ملک میں چار بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ(ن) ،پاکستان
تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی پری الیکشن مہم جوئیوں
میں مصروف عمل ہیں۔کوئی مانے نہ مانے ،دھرنے میں انتہائی ٹف صورتحال سے
نبرد آزما ہونے اور طالع آزماؤں کے نیوز لیکس کے سچے الزامات لگانے کے
باوجود بھی اگر نواز شریف پلوں، سڑکوں، انڈر پاسز، میٹر پراجیکٹس اور پھر
سب سے بڑھ کر سی پیک کا کریڈٹ لیتے ہیں تو پھر اب تمام اپوزیشن کوعلی
الاعلان یہ ماننے میں کوئی عارمحسوس نہیں کرنی چاہیے کہ مسلم لیگ (ن)ملک کی
طاقتور ترین پارٹی بن چکی ہے جسے کسی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی خوف و خطر نہیں ہے
اور وہ 2018 کے عام انتخابات میں ووٹوں کے حصول کے لیے عوام کے چاروں شانے
چت کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جماعت اسلامی اور
تحریک انصاف کا موقف سو فیصدر درست ہے کہ ملک میں کرپشن کا انبار ہے ،رشوت
خوری اورمالی خورد بردار ض پاکستان کو دھیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔سابق
جرنیل راحیل شریف بھی مالی کرپشن کو بڑی دہشت گردی قرار دے چکے ہیں۔ تاریخ
کا بغور مطالعہ کیا جائے تو سمجھ آتی ہے کہ جماعت اسلامی پچھلے سال 70 سال
سے اسلامی نظام حکومت کے لیے عملی بنیادوں پر کوشاں ہے لیکن وہ کیا مضمرات
ہیں کہ جماعت اسلامی ان ستر بہاروں میں ہمیں ملک میں کہیں خاص کاردگی یا
عوام کی تائید و حمایت کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آتی؟ اور جب بھی آتی ہے عوام
انہیں بری طرح سے مسترد کرتے ہیں بلکہ بڑی آسانی سے کہتے ہیں کہ دین اور
اسلام کا سیاست ، نظام اور حاکمیت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی حال تحریک انصاف
کا ہے ۔لیکن وہ اسلامی نعرے کے بغیر انتخابات میں حصہ دار بنتی ہے اس لیے
2013ء کے الیکشن میں خیبر پختون خواہ کے عوام نے ان پر اعتبار و اعتماد کیا
جو اب کی بار ذرا مشکل دیکھائی دیتاہے۔ مسلم لیگ (ن) کی پراگرس تو اظہر من
الشمس ہے کہ اگر کسی تیسری قوت نے کوئی پنگا نہ لیا تو اگلی بار بھی یہی
آئے گی ۔ بقیہ کالم میں تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور پی پی پی زیب قرطاس
ہوں گے۔
پاکستان تحریک انصاف 2013ء کے عام انتخابات میں دوسری بڑ ی سیاسی جماعت بن
کر ابھری اور 17 سال کی جد وجہد کے بعد صوبہ خیبر پختون خواہ میں حکومت
بنانے میں کامیا ب ہوئی ۔تبدیلی کے نعرے نے عوام میں کافی شعور و آگہی پیدا
کی۔پھر ایک وقت ایسا آیا کہ عمران خان کو دھرنے کی شکل میں نواز حکومت کو
ایکسپوز کرنے کا کھلا موقع ملا ۔ عمران خان اگر چاہتے تو اس موقع کو اپنی
روشن قسمت میں بدل کر پاکستان میں اس وقت یا اگلی حکومت کے لیے خطرناک
پلیئر کے طور پر سامنے آکر نواز حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے تھے۔ حکومتی
ناقدین بتاتے ہیں کہ دنیا کے طویل ترین عمران خان کے دھرنے کے پہلے چالیس
دنوں میں ایک موقع ایسا بھی آیا کہ حکومت وقت کمپرومائز کرنے پر رضامند ہو
گئی تھی اور جناب شہباز شریف کو قربانی کا بکر ا بنا کر وزیر اعظم کی سیٹ
کو بچانے کے لیے بھی کہہ دیا گیا تھا۔لیکن پھر جذباتی عمران خان نے ملک کے
ہر طالع آزما کو للکارنا شروع کردیا ، حتی کہ عمران خان مغرور ہوگئے اور
ملٹری اسٹیبلشمنٹ جو کہ انہیں مضبوط دیکھنا چاہتے تھے ، انہیں بھی آڑے
ہاتھوں لیا، اور پھر خان صاحب جھاگ کی طرھ بیٹھ گئے ۔عمرا ن خان کی سب سے
بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اس اشرافیہ کی آواز ہیں جو کہ تعدا د میں انتہائی
قلیل ہے اور مسلم لیگ (ن) کی طاقت یہ ہے کہ پنجاب جیسے صوبے کی آواز ہے
جہاں غربت و افلاس کا راج ہے اور وہ تعداد میں صوبے کا 70 فیصد ہیں جنہوں
نے چار و نا چار صوبے کی بڑی پارٹی کو ووٹ دے کر اپنی دنیاوی عاقبت سنوارنی
