سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق جج ،پریس کونسل آف انڈیا کے
سابق چئیرمین قانون اور عدل کی دنیا کا جانا پہچانا نام جسٹس مارکنڈے کاٹجو
کا تعلق کشمیری پنڈت گھرانے سے ہے مگر ان کے والد بہت پہلے وادی سے بھارت
منتقل ہو چکے تھے اور خود مسٹر کاٹجو کی پیدائش بھارت کی ہے مسٹر کاٹجو نے
A Full Blown Guerilla War In kashmir کے عنوان سے بھارت کے ایک مشہور
میگزین آؤٹ لک میں کشمیر کی عکاسی کرنے والا ایک چونکا دینے والا مضمون کا
آغاز ہی یوں کرتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیری نوجوانوں کی اکثریت خود کو
بھارت سے الگ کر چکی ہے ۔ایک فوج دوسری فوج کے ساتھ تو لڑ سکتی ہے مگر وہ
عوام کے ساتھ نہیں لڑ سکتی ۔جسٹس لکھتے ہیں کہ میرے خیال میں حکومت اور فوج
کو اس حقیقت کو جان لینا چاہئے کہ کہ کشمیر میں ایک مکمل گوریلا جنگ
ابتدائی مرحلے میں ہے لیکن ہمارا میڈیا نازی جرمنی کے مشہور زمانہ جھوٹے
اور پراپیگنڈا باز وں کا کردار ادا کر رہا ہے مسٹر کاٹجو لکھتے ہیں کہ
گوریلا جنگ کی کامیابی کیلئے عوامی حمایت بہت ضروری ہوتی ہے جیسا کہ چینی
انقلاب میں ریڈ آرمی کے ایک مشہور کمانڈر نے کہا تھا کہ عوام سمندر ہوتے
ہیں اور ہمیں اس میں مچھلی کی صورت تیرنا ہوتا ہے ۔بولیویا میں چی گویرا نے
بھی تھوڑی دیر کے بعد ہی سہی مگر یہ حقیقت جان لی تھی ۔ہم اس حقیقت کی پردہ
پوشی نہیں کر سکتے کہ کشمیر میں عسکری نوجوانوں کو مقبول عوامی حمایت حاصل
ہے کشمیر میں سب لوگ عسکری نہیں ہیں نہ عسکری تربیت یافتہ ہیں مگر کشمیری
نوجوانوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں وہ رسد اور خوراک کی منتقلی سمیت ان
کی خاطر ہر کام کر سکتے ہیں برہان وانی کے جنازے میں لاکھوں افراد کی شرکت
اسی بات کا ثبوت ہے یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ سب ملی ٹینٹس نے سرحد
عبور کر لی ہے ان کی اکثریت برہان وانی کی طرح مقامی تربیت یافتہ ہے اگرچہ
انہیں چینی اور پاکستانی ہتھیار مل رہے ہیں ۔جسٹس کاٹجو کا یہ مضمون بھارت
کا وہ بیدار ہوتا ضمیر ہے جو اہل وادی کے جذبے کے بعد امید کی دوسری کرن ہے
۔ ظلم تشدد سے کشمیریوں کی آواز کو کچھ دیر کیلئے خاموش بھی کیا جا سکتا ہے
اور قبرستان کی خاموشی کو امن کا نام دے کر دنیا کے اقوام کو یہ دھوکا دینے
کی کوشش بھی کی جاسکتی ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور تاثر یہ دیا
جا سکتا ہے کہ کشمیریوں نے اس پر رضا مندی دکھائی ہے لیکن 2008 سے 2016 تک
کی عوامی مزاحمت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب دنیا اس فریب میں آ نے والی
نہیں معروف بھارتی مصنفہ اور انسانی حقوق کی علمبردار ارون دھتی رائے ایک
انٹر ویو میں کہتی ہیں کہ 2008 سے چند مہینے قبل بھارتی حکام کی طرف سے یک
طرفہ پروپیگنڈہ اتنا مؤثر تھا کہ غیر جانبدار حلقے بھی یہ یقین کر چکے تھے
کہ تحریک آزادی کشمیر کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے لیکن اچانک ہم نے دیکھا کہ
پچھلے کئی سالوں سے مسلسل کشمیر کے گلی کوچوں میں ایک ایسی تحریک ابھری ہے
اور جو مناظر ہم نے دیکھے وہ مصر میں التحیریر چوک کے ہم مشابہ ہیں ،وہ
کہتی ہیں کہ میں سمجھتی ہوں کہ بہت مشکل راستہ انہوں نے اپنایا ہے لیکن ان
کی جدوجہد آزادی کو اب کوئی ختم نہیں کر سکتا عام پڑھے لکھے بھارتی اب
