاسی بصیرت متقاضی ہے کہ روادارانہ
سیاست کو فرسودہ روایتی سیاست پر ترجیح دی جائے، تاکہ مملکت کی تمام
اکائیاں سیاسی اختلافات کے باوجود قومی یکجہتی، جمہوری رویوں اور معاشی
ترقی و خوشحالی کے اجتماعی اور مشترکہ ایجنڈے سے منسلک ہوجائیں۔ |