بول کہ لب آٓزاد ہیں تیرے

کہا جاتا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔آج کے دور میں میٖڈیا بہت بڑی طاقت ہے۔ اس دور میں کچھ بھی چھپانا ناممکن ہے۔ اور تو اور ہر جگہ لکھا ہوتا ہے ۔ کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے۔ صحافت عبادت ہے بلکہ کوئی یہ بھی کہہ گیا کہ صحافت شعبہ پیغمبری ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالات و واقعات سے لگتا بھی یہی ہے اور یہ سب کچھ سن سن کے یقین اتنا پختہ ہو چکا ہے کہ دل مانتاہی نہیں ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں کوئی واقعہ رونما ہو اور میڈیا کو علم نہ ہو۔ بلکہ پاکستان میں تو چیونٹی بھی پھسلے تو میڈیا حرکت میں آ جاتا ہے اور پھرتی بھی ایسی کہ عقاب بھی ششدر رہ جائے بھبکی ایسی کہ شیر بھی غار میں گھس جائے۔ جذبہ و جلال ایسا کہ
ہم سے الجھو گے تو زمانے میں جیو گے کیسے
ہم نے ہر ظلم کو مٹانے کی قسم کھائی ہے

ہوا یوں کہ فیس بک کی سٹریم لائن کو سکرول کر رہا تھا کہ اچانک نظر ایک جگہ رک گئی۔ ایک دوست نے پوسٹ شئیر کی ہوئی تھی جس کا متن کچھ اسطرح تھا
‘ بحریہ ٹاؤن میں سٹیج گرنے سے تیس آدمی مر گئے اور ہر کوئی خاموش ، نہ کوئی خبر اور نہ کوئی سوؤ موٹو’

چونکہ سوشل نیٹ ورک پر اکثر افواہیں چلتی رہتی ہیں اور اس کی خبریں اتنی خاص قابل بھروسہ نہیں سمجھی جاتیں لہذا میں نے بھی سوچا کہ کوئی افواہ ہی ہوگی لیکن شئیر کرنے والا اور پوسٹ کرنے والے کے نام پر جب نظر پڑی تو خیال آیا کہ کوئی بات تو لگتی ہے۔ خیر میری انگلیاں حرکت میں آگئیں
I opened the comments and just typed 'when'
کیوں کہ دل مان ہی نہیں رہا تھا کہ اتنا بڑاسانحہ ہوگیا ہو اور پاکستانی آزاد اور دلیر میڈیا خاموش رہے۔ اور میں اپنے کام میں لگ گیا۔

کافی دیر کے بعد مجھے ایک نوٹیفکیشن وصول ہوا جس میں when کا جواب کچھ یوں تھا You have been mentioned to the comments میں نے اس لنک پر کلک کیا تو آصف محمود کا پیج کھلا جس پر تفصیل کچھ یوں لکھی تھی

’جناب پروفیسر طاہر ملک صاحب نے بتایا کہ انہوں نے میری بحریہ ٹاؤن حادثے والی پوسٹ کاپی کر کے جناب حامد میر کو بھیجی جسے حامد میر نے پروگرام. میں پڑھ کر سنا دیا. پروفیسر صاحب نے وضاحت کی کہ پوسٹ پر نام لکھنا وہ بھول گئے تھے اس لیے حامد میر صاحب نام. نہ لے سکے کیوں کہ انہیں علم ہی نہ تھا کہ یہ کس نے لکھی ہے.
میں سمجھتا ہوں نام لینا ضروری بھی نہ تھا. اصل چیز پیغام تھا جو چلا گیا. قبرستان کا سناٹا تھا جو ٹوٹ گیا. میں جناب طاہر ملک کا بھی شکر گزار ہوں اور برادر مکرم حامد میر کا بھی.‘

اس کے ساتھ ہی ایک حامد میر کی وڈیو شئیر کی گئی تھی جس میں وہ اپنے کسی پروگرام کے اختتام پر چھوٹا سا پیغام پڑھ کر سناتا ہے۔

ویڈیو دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ یہ کسی چینل کا پروگرام ہی نہیں ۔ کہیں سے کلپ لیاگیاہے کیونکہ اتنا بڑا سانحہ ہوجائے تو چینلز انسانی خون کو کبھی اس طرح خاک میں نہ ملنے دیتے۔ جہاں اتنی زیادہ جانیں لمحہ بھر میں لقمہ اجل بن گئیں ، وہاں قیامت کا سماں ہوگا چیخوں سے عرش بھی کانپ اٹھا ہوگا اور اسلام آباد میں کان وکان خبر نہ ہو۔ بہت غور کیا میں نے مگر میرے سارے اندازے نفی میں جواب دیتے رہے۔

