علی احمد کرد کی ہچکچاہٹ

حکومت اور عدلیہ کے مابین تازہ ترین ”جنگ“ کیوں شروع ہوئی، کیسے شروع ہوئی، کون کون سے عوامل اس ٹکراﺅ کے پیچھے کارفرما تھے، اس بحث سے قطع نظر آج جب سپریم کورٹ کے باہر مختلف وکلاء اور آئینی ماہرین میڈیا کو اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کر رہے تھے اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور عدلیہ بحالی تحریک کے روح رواں علی احمد کرد کیمروں کے سامنے آئے تو وہ صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں کافی حد تک تذبذب کا شکار تھے۔ ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ اگر حکومت ججوں کی بحالی والا ایگزیکٹو آرڈر واپس لے لے تو کیا وہ حکومت کے ساتھ ہوں گے یا عدلیہ کے ساتھ؟ تو انہوں نے بہت زیادہ ہچکچاہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ وہ چونکہ اس وقت کسی عہدہ (بار ایسوسی ایشن کا عہدہ) پر موجود نہیں ہیں اس لئے وکلاء کی موجودہ قیادت ہی اس بات کا فیصلہ کرے گی، ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت ججز بحالی والا ایگزیکٹو آرڈر واپس نہیں لے سکتی اور وہ بڑے عرصہ سے کہتے آرہے ہیں کہ حکومت اور عدلیہ کے مابین تعلقات بگڑ رہے ہیں جن میں گزشتہ رات انتہائی تیزی آگئی۔

علی احمد کرد وکیل کیسے ہیں یہ تو شائد سب لوگ نہیں جانتے لیکن وہ ایک انتہائی بےباک شخص، نڈر، بہادر، انسانی حقوق کے محافظ اور آئین کے جانثار کے طور پر یقیناً جانے جاتے ہیں، جس طرح انہوں نے مشرف کی آمریت میں بالخصوص عدلیہ بحالی تحریک کے دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، پولیس کی لاٹھیاں اپنے دبلے پتلے جسم پر جھیلیں، دھمکیوں، دھونس اور تمامتر آمرانہ ہتھکنڈوں سے نبرد آزما ہوئے وہ انہیں کا خاصہ ہے، کوئی دھمکی، کوئی لالچ اور کوئی ہتھکنڈہ ان کے پایہ استقلال میں کسی قسم کی لغزش پیدا نہ کرسکا، لیکن عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی اور اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے بعد ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اب شائد حکومت کے زیادہ نزدیک ہیں، عدلیہ سے ان کی دوریاں بڑھ رہی ہیں اور کچھ ایسے عوامل ضرور ہیں جن کی بناء پر وہ آئین کی بات تو کرتے ہیں لیکن عدلیہ کے ساتھ ان کی وہ ہمدردیاں باقی نہیں رہیں جو تحریک کے دوران صاف طور پر دیکھی جاسکتی تھیں۔ مجھ سمیت پاکستان کا کوئی بھی شخص اس بات پر یقین نہیں کرسکتا کہ مشرف کی آمریت کا سر پر کفن رکھ کر مقابلہ کرنے والا شخص، وکلا، سول سوسائٹی اور میڈیا کی تحریک کی بدولت معرض وجود میں آنے والی، کرپشن کے الزامات کا شکار، نااہل حکومت کے کسی لالچ میں آسکتا ہے یا کسی دھمکی سے خوف زدہ ہوسکتا ہے تو وہ کیا وجوہات ہوسکتی ہیں جنہوں نے علی احمد کرد جیسے بیباک شخص کو ایسی ہچکچاہٹ کا شکار کردیا کہ وہ کھل کر یہ بھی نہ کہہ سکے کہ اگر حکومت نے ججز بحالی کا ایگزیکٹو آرڈر واپس لیا یا لینے کی کوشش کی تو وہ کہاں کھڑے ہوں گے؟ کیا وہ حکومت کی حمائت کریں گے یا اس عدالت کی جو ان کی قربانیوں اور بے لوث محنتوں کی وجہ سے بحال ہوئی؟

