مردم شماری کسی بھی ملک میں سہولیات کی فراہمی اور ملکی
ترقی کے لیے ضروری سمجھی ہے کیونکہ درست اعداد و شمار کی بنا پر ملک میں
وسائل کی تقسیم احسن طریقے سے ممکن ہو پاتی ہے ۔ اور انھی اعداد و شمار کی
بنیاد پر حکومتی امور سر انجام دئیے جاتے ہیں ۔ پاکستان کے آئین کے مطابق
مردم شماری وزارت ِ شماریات ، وزارت ِ مالیات اور بیورو آف سٹیٹسکس کی
نگرانی میں ہر دس سال کے بعد کروائی جانا قرار پائی تھی ۔
حالیہ برس میں مردم شماری کا آغاز مارچ کے مہینے سے ہوا اور امید کی جاتی
ہے کہ مئی کے مہینے میں یہ کام مکمل کر لیا جائے گا ۔
پاکستان کی تاریخ کی جانب اگر نظر دوڑائی جائے تو پہلی مردم شماری 1951ء
میں کی گئی جس کے مطابق پاکستان کی آبادی 75 ملین تھی جس میں 33.7 ملین
نفوس مغربی پاکستان جبکہ 42 ملین مشرقی پاکستان میں بستے تھے ۔ اس مردم
شماری کے بعد مردم شماری بالاترتیب1961 ء،1972ء،1981ء،1998ء میں کروائی
گئی۔1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی بشمول گلگت بلتسان
اور آزاد کشمیر 130,857,717 افراد پر مشتمل تھی ۔حالیہ مردم شماری آئین کی
روسے سن 2008ء میں کروائی جانا تھی جو کہ نو سا ل کی تاخیر کے بعد اس سال
کروائی جا رہی ہے ۔
اس مردم شماری میں پہلی بار خواجہ سراؤں کی تعداد معلوم کرنے کے لیے ایک
حصہ مختص کیا گیا ہے ۔
مردم شماری کے اس عمل کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے 18.5بلین مختص کئے
گئے جن میں 6ملین فوجی اور سویلین افراد جبکہ 6.5 بلین ذرائع آمد و رفت کے
لیے خرچ کئے گئے ۔ مردم شماری کا پہلا حصہ جس کا آغاز 15مارچ سے کیا گیااس
میں پورے پاکستان سے 63 تحصیلوں میں مردم شماری کامیابی سے مکمل کر لی گئی
۔
پاک فوج کا شمار ان اداروں میں کیا جاتا ہے جن کا کسی بھی عمل میں ذمہ
دارکی حیثیت سے کام کرنا اس عمل کی کامیابی اور سیکیورٹی کی صورت حال کو
قابو بنانا یقینی ہو ۔ ملک میں کوئی بھی صورت حال ہو یہ ادارہ دوسرے اداروں
کے ساتھ مکمل تعاؤن کرتا ہے ۔چاہے زمینی وسائل ہوں یا افرادی قوت یہ ادارہ
ہر دم عوام کی خدمت کے لیے تیار رہتا ہے ۔ حالیہ مردم شماری میں دوسرے
اداروں کے ساتھ ساتھ فوج کو بھی یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ 118,918 سول
نمائندوں کے ساتھ ساتھ 200,000فوجی کو مردم شماری کی ذمہ داری سونپی گئی ہے
۔ مردم شماری کے لیے گھر گھر آنے والے نمائندوں کے ساتھ ایک فوجی جوان بھی
اپنی ذمہ داری ادا کرے گا ۔وزیر خزانہ نے مردم شماری میں فوج کے کردار کو
سراہتے ہوئے کہا کہ فوج کا دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صورت
میں اس عمل کو شفاف اور محفوظ بنایا جا سکتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک
فوج کی نگرانی میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج میں کسی قسم کے ابہام کی
گنجائش کم ہو گی اور عوام زیادہ سے زیادہ مردم شماری کے عملہ سے تعاؤن کریں
گے ۔ان نمائندوں کو فوج اور حکومت کی جانب سے ٹریننگ دی گئی ۔ فوجی جوانوں
میں 44,000 کو مردم شماری کے عملہ کا حصہ بنایا گیا ہے اور ان کی ڈیوٹی میں
لوگوں کے گھر گھر جا کر معلومات اکٹھا کرنا ہے جبکہ بقایا کو مردم شماری کے
عملہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