بہلائے نہیں جا سکتے کہ یہ جنگجو ہیں ،طالبان ہیں یا بنیاد پرست مسلمان
۔کشمیر کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی بھارت کے ساتھ رہنے کی
آمادگی کا اظہار نہیں کیا طاقت کے بل پر جبری قبضہ، ان کے جسمانی وجود کو
قید تو کر سکتا ہے ،لیکن ایک قیدی کی حیثیت سے انہوں نے جیل وارڈن کو کبھی
اس خوش فہمی کا شکار نہیں ہونے دیا کہ وہ اسے اپنا محسن اور اس کی ہر ادا
پر دادو تحسین دینے کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔بھارتی سورما اس ریاست کو
اپنا اٹوٹ انگ کہتے نہیں تھکتے لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بزور طاقت اس
خطے پر قابض ہیں ۔جموں و کشمیر کولیشن سول سو سائٹی نے حال ہی میں ایک
رپورٹ جاری کی جس کے مطابق 2016 میں 383 افراد مارے گئے 145 عام شہری اور
138 مجاہدین شہید ہوئے ،جبکہ سو فورسز اہلکار اپنی جان گنوا بیٹھے یہ تعداد
پچھلے پانچ سالوں کے مقابلے زیادہ ہے 2011میں 233 ،2012میں 148 ،2013میں
204،2014میں 236،اور 2015 میں 217 بالترتیب شہید ہوئے ۔اس رپورٹ کے مطابق
برہانی وانی کی شہادت کے بعد صرف پہلے پانچ دنوں میں 57 نہتے شہری شہید
ہوئے ۔2010 اور 2016 میں پیلٹ گنوں کا استعمال زیادہ ہوا جہاں 2010میں 14
افراد پیلٹ گن فائرنگ سے شہید ہوئے وہیں 2016 میں 125 افراد جن میں اکثریت
بچوں اور بچیوں کی ہے پیلٹ گن فائرنگ سے شہید ہوئے ۔اعدادوشمار کے مطابق
2016میں پندرہ ہزار افراد پیلٹ گن فائرنگ سے زخمی ہوئے جن میں 1178 کی
آنکھیں زخمی ہوئیں زخمیوں میں 52 افراد کی بینائی مکمل طور پر اور ایک سو
پچاس افرد جزوی طور پر متاثر ہوئے زخمیوں میں ایک سے بارہ سال تک کے بچوں
کی تعداد 243 ہے جبکہ بارہ سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں کی تعداد 1005 ہے
سولہ سے پچیس سال کی عمر کے افراد جو زخمی ہوئے ان کی تعداد 7762 ہے ۔ہمیں
اس حقیقت سے بھی چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے کہ ہماری تاریخ ابن الوقت
منافقین اور سازشی عناصر سے بھری پڑی ہے اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہماری
تحریک آزادی کشمیر طول پکڑتی جا رہی ہے اس وقت پی ڈی پی ،نیشنل کانفرنس اور
دیگر ناموں سے کچھ تنظیمیں کشمیریوں کی تاریخ ساز قربانیوں سے کھلواڑ کر کے
میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کر رہے ہیں اور حال ہی میں جب حافظ
محمد سعید نے سال 2017کو جب کشمیر کا سال قرار دینے کی بات کی تو انہیں نظر
بند کر دیا گیا جس کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں کشمیری تنظیموں نے بھی احتجاج
کیا پاکستان میں مذہبی و سیاسی جماعتوں نے مذمت کی کشمیر پر ملک بھر میں
جماعۃ الدعوۃ نے پروگرام کئے ۔جو اب بھی جاری ہیں نواز شریف کا دوست سجن
جندال بھارت سے اسلام آباد نواز شری کو ملنے آیا تو تو اس کے بعد پھر نظر
بندی کی مدت تین ماہ بڑھا دی گئی ہے تاہم یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ کشمیری
عوام نے ان کرداروں کو اب پہچان لیا ہے کشمیر میں پاکستانی پرچم لہرائے جا
رہے ہیں اور حالیہ ضمنی چناؤ میں کشمیری عوام نے کھل کے اور کھول کے دہلی
کے ان گماشتوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ کشمیری عوام اب مزید کسی دھوکے میں
نہیں آئیں گے ۔اب فقط ایک ہی نعرہ ہے آزادی یا شہادت۔ |