قانون کی بالادستی کی بدترین صورتحال……پاکستان ترقی کیسے کرے گا؟

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے قانون کی حکمرانی ضروری ہوتی ہے۔ اگر ملک سے تمام جرائم کا خاتمہ کرنا مقصود ہے تو قانون کو مضبوط اور بالادست بنانا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان میں قانون کی بالا دستی اور آئین کی حکمرانی پر بات تو ہر کوئی کرتا ہے، لیکن عمل کم ہی لوگ کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی قوانین پر عمل کرنے سے مشروط ہوتی ہے۔ ہم ایک ایسی ریاست کا خواب دیکھتے ہیں، جہاں عدلیہ آزاد ہو اور ریاست کے تمام طبقات اس کے فیصلوں کے پابند ہوں۔ ایک مثالی ریاست کی تشکیل کے وقت چند چیزیں ہم فرض کر لیتے ہیں کہ وہ ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں قانون کی بالا دستی ہوگی۔ ریاست کے تمام شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق مساوی بنیادوں پر حاصل ہوں گے۔ غربت، بھوک اور بیروزگاری جیسے ناموں سے عوام قطعاََ نا آشنا ہوں گے۔ جہاں راوی امن سے سْکھ اور چین کی بانسری بجاتا ہوگا، لیکن اگر بد قسمتی سے ریاست میں ایسا کچھ بھی نہ ہو تو ہمیں ایک بار سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالا دستی قائم ہے یا نہیں، کیونکہ ایک مثالی ریاست کا خواب قوانین پر عمل کر کے ہی پورا ہوسکتا ہے۔اگر قوانین پر عمل نہیں کیا جارہا تو مثالی ریاست بھی قائم نہیں ہوسکتی اور جرائم کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔ کوئی بھی ریاست تب ہی مستحکم و مضبوط ہوتی ہے، جب وہاں قانون کی بالادستی ہو۔ قوانین سب کے لیے مساوی ہوتے ہیں، مگر افسوس ہمارے یہاں قانون کی حکمرانی و بالادستی کی تلقین ریاستی عوام کے حوالے سے زیادہ کی جاتی ہے، جب کہ ملک کا ایک با اثر طبقہ، اشرافیہ یا جاگیر دار طبقہ خود کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ ان کے لیے قانون ہاتھ میں لینا یا ریاست کے فعال اداروں کے اصول و ضوابط سے رو گردانی کرنا ایک باعثِ افتخار امر ٹھہرتا ہے۔ اسی طرح جب ملک کے اعلیٰ ترین منصب دار قانون کو ایک من مانے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے لگ جائیں، تب قانون کی بالا دستی کا تصور ملیا مٹ ہو نے لگتا ہے اور کسی بھی معاشرے میں بگاڑ تبھی جنم لیتا ہے، جب ریاست کا بااثر طبقہ یا جرائم پیشہ افراد محض حکامِ بالا تک اپنی رسائی کے زعم میں مبتلا ہو کر قانون کو ارزاں گردانتے ہیں اور اس کی بالا دستی کو تسلیم نہ کرتے ہوئے سرکشی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر قانون کی بالادستی قائم ہوجائے تو ملک میں کوئی بھی مسئلہ درپیش نہ ہو۔ جب قوانین سب پر مساوی طور پر لاگو نہیں ہوتے، بلکہ غریب کے لیے الگ اور امیر کے لیے الگ قوانین ہوں، جس کے پاس جتنی طاقت وہی اتنی ہی آزادی کے ساتھ قوانین کو گھر کی لونڈی سمجھنے لگے تو بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔اس طرح جو بھی بااثر ہو وہ قوانین کو روندنا شروع کردیتا ہے اور قانون صرف کمزوروں کے لیے رہ جاتا ہے، جس سے ریاست ناکام ہوجاتی ہے اور برسوں سے پاکستان کے دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے میں کھڑا نہ ہوسکنے کی ایک وجہ یہی ہے کہ یہاں قوانین پر عمل درآمد یکساں نہیں ہے، بلکہ غریب و امیر کے لیے الگ الگ قوانین ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان قوانین پر عمل درآمد کے حوالے سے دنیا کے دوسرے ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ امریکی ادارے’’ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ ‘‘نے قانون کی حکمرانی کے حوالے سے دنیا کے 113ممالک کی فہرست جاری کی ہے، جس میں پاکستان 106نمبر پر موجود ہے۔ امریکی رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سرکاری کاموں کے لیے 78 فیصد عوام سرکاری ملازمین، جبکہ 74 فیصد پولیس کو رشوت دیتے ہیں۔ کرپٹ افسران کو سزا کے معاملے میں پاکستان کی کارکردگی مایوس کن ہے اور صرف 18 فیصد کرپٹ سرکاری افسران و ملازمین کو سزا دی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مقابلے میں بھارت 19 فیصد، افغانستان 24 فیصد، سری لنکا 42 فیصد، بنگلادیش 45 اور نیپال میں 49 فیصد کرپٹ سرکاری ملازمین کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ امریکی ادارے کی رپورٹ نے قانون کی بالادستی کے لیے صوبوں کی کارکردگی انڈیکس بھی جاری کی ہے، جس کے مطابق خیبر پختونخوا قانونی کی حکمرانی میں سرفہرست ہے، جب کہ جدید قانون متعارف کرانے میں پنجاب سرفہرست ہے۔ دوسری جانب پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی ( پلڈاٹ) نے ملک میں قانون کی حکمرانی کی گرتی صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم کے فنڈز میں خورد برد کرنے کے علاوہ کرپٹ افسران کو سزا اور تفتیش کے معاملے میں پاکستان 6 سارک ممالک میں سب سے نیچے ہے۔ پلڈاٹ نے امریکی ادارے کی رپورٹ سے متعلق کہا ہے کہ 2016ء میں دنیا کے 113 ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 106 رہا، لیکن 2015ء میں پاکستان کا نمبر 102 ممالک کی فہرست میں 98 پر تھا۔ اسی طرح 2014 ء میں 99 ممالک میں پاکستان کا 73واں نمبر تھا، جو قانون کی بگڑتی صورتحال کا عکاس ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں قانون بااثر افراد کے پاؤں کی جوتی بن کر رہ گیاہے، جس کے پاس پیسے یا سیاست وغیرہ کی طاقت ہو، وہ کھل کر بدعنوانی کرتا ہے۔ پاکستان میں قانون پر عمل نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ یہاں کرپشن بے انتہا ہوتی ہے۔ گزشتہ سال ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان میں روزانہ 12ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔اس طرح ملک میں ہونے والی کرپشن کا تخمینہ لگایاجائے تو سرکاری ادارے اور حکمران 43کھرب 80ارب روپے کی کرپشن سالانہ کرتے ہیں۔ گزشتہ سال برطانوی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق نواز دور حکومت میں پنجاب اور سندھ کو 70کروڑ پاؤنڈ یعنی ایک کھرب 6ارب 93کروڑ 62لاکھ 36ہزار کی امداد دی گئی جو کرپشن کی نذرہوگئی۔ سندھ میں امداد سے چلنے والے 5ہزار اسکول اور 40ہزار اساتذہ جعلی نکلے۔ قومی اسمبلی میں ایک دستاویز جمع کروائی گئی تھی، جس کے مطابق میاں محمدنواز شریف نے 2009ء سے 2016ء تک، 7سال سے ٹیکس ادا نہیں کیا۔ پاکستان میں کرپشن کی ایک اور بڑی مثال گزشتہ سال سے چلنے والا پاناما لیکس کا معاملہ ہے، جس میں سیکڑوں بڑے پاکستانیوں کے نام شامل ہیں جن میں وزیراعظم نواز شریف اور اس کی فیملی سرفہرست ہے، جنہوں نے ٹیکس سے بچنے کے لیے غیر قانونی طریقے اختیار کیے اور وطن عزیز کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ اسی طرح ڈھائی ہزار پاکستانیوں کے نام دبئی لیکس میں بھی شامل ہیں، جنہوں نے دبئی میں ایک کھرب روپے سے زیادہ کی جائیدادخرید رکھی ہے۔ اربوں روپے کی مبینہ کرپشن کے ڈیڑھ سو بڑے مقدمات کی رپورٹ ملکی سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی، جبکہ اس دوران 150میں سے 71مقدمات کی انکوائری مکمل کی گئی ہے۔ 41مقدمات کی تحقیقات تکمیل کے مرحلے میں ہیں، جبکہ 38کی تحقیقات مکمل کرکے ریفرنس احتساب عدالتوں کو بھجوائے گئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور سابق وزرائے اعظم راجہ پرویز اشرف، چودھری شجاعت، سابق وزیر اعلٰیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی، سابق وزیر اعلٰیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی، سابق وفاقی وزراء آفتاب شیر پاؤ اور فردوس عاشق اعوان کے علاوہ دیگر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خلاف مالی بد عنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے مقدمے زیر تفتیش ہیں۔ ڈیڑھ سو سے زاید میگا کرپشن کیسز چل رہے ہیں۔ نیب کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی فہرست میں با اثر افراد کے خلاف ایسے مقدمات بھی شامل ہیں، جن میں ایک دہائی کا عرصہ گزرنے کے باوجود بات تفتیش اور تحقیقات کے مرحلے سے آگے نہیں جا سکی۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ جب قانون کے رکھوالے ہی کرپشن میں ملوث ہوں گے اور قانون کی دھجیاں اڑائیں گے تو نچلا طبقہ کس طرح قانون پر عمل کرسکتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے حکام معاشرے میں افراد کے حقوق کے تحفظ اور خدمات پر مامور ہوتے ہیں۔یہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتے ہیں۔ جنہوں نے کرپشن کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے، اگر یہ ادارے خود کرپشن میں ملوث ہوں گے تو کرپشن کو کنٹرول کرنا کیسے ممکن ہے۔

ماہرین اس امر پر بھی متفق ہیں کہ بدعنوانی منظم جرائم اور دہشت گردی کے فروغ کا باعث ہے۔ کرپشن کی جڑیں ملک میں بہت مضبوط ہو چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے اتنے اسکینڈلز ہیں، اگر ان تمام کی تحقیقات کرنے لگ جائیں تو دوسرے کام نہیں ہوسکیں گے۔ بدعنوانی کے سیکڑوں بڑے اسیکنڈلز ہیں، جن میں بااثر افراد کو کوئی سزا نہیں ہوتی۔ کرپشن میں ملوث کوئی وزیراعظم ہے تو کوئی وزیر اعلیٰ ہے، کوئی کسی وزیر کا دوست ہے تو کوئی کسی وزیر کا بھائی ہے۔ بڑے بڑے نام ہیں، جن پر اربوں کھربوں روپے کی کرپشن کے کیسز چلے، مگر کوئی سزا نہیں ہوئی۔ کرپشن کرنے والے تمام بااثر افراد آج باعزت بری ہوچکے ہیں۔ جس ملک میں وزیر اعظم پر ہی کرپشن کا الزام ہو، ٹیکس چوری کا الزام ہو، اس ملک میں کسی دوسرے سے بدعنوانی نہ کرنے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ جب ملک کے حکمران خود ہی قانون توڑنے لگیں تو عوام کیونکر قانون پر عمل کرسکتے ہیں؟قانون توڑنے والوں میں بااثر افراد اور حکومتی ارکان ہی ہوتے ہیں۔جن کو قانون پر عمل کروانا تھا، وہی قانون توڑنے میں ملوث پائے جاتے ہیں۔پولیس کے ذریعے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جاتا ہے، لیکن یہاں بااثر مجرموں کو پولیس کے ذریعے تحفظ دیا جاتا ہے۔ بااثر افراد کی سرپرستی میں پولیس بھی کرپشن میں ملوث ہوتی ہے اور قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کو سزا نہیں ہوتی۔ قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹی سطح سے لے کر بڑی سطح تک جس کا جہاں بس چلتا ہے، کھل کر بدعنوانی کرتا ہے، کیونکہ سب کو پتا ہے کہ یہاں قانون پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، جتنی بھی بدعنوانی کریں، کوئی پکڑ دھکڑ نہیں ہوگی۔ کراچی میں پیپرز میں کھلے عام نقل کی گئی، پیسے لے کر نقل کروائی جاتی ہے۔ چند روپوں کے بدلے میں بہت سے بچوں کی محنت پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔ یہ بدعنوانی بھی قانون پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ ملک کا ہر شہری قانون توڑنے پر لگا ہوا ہے، کیونکہ سب کو پتا ہے جب ہم قانون توڑیں گے تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ ملک میں کر پشن اور ناانصافی کے خاتمہ اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے۔جب تک قانون کی حکمرانی کو یقینی نہیں بنایا جاتا، اس وقت تک ملک ترقی نہیں کرسکتا۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 703415 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.