ہے۔اسی طرح پی پی پی بھی اندورن سندھ میں بیچارے غریب مظلوموں پر راج کرتی
ہے جنہیں تعلیم نام کی گھٹی سے سرے سے ہی محروم رکھا گیا ۔ظاہری بات ہے
انہوں نے صوبے کی بڑی پارٹی کو ہی سپورٹ کرنا ، ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی
چارہ نہیں ہے ۔ایم ایم اے کی بحالی( جس کے آثار معدم ہیں) کی صورت میں
عمران خان اپنی سیاسی موت سمجھیں اورایم ایم اے کی عدم بحالی کی صورت میں
بھی پی ٹی آئی کو وہ عددی برتری نہیں ملے گی تو گزشتہ عام انتخابات میں ملی
کیوں کہ گزشتہ لوکل باڈی الیکشن میں تحریک انصاف کو خیبرپی کے ،کے لوگوں نے
صرف 20 فیصد ووٹ ڈالا جو کہ جرنل الیکشن میں35 فیصد تھا۔
پی پی پی کے پاس اس کی پچھلی حکومت میں عوام کو ڈیلیور کرنے کے لیے کافی
وقت تھا لیکن انہوں نے اپنا سارادھیان ـ’’ پاکستان کھپے‘‘کے نعرے پر
رکھااورعملا ’’ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی ‘‘پر عمل پیراہوتے ہوئے’’ پیسہ
بناؤ ‘‘ پالیسی کو اپنا متمع نظر بنائے رکھا اورپچھلے دور حکومت میں کوئی
ایسا کارنامہ بھی نہ دکھا سکی کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں’’ مسلم لیگ (ن) ، پی پی
پی بار ی باری کھیل میں ‘‘ 2018 ء کے انتخابات کے لیے موقع دیں۔پی پی پی کی
اصل روح بھٹو ازم ہے جو اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ شہید جمہوریت کے لیے بھی
ان کے پاس کوئی مہرہ نہیں ہے ۔ بھٹوثانی ’’بلاول بھٹو ‘‘ کو بھی جناب
زرداری عوام میں پزیرائی نہیں دلوا سکے یا شاید وہ کرسی کی لالچ میں ایسا
کرنا نہیں چاہتے۔ مستقبل کی نبض پر ہاتھ رکھ کردیکھا جائے تو پی پی پی کا
مستقبل مخدوش اوراندرون سندھ تک ہی محدود نظر آتاہے ۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اپنی گفتگو میں نہایت زیرک اور روادار واقع
ہوئے ہیں ۔لیکن حالات کے بھنور کوسمجھتے ہوئے انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ
نفاذاسلام کاپروگرام ، مسالک و مذاہب میں محبتیں بانٹنے،پارٹی کے اندر
جمہوریت اور مشاورت کے تسلسل ،ملی یکجہتی کونسل کے قیام،ناموس رسالتؐ کا
معاملہ اٹھانے ، سیکولر اور لبرل ازم سے مقابلہ کرنے اورکشمیر و دوسرے
اسلامی ممالک میں مظالم کو اجاگر کرنے سے نیک نامی توملتی ہے مگر ووٹ کے
حصول کے لئے کچھ دوسرے زاویوں و اشاریوں پر کڑی نظر رکھنا ہو تی ہے۔ عوام
الناس اور مملکت خداداد کے تمام اسٹیک ہولڈرز کا مطالبہ یہ ہے کہ ترقیاتی
کاموں کا جال بچھایا جائے ،روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں، لوڈ شیڈنگ اور
مہنگائی سے جان چھڑائی جائے ،وغیرہ۔ ملک میں تقریباََ90 فیصد لوگ اسلامی و
دینی احکامات ، شرائح، نصوص اور طورطریقوں کو چاہنے والے ہیں۔ پھر کیا وجہ
ہے کہ جماعت اسلامی کو مرکزی حکومت کے طور کبھی شرف قبولیت نہیں ملی؟ دراصل
سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک اسلامیت ثانوی جبکہ پاکستانیت اور وطنیت
کواولیٰ حیثیت حاصل ہے ۔ میں اپنے پچھلے کئی کالموں میں جماعت اسلامی کے
دوستوں کو مفت و مفید مشورے دے چکا ہوں کہ اپنا تھینک ٹینک بنائیں، پارٹی
کو جمہوری حوالوں سے مضبو ط کریں۔عوام میں پزیرائی حاصل کرنے والے عوام
دوست بیانات دیں۔میڈیا ٹیم کو مضبو ط کریں جوکہ اب تک بلکل صفر ہے۔مولانا
فضل الرحمان سے کچھ سبق سیکھ کر خود کو جمہوریت پسند بنائیں ۔ عوامی نعرے
لگائیں ، صرف اسلامیت نہیں بلکہ پاکستانیت کا نعرہ بھی لگائیں۔ خود کو
اپوزیشن کا پلیئر نہیں بلکہ حکمران کا روپ دھارکر پیش کریں۔ ستر سال سے
قائم مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے اپنے نرم رویے کوتبدیل کریں اور خداراہ کھل
کر سامنے آئیں۔دوہزار اٹھارہ نزدیک ہے اور انتخابی تجربات بتاتے ہیں کہ فقط
مضبوط تنظیم سازی الیکشن جیتنے کے لیے کافی نہیں ،بہت کچھ نیا کرنا بدلتے
حالات کا تقاضا ہے۔ |