یہ ایک اسلامی جمھوری آزاد ریاست ہے۔ یہاں پر جتناآزاد میڈیا ہے اتنا میں نے، تقریباؑ ساری ترقی یافتہ دنیا دیکھ چکا ہوں ، کہیں نہیں دیکھا۔ یہاں کی صحافی برادری کیا کہنے ، وکلاء اگر اس بات میں زرا بھی حقیقت ہوتی تو کم از کم ایوان عدل میں تزکرہ تو ہوتا اور ایوان عدل کیوں نہ لرز اٹھتا ۔ ایک مشعال کے لئے پارلیمان میں دعا کی گئی اور پوری قوم سراپا احتجاج بنی ہوئی تھی۔ اور کوئی بھی نہ ہو مرنے والوں کے بچے، بھائی اور رشتہ دار تو ہوں گے۔ وہ ہی فرط غم میں لاشوں کو اٹھائے کہیں احتجاج کر رہے ہوتے۔ اور نہیں تو تھانیدار صاحب ہی اتنا بڑا سانحہ تو درکنار اگر کوئی ون ویلنگ کرتے ہوئے اپنی جان لے لے تو اس کے دفنانے پر اس وقت تک پابندی لگا دیتے ہیں جب تک طبی ملاحظہ نہ ہو جائے کیوں کہ یہ خود کشی کے زمرے میں آتا ہے اور خود کشی ایک جرم ہے۔ میں تو جتنا بھی سوچوں کوئی بات بنتی نظر نہیں آتی۔ میرا تو دماغ پاغل ہوتاجارہا ہے۔

چلو فرض کرو ایسا ہوا بھی ہوتا تو یہ ایک حادثہ تھا۔ ارادۃؑ تو نہیں ہوا تھا۔ سوگوار ی کا عالم ہوتا ۔ بے گناہی کا اظہار ہوتا ۔ وارثان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار ہوتا ان کے دکھ درد کو بانٹا جاتا ۔ متوفیان کے لئے دعایہ پروگرامز ہوتے۔ اس طرح کے حادثے ہوں تو ان پر قومیں سوگوار ہو جاتی ہیں۔معاملے کی انکوئری ہوتی۔ قانونی کاروائی ہوتی وارثان کا غم ہلکا ہوتا تو وہ خواہ اس کی وجہ بد انتظامی یا لاپرواہی بھی ہوتی تو اسے رضائےالہی سمجھ کر معاف کر دیتے۔

ابھی کل کی بات ہے قومی کتاب میلے خاتون شاعرہ حادثے کی وجہ سے گر کر فوت ہوئی تو اس کے لئے ا حتجاج ہوا وارثان سے ہمدردی کا اظہار ہوا۔ اس طرح کی خاموشی تو نہیں ہوئی وہ ایک جان تھی یہ تیس انسانی جانیں ہیں۔ اس طرح کی خاموشی کم از کم میری سمجھ سے تو باہر ہے۔

وہاں سوشل میڈیا پر کمنٹس میں لکھا تھا کہ ایک ٹی وی کے پروگرام کی ریکاڈنگ ہورہی تھی اور چونکہ اس میں ملک ریاض اور چینل کی عزت کا مسئلہ تھا تو اس لئے کسی نے کوریج نہیں دی۔ اس بات میں بھی وزن نہیں لگتا۔ اگر باقی چینلز نے برادری کی حمائت یا لالچ میں ایسا کیا بھی ہے تو اب اگر یہ سچ ہے اور خبر عام ہو جاتی ہے تو یہ سب کے لئے عزت کا معاملہ ہوگا ہا ؟

کوئی بھی وجہ ہو دولت کا زور ہو، برادری سے اظہار یک جہتی ہو ، عزت کا معاملہ ہو۔ اتنی دیدہ دلیری ، اتنی بے حسی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ قوم مال و دولت کے لالچ میں اس حد تک جا سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نہ مانوں۔۔۔۔۔۔۔
یہ افواہ ہے یا سچ جو بھی ہے ، سوشل میڈیا کے لئے ، صرف اتنا ہی کہوں گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
 

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 124303 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More