لوگوں کی شکایات درج کروانے کے لیے ایک فون نمبر کا اجراء بھی کیا گیا۔ڈپٹی
کمشززاپنی مطلقہ تحصیل میں مردم شماری کے عمل کو تکمیل تک پہنچانے کے ذمہ
دار ہیں۔مردم شماری کے عمل کو شفاف اوراس کے نتائج کو کسی بھی سیاسی یا
مذہبی منافرت سے بچانے کے لیے ضروری اقدامات کئیے گئے ہیں ۔
سیکیورٹی کے انتظامات کے باوجود مردم شماری کے عملہ کو مشکلات کا سامنا کر
نا پڑ رہا ہے ۔مردم شماری کے اس عمل کو ناکام بنانے کے لیے بھی ملک دشمن
عناصر نہ صرف سرگرم عمل ہیں بلکہ اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے ہر حربہ
اختیار کر رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ مردم شماری کے عملہ کی جان بھی محفوظ نہیں
۔اس کی چیدہ مثالیں یہ ہیں کہ مردم شماری کی ٹیم پر لاہور میں خودکش حملہ
کیا گیا جس میں چار فوجی جوان جبکہ تین راہ گیرشہید اور انیس افراد زخمی ہو
گئے ۔ مردم شماری ٹیم کا ایک نمائندہ مانسہرہ ایک ٹریفک حادثہ میں جان بحق
جبکہ بلوچستان کی تحصیل کچ میں مردم شماری کے عملہ کے دو افراد کو اغوا ء
کر لیا گیا ۔مردم شماری کے اداروں کا عملہ اور فوج ان مشکلا ت کے سامنے
سینہ سپر ہیں اور اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے ملک کے ہر حصے میں خدمات
سرانجام دے رہے ہیں ۔مشکلات کوئی بھی ہوں ان پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی
ہے اور مردم شماری کا عمل اپنی تکمیل کی جانب رواں دواں ہے اور امید کی
جاتی ہے کہ عنقریب اس عمل کو مکمل کرکے نتائج عوام کے سامنے لائے جائیں گے
۔
واضع رہے کہ یہ مردم شماری پاکستان کے لیے نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے
کیونکہ اس مردم شماری سے حاصل ہونے والے اعداد و شمارکے بعد ووسائل کی
صوبوں میں منصفانہ تقسیم ممکن ہو پائے گی ۔اسی مردم شماری سے حاصل ہونے
والے اعداد و شمار ٹیکسٹیکس ا ور عوام کے لیے سہولیات فراہمی بھی یقینی
بنائی جا سکے گی ۔عوام کو چاہیے کہ مردم شماری کے عملے کے ساتھ تعاؤن کریں
اور عملہ کو درست معلومات فراہم کریں کیونکہ یہ عملہ اپنی جان جوکھوں میں
ڈال کر یہ عمل مکمل کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور اس میں ہمارا ہی بھلا ہے۔
درست معلومات کی فراہمی ہی مردم شماری کو کامیاب کرنے کے لیے ضروری ہے ۔
ڈی جی ای ایس پی ار نے متنبہ کیا ہے کہ کوئی بھی معلومات غلط دینے کی صورت
میں چھ ماہ تک جیل اور پچاس ہزار تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے ۔
اس کے علاوہ ، مردم شماری کے عمل کی نگرانی کے لیے بین الاقوامی مبصرین کی
چھ ٹیمیں جن کا تعلق اقوام متحدہ کی آبادی کے فنڈ سے ہے پاکستان کے اداروں
کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔مردم شماری کے ذمہ دار ادارے ، پاک فوج اور بین
الاقوامی نگرانی(UN Population Fund ) ، اس عمل کے نتائج کو درست اور شفاف
بنانے کے لیے سرگرم ِعمل ہیں ۔ بین الاقوامی نگرانی نے اس عمل کو مزید شفاف
بنانے میں مدد دی ہے ۔
پاکستان کی ترقی کے لیے عوام کو دوسرے اداروں کا ساتھ دینا چاہیے ۔ کیونکہ
درست اعداد و شمار ہی پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ایک اہم
سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں ۔ |