کیا اسلامی ملٹری اتحاد ـ عالمی قوت بن سکے گا؟

عثمانی سلطنت کے بکھرجانے کے بعد مسلمانوں کے اثرورسوخ میں کمی ہی دیکھی جارہی ہے۔کرۂ ارض پر رعب ودبدبہ دوبارہ دیکھنے میں نہیں آرہا۔مغرب کی غلامی کے بعد آزادی حاصل کئے بھی ایک عرصہ بیت گیا ہے۔کئی اتحاد بنے لیکن مسلمان اپنے آپ کو محفوظ نہیں کرسکے۔ایک چھوٹے سے اسرائیل نے ہی پڑوسی عربوں کو پے درپے شکستیں دیں۔او۔آئی۔سی ۔سے بھی کچھ مثبت برآمد نہیں ہوا۔اب مرکز اسلام سعودی عرب نے15۔دسمبر2015ء کو اسلامی ملٹری اتحاد کا اعلان کیا ہے۔سعودیہ میں یہ سوچ 2011ء سے پروان چڑھ رہی تھی۔ابتداء میں 34۔ممالک اور اب اس میں41۔مسلم ممالک شامل ہوچکے ہیں۔ان میں کئی ممالک صرف ایسے ہیں جو مالی اور خفیہ اطلاتی مدد ہی فراہم کریں گے۔اسے ہم نیک شگون ہی کہیں گے۔افغانستان اور عراق پر امریکی حملے کے بعد مشرق وسطیٰ بری طرح انتشار کا شکار ہے۔امریکہ نے مسلمانوں کو گروہی اور فرقہ وارانہ لڑائیوں میں لگا دیا ہے۔شام کس کے قبضے میں ہے اس کا تو سرے سے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔اور پھر نیا فتنہ داعش کی شکل میں نمودار ہوگیا ہے۔اس کے حملوں کے اہداف سنی اور شیعہ دونوں طرح کے ملک ہیں۔سعودی عرب کو اس سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔اب تک داعش یہاں15۔بڑے بڑے دھماکے کراچکی ہے۔سعودی عرب کے باڈر پر یمن کی طرف زیدی شیعہ نے بھی خطرات پیداکردیئے ہیں۔دنیا کے چھ بڑوں نے جب سے ایران پر پابندیاں نرم کی ہیں۔سعودی عرب کو مزید خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔یہ وہ منظر ہیں جس میں سعودی عرب کے شہر ریاض سے اسلامی ملٹری اتحاد کا اعلان وزیر دفاع محمد بن سلمان نے کیا۔اسکے مقاصد میں دہشت گردی کو ختم کرنا بتایاگیا ہے۔دنیا کی قدیم ترین مسلم جامعہ الازہر کی طرف سے ایک تاریخی قدم قرار دیاگیا۔اس کے ابتدائی اعلان میں یہ الفاظ شامل ہیں۔"یہ اسلامی اقوام کو تحفظ فراہم کرے گا۔دہشت گردی چاہے کسی بھی تنظیم کی طرف سے پھیلائی جارہی ہواورکسی بھی مسلم ملک میں ہو اس کا خاتمہ کیاجائے گا۔ریاض اس اتحاد کا مرکز ہوگا اور یہ اتحاد سعودی عرب کی قیادت میں کام کریگا"سعودی عرب کے ہاں مالی وسائل کی کمی نہیں ہے۔اب بھی اس کا دفاعی بجٹ88۔ارب ڈالر سالانہ ہے۔باقاعدہ ملٹری کی تعداد بڑھتے بڑھتے اب 3۔لاکھ اور نیشنل گارڈ کی تعداد2۔لاکھ ہوچکی ہے۔لیکن اسے دور جدیدکی کسی بڑی جنگ لڑنے کا تجربہ حاصل نہیں ہے۔1990ء کی دہائی کے شروع میں جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کرکے سعودی عرب کے لئے خطرہ پیدا کیا تو سعودی عرب نے مسلم اور نان مسلم دنیا کو اپنی حمایت کے لئے طلب کرلیا تھا۔ابھی بھی سعودی عرب یمن میں کوئی بڑی اور نتیجہ خیز کاروائی نہیں کرسکا۔ایران اور داعش دونوں کی طرف سے اسے چیلنجز درپیش رہتے ہیں۔سعودی عرب نے کوشش کی کہOICکے تمام ممالک اسلامی ملٹری اتحاد میں شامل ہوں۔لیکن آخری خبریں آنے تک41ممالک نے ہی شمولیت کی حامی بھری ہے۔شیعہ ممالک ایران اور عراق نے تو اس اتحاد میں شمولیت کا سوچا بھی نہیں۔اس کے ساتھ ساتھ انڈونیشیاء۔الجزائر۔آذربائیجان بھی ابھی تک شریک نہیں ہوئے۔ایٹمی پاکستان،طاقتور ترکی اور بڑی فوج رکھنے والے مصرنے شامل ہوکر اسلامی ملٹری اتحاد میں جان ڈال دی ہے۔ملائیشیاء بھی صنعتی لہاظ سے ترقی یافتہ ملک کہلاتا ہے یہ بھی بڑے پیمانے پر مکمل تعاون کررہا ہے۔اس طرح کے ادارے شروع میں چند ممالک اور کم وسائل سے ہی شروع ہوتے ہیں۔آہستہ آہستہ ترقی کرتے اور طاقتور ہوتے رہتے ہیں۔متعلقہ ارکان وسائل اور ٹروپس فراہم کرتے رہتے ہیں۔تنظیم اور ٹریننگ سے ان میں قوت پیدا ہوتی رہتی ہے۔مقاصد بھی آہستہ آہستہ پھیلتے اور واضح ہوتے رہتے ہیں۔