علی احمد کرد فرشتہ تو نہیں ہیں لیکن ایک سچے اور کھرے انسان ضرور ہیں لیکن اس معاملہ میں ان کا تذبذب ایک استعجاب کا باعث بن رہا ہے۔ اگر اس معاملہ کو سمجھنا ہے تو واقعات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ضروری ہوگا۔ عدلیہ بحالی تحریک کے بعد جب علی احمد کرد نے بیان دیا کہ ”عدالتوں میں اب بھی فرعون بیٹھے ہیں“ تو کچھ لوگوں کو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ معاملات میں کوئی خرابی ضرور پیدا ہوگئی ہے۔ بعد ازاں وہ اس معاملہ پر زور دیتے نظر آئے کہ چونکہ پاکستان کے عام لوگوں کا واسطہ زیادہ تر اعلیٰ عدلیہ کی بجائے سول کورٹس اور سیشن کورٹس سے ہوتا ہے اور ان عدالتوں کے حالات، عدلیہ بحالی کو باوجود ویسے کے ویسے ہیں بلکہ شائد پہلے سے بھی خراب۔ اس کے بعد پچھلے سال ہونے والے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں بھی علی احمد کرد نے قاضی انور کی مخالفت اور باچہ خان کی حمائت کی، قاضی انور حامد خان گروپ کے امیدوار تھے جبکہ باچہ خان ان کے مخالف امیدوار تھے، علی احمد کرد کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے بعض وکلاء بشمول اعتزاز احسن نے بھی باچہ خان کی حمائت کی اور وکلاء سیاست وہیں پر پہنچ گئی جہاں عدلیہ بحالی تحریک سے پہلے موجود تھی۔ ایک اور بات جو اکثر لوگ جانتے ہیں کہ علی احمد کرد پر اعتزاز احسن کا کافی گہرا اثر ہے اور ان کی آپس میں دوستی بڑی گہری ہے، بلکہ مجھے یاد ہے کہ عدلیہ بحالی تحریک کے دوران سرگودھا میں ہونے والے کنونشن میں آصف زرداری کی پس پردہ حمائت، یا صریح مخالفت نہ کرنے کی وجہ سے وکلاء نے اعتزاز احسن کی بات تک سننے سے انکار کردیا اور ان کی تقریر کے دوران ”گو زرداری گو“ اور ”زرداری کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے“ کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا تو اس وقت علی احمد کرد، حتیٰ کہ چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری کو بھی سٹیج پر آنا پڑا اور ان کے آنے اور سمجھانے پر وکلاء نے نعرے بازی ختم کی اور اعتزاز احسن اپنی بات مکمل کرسکے۔ اس وقت ایک بار پھر سپریم کورٹ بار کے انتخابات کا سٹیج سج چکا ہے جس میں جسٹس طارق محمود، اعتزاز احسن اور عدلیہ بحالی تحریک چند دیگر وکلاء راہنما عاصمہ جہانگیر کی حمائت کررہے ہیں اور علی احمد کرد بھی ”اتفاق“ سے اسی ”کیمپ“ میں شامل ہیں۔ عاصمہ جہانگیر حکومتی امیدوار کے طور پر سامنے آئی ہیں جن کے پیچھے وہ تمام قوتیں بھی موجود ہیں جو عدلیہ بحالی تحریک کی مخالف تھیں اور جن کی ہمدردیاں اس وقت بالکل عیاں طور پر موجودہ حکومت اور خصوصاً صدر زرداری کے ساتھ ہیں جن میں بابر اعوان، لطیف کھوسہ، کاظم خان، احسن بھون، رمضان چوہدری وغیرہ بالخصوص قابل ذکر ہیں، اور وکلاء کی اکثریت کے خیال میں یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے لاہور میں وکلاء اور اعلیٰ عدلیہ کے مابین تعلقات خراب کرنے اور تنازعات کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ علی احمد کرد کے سیاسی نظریات جو بھی ہوں، وکلاء سیاست میں وہ کسی بھی کیمپ میں شامل ہوں لیکن پاکستان بھر کے وکلاء کے دلوں میں وہ ایک آزاد اور بیباک شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان سے محبت کی جاتی ہے، کہیں ایسا تو نہیں ہورہا کہ وہ حامد خان یا کسی جج سے ذاتی مخالفت یا اعتزاز احسن سمیت کسی کی بھی محبت اور ذاتی خوشگوار تعلق کی وجہ سے اس محبت اور عقیدت سے محروم ہوجائیں جو پورے پاکستان کے وکلاء اور عوام ان سے کرتے ہیں کیونکہ مجھ سمیت اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جہاں علی احمد کرد یہ بیان دیتے ہیں کہ حکومت ججز بحالی والا ایگزیکٹو آرڈر واپس نہیں لے سکتی، وہاں اگر وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ ”ہاں! اگر حکومت نے ایسی کوئی کوشش کی تو ہم وکلاء سپریم کورٹ، عدلیہ اور آئین کی حفاظت کے لئے سڑکوں پر ہوں گے“۔ انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیوں کیا؟ انہوں نے صرف اس بات پر اکتفا کیوں کرلیا کہ ”میرے پاس تو کوئی عہدہ نہیں اور وکلاء لیڈر شپ اس بات کا فیصلہ کرے گی!“ جبکہ اس سے پہلے جب وکلاء تحریک شروع ہوئی تھی اس وقت بھی ان کے پاس کوئی عہدہ نہیں تھا، وہ تو بعد میں، تحریک کے دوران سپریم کورٹ بار کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ آخر میں علی احمد کرد سے ایک استدعا کرنا چاہوں گا کہ بے شک آپ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میں کسی بھی امیدوار کی حمائت کریں، حکومت سے بھی ہمدردی رکھیں، دوستیاں بھی نبھائیں لیکن خدارا! اپنے چاہنے والوں کو اس طرح مایوس نہ کریں۔ آپ کھل کر کیوں نہیں کہتے کہ اگر حکومت نے ایسا کوئی اقدام کیا یا کرنے کی کوشش کی تو ”میں ایک ”کارکن“ کے طور پر اس کے خلاف نکلنے والا پہلا شخص ہوں گا“ کیونکہ مجھ سمیت کوئی بھی شخص یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ علی احمد کرد جیسا پہاڑ کسی چیونٹی سے ڈر سکتا ہے، کسی لالچ، دھونس، ہتھکنڈے یا کسی تعلق کی وجہ سے حق بات کہنے سے باز رہ سکتا ہے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222555 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.