چند روز قبل وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے ڈان لیکس پر
نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ جس کی رُو سے قومی سلامتی کونسل کی میٹنگ کی
کارروائی کی خبر باہر آنے کی ذمہ داری طارق فاطمی اورراؤ تحسین پر ڈال کر
انہیں اُن کے عہدوں سے فارغ کر دیا گیا۔ نوٹیفکیشن کے جاری ہوتے ہی آئی ایس
پی آر کے ترجمان کی جانب سے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کی گئی کہ وزیر
اعظم ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والا نوٹیفکیشن نامکمل ہے، اوراس میں
انکوائری بورڈ کی سفارشات پرعمل درآمد نہیں کیا گیا، اس وجہ سے یہ
نوٹیفکیشن مسترد کیا جاتا ہے۔
بس اس کے بعد تو ہر طرف چہ میگوئیوں کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔کیونکہ لوگ
ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ کے مہینوں سے منتظر تھے اور اس بات پر حیران
تھے کہ آخر ایک سادہ سی بات پتا لگانی تھی کہ خبر کہاں سے لیک ہوئی؟ پھر اس
پر مہینوں کیوں لگ گئے ؟ اور مہینوں کے بعد بھی تیار شدہ رپورٹ شائع کیوں
نہ ہوئی۔ جبکہ حکومت کی جانب سے رپورٹ پر ایک ہی موقف سامنے آتا کہ
فائنڈنگز اور سفارشات کے معاملے میں حکومت اور فوجی حلقوں میں کچھ نکات پر
اتفاقِ رائے ہونا باقی ہے۔ اس کے بعد ہی رپورٹ کو پبلک کیا جائے گا۔ جن دو
عہدے داروں کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ ان میں سے طارق فاطمی نے پریس کو
مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا پچاس سالہ سفارتی کیریئر بے داغ اور حب
الوطنی سے لبریز ہے۔ کبھی کسی کو اُن کی پیشہ ورانہ کارکردگی اور پاکستانیت
پر انگشت نمائی کا موقع نہیں مِلا۔ دُوسری جانب راؤ تحسین نے اپنی برطرفی
کے فیصلے کو عدالت عالیہ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
فوجی ادارے کی جانب سے ٹویٹ کیے جانے کے بعد نواز لیگی ماجے ساجے اپنے خالص
سلطان راہی انداز میں تنقید کے گنڈاسے لے کر فوج کے خلاف پِل پڑے۔ کسی نے
کہا جی اداروں کو اہم معاملوں پر ٹویٹس کے ذریعے ردِ عمل ظاہر نہیں کرنا
چاہیے۔ آپس میں مِل بیٹھ کر ’افہام و تفہیم‘ کی فضا میں اختلافی امور کو حل
کرنا چاہیے۔ کوئی کہنے لگا ادارے اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔ وزیر اعظم
ہاؤس کسی رپورٹ کو شائع کرنے کا کُلی طور پر مجاز ہے وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ
ایک اہم عہدے پر فائز وفاقی وزیر نے تو دو قدم آگے نکلتے ہوئے اپنے ہی
ماتحت سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی کو غیر تسلّی بخش قرار دیتے ہوئے اندر
کا خوب ساڑ نکالا۔شاید ایسے ہی موقعوں کے لیے شاعر نے کہہ رکھا ہے
شرم تم کو مگر نہیں آتی
موصوف سے کوئی پوچھے کہ اگرآپ کی وزارت کے ماتحت ادارے اپنا کام ٹھیک نہیں
کر رہے تو کیا آپ پچھلے تین چار سالوں سے فائلوں کی مٹی جھاڑنے کی ڈیوٹی
انجام دے رہے تھے۔ایسی بات پر تو آپ کو استعفیٰ دے کر گھر چلے جانا چاہیے
تھا ۔اداروں کو اپنی حد میں رہنے کے بھاشن جھاڑنے والے نواز لیگ کے آدھ
درجن ’خوش گفتار‘ اور ’حد درجہ مہذب‘ ترجمانوں سے بھی یہ سوال ہے کہ مریم
نواز کس حیثیت میں حکومتی معاملات دیکھتی ہے اور حکومتی موقف کی ترجمانی کا
فریضہ ادا کرتی ہے؟ اس وقت محکمہ اطلاعات و نشریات عملاً معطل ہو کر رہ گیا
ہے۔ تمام حکومتی پالیسیوں کی نشر و اشاعت کی ذمے داری دُخترِ اول کے سپرد
کر دی گئی ہے۔ باقی جہاں تک رہی یہ بات کہ ڈان لیکس کے پیچھے اصل کردار کون
سی ہستی ہے، تو اُس بارے میں تو کچھ بھی ڈھکا چھُپا نہیں رہا۔ ڈان لیکس
کوئی اتفاقی واقعہ نہیں تھا، بلکہ حقیقت میں فوج کو بدنام کرنے کا ایک اور
نواز لیگی حربہ تھا۔ان کا مقصد فوج کو بیک فُٹ پر لے جا کر اس کی ساکھ کو
نقصان پہنچا کر اسے اپنے نیچے لگانا تھا۔ ایک اہم قومی سلامتی کی میٹنگ کی
باتوں کو توڑ مروڑ کر لِیک کرنے کا مقصد عوام کی نظروں میں مظلوم بن کر یہ
ثابت کرنا تھا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ’جمہوری‘ اور ’منتخب‘ حکومت کو عوامی
اُمنگوں کی تکمیل کے لیے کام کرنے نہیں دے رہی۔
نواز شریف کا پُورا سیاسی کیریئر مخالفین پر الزام تراشیوں سے بھرا پڑا ہے۔
سابقہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید چاہے اقتدار میں ہوتیں یا اقتدار سے
باہر، نواز لیگ کی جانب سے مسلسل اُن کی ذات کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا اور
انہیں مُلکی سلامتی کے لیے ایک بڑا سیکیورٹی رِسک قرار دیا جاتا۔ حالانکہ
نواز شریف کے وجود سے زیادہ اس مُلک کی سلامتی کو کسی اور سے خطرات لاحق
نہیں رہے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے ہر دور میں قومی اداروں کے ساتھ متکّے
اور محاذ آرائی کا چلن اپنایا۔ جنرل آصف نواز ہوں یا جہانگیر کرامت، جنرل
پرویز مشرف ہوں یا جنرل راحیل شریف۔ نواز شریف نے ہر کسی کو اپنا ’’کاما‘‘
بنانے کی کوشش کی اور ناکامی پر پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی
محافظ پاک فوج کے تمام تر ادارے کو مُلکی و غیر مُلکی سطح پر بدنام کرنے
میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ واقفانِ حال یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کارگل کا
ایڈونچر جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف کا مشترکہ فیصلہ تھا۔ نواز شریف کو
اس معاملے پر پُوری طرح سے ڈی بریف کیا گیاتھا۔ مگر جب کارگل کی جنگ وسعت
اختیار کر گئی اور امریکا و دیگر غیر مُلکی طاقتوں کا پریشر پاکستان اور
نواز شریف پر پڑا تو اس نے اس سارے معاملے سے ہاتھ کھینچ کر تمام تر ذمہ
داری پرویز مشرف پر عائد کر دی۔ اور اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ دُنیا
بھر سے ہمدردیاں سمیٹنے کی خاطر خود کو امن کا پرچارک اور پاکستانی فوج کو
بُرائی اور جارحیت کا منبع قرار دینے کی نیت سے دُنیا بھر میں "Rogue Army"
کے نام سے پمفلٹ چھپوا کر بانٹے گئے۔ یہیں پر بس نہ کی، بلکہ مشرف کو ہٹانے
کی کارروائی کے دوران اس کے طیارے کو پاکستان میں اُترنے کی اجازت نہ دی
گئی۔ اور طیارے کو دُشمن مُلک بھارت کے کسی شہر میں اُتارنے کا کہا گیا۔
اگر طیارہ دہلی میں اُتر جاتا تو اس وقت بھارت کے ساتھ جو معاملات تھے، اُس
میں بہت ممکن تھا کہ پرویز مشرف کو نواز شریف کی ایماء پر بھارتی حکومت
گرفتار کر کے اُ س سے بہت سے قیمتی فوجی راز اُگلوانے اور کارگل معاملے کا
بدلہ لینے کی کوشش کرتی۔مگر تائید ایزدی سے مشرف کو طیارہ پاکستان میں ہی
اُتروانے میں کامیابی حاصل ہو گئی۔
نواز شریف اپنی جلاوطنی کے دوران اور بعد کے سالوں میں بھی یہی واویلا
مچاتا رہا کہ مشرف نے اُس کی حکومت کارگل معاملے کے باعث ختم کی تھی اور اس
معاملے پر کمیشن بنا کر مشرف کو کڑی سزا دینی چاہیے۔ مگر اس معاملے پر
کمیشن بنتا کیسے؟ یہاں تک کہ اپنے دورِ اقتدار میں بھی انہوں نے کمیشن
تشکیل نہیں دیا کیوں کہ اگر غیر جانبدار کمیشن تحقیقات کرتا تو نواز شریف
مجرم ثابت ہو جاتا۔ سو یہی ان کی کذب بیانی کی تاریخ ہے۔ جو لوگ شریف
برادران کی نفسیات سے واقف ہیں وہ اس بات کی تائید کریں گے کہ شریف برادران
کے طریقہ ہائے واردات میں سب سے پہلا حملہ مخالفین و مظلومین کو ڈرانا
دھمکانا ہوتا ہے۔ اگر تب بھی بات نہ بنے تو پھر یہ سودے بازی پر اُتر آتے
ہیں۔ اور ناکامی کی صورت میں اگر انہیں نظر آ جائے کہ معاملہ ان کی بربادی
کی جانب جا رہا ہے تو یہ بھاگنے میں عافیت جانتے ہیں یا دُشمن ملک میں
موجود اپنے ساتھیوں سے مدد لیتے ہیں۔ عمران خان کے اسلام آباد کے تاریخی
دھرنے کے دوران پتا نہیں کیوں بھارتی فوجوں کی جانب سے سرحدی جارحیت اور
فائرنگ کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا تھا پھر اس کے بعد جب سے
پاناما لیکس کا معاملہ گرم ہوا تو ایک دفعہ پھر بھارت کی جانب سے سیز فائر
کی خلاف ورزی اور معصوم پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کے