نیٹو اور وارسا پیکٹ بھی کبھی ابتدائی شکل میں تھے۔1990ء میں وارسا پیکٹ تو روس کے ٹوٹنے سے ختم ہو گیا۔لیکن نیٹو اب بھی دنیا کی سب سے بڑی قوت کے طورپر موجود ہے۔اسلامی ملٹری اتحاد(IMA) کو سنی اتحاد بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ لبنان اس میں شامل ہوچکا ہے اور لبنان کی آدھی مسلم آبادی شیعہ افراد پر مشتمل ہے۔اومان کی شمولیت بھی اسے فرقہ وارانہ اتحاد سے دور لے جاتی ہے۔پاکستانی جنرل راحیل شریف سے یہ توقع کی جاتی ہے۔کہ وہ اسے مسلم ملٹری اتحاد بنائیں گے اور فرقہ واریت سے دور رکھیں۔لیکن ایران کے پھیلتے ہوئے اثرات کو روکنا بھی ضروری ہے۔جب سے ایران مذہبی علماء کی قیادت میں عالمی منظر پر ابھرا ہے۔اس نے اپنے فرقہ وارانہ خیالات ملحقہ علاقوں میں تیزی سے پھیلائے بھی ہیں۔اس کے روکنے کے لئے اگر کوئی ماثر حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے۔تو اس میں کوئی امرمانع نہیں ہونا چاہئے۔ایران میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر حملہ بہت خوفناک تھا۔اس کا اب ایران کو خود احساس ہوگیا ہے۔ایران کی شام میں کھلم کھلا مداخلت اور ایک فریق کی حمایت نے بھی حالات کو بہت بگاڑا ہے۔ایران اپنے مسلک کو اپنے ملک تک رکھے۔اگر وہ برآمد کریگا تو اسے روکنے کے لئے اکثریتی مسلمانوں میں بھی سوچ پیدا ہوگی۔اسلامی ملٹری اتحاد کے پس منظر میں بھی یہ سوچ نظر آتی ہے۔آپس کے لڑائی جھگڑوں سے قومیں تباہ ہوتی ہیں۔مسلمانوں کو متحد ہوکر اس کرۂ ارض پر امن کے قیام میں رول اداکرنا چاہئے۔ابھی اسلامی ملٹری اتحاد کی شروعات ہیں۔ابھی اس کا تفصیلی منشور اور قوانین بن رہے ہیں۔یہ طے ہوگا کہ کونسا ملک کتنی تعداد میں ٹروپس مہیا کریگا۔اتحاد کے مالی وسائل سالانہ کتنے ہونگے۔اتحاد کس معیار کا اور کتنا اسلحہ خریدے گا۔سپاہی اور اسکی ٹریننگ کا کیا معیار ہوگا۔اتحاد کتنی تیزی سے رد عمل دے سکتا ہے۔(جہاں بھی اسکی ضرورت ہو)۔انکی خفیہ حکمت عملیاں کتنی معیاری ہونگی۔اتحاد کا ڈسپلن،اخلاقی معیار،تنظیم اور تعاون کا معیار کیا ہوگا۔قیادت اس اتحاد کو کس معیار پر تربیت دے کر منظم کرتی ہے۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں ابھی اسلامی ملٹری اتحاد ابتدائی مراحل میں ہے۔جیسے جیسے وقت گزرے گا امید یہی ہے کہ یہ قوت بڑھتی چلی جائے گی۔یہ قوت مسلمانوں کے دفاع کے لئے استعمال ہوگی۔نیٹو اتحاد میں یہ طے ہے کہ اگر کسی رکن ملک پرکوئی غیر رکن حملہ کرے تو فوراً اس کی مدد کو پہنچے۔مسلم ممالک تو صدیوں سے غیر مسلموں کے حملوں کا شکار ہوتے آئے ہیں۔اب ضروری ہے کہ مسلمانوں کی کوئی طاقت ہو اور جہاں بھی ضرورت ہو۔وہاں تیزی سے جاکرکاروائی کرسکے۔شام میں امریکہ اورروس دونوں نے آکر کاروائیاں شروع کردی ہیں۔میدان جنگ ایک مسلم ملک ہے۔تباہی مسلمانوں کی ہورہی ہے۔اسلامی ملٹری اتحاد کو نہ صرف ISISکو ختم کرنا چاہئے بلکہ شام میں وہاں کے اصل اکثریتی مسلمانوں کی حکومت کا قیام ضروری ہے۔جب اتحاد واقعی طاقتور ہوجائے گا تو اسی صورت میں ایسی کاروائی کا امکان ہے۔دنیا کے اور بھی کئی علاقے قدرتی طورپر اسلامی ملٹری اتحاد کو امید بھری نظروں سے دیکھیں گے۔کشمیر۔فلسطین اور برما کے روہنگیا مسلمان بھی اس سے امیدیں وابستہ کریں گے۔کسی کی بھی امیدیں فوری طورپر پوری ہونے کا امکان ابھی نہیں ہوگا۔لیکن ان علاقوں کے مسلمان امید تو ضروررکھیں گے۔ہم اس اتحاد کوبہتر مستقبل کی امید ہی قرار دیں گے۔دعا یہی ہے کہ اتحاد واقعی عالمی قوت بنے۔پھیلے بڑھے اور مسلمانوں کی مشکلات میں کمی کا سبب بنے۔

Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 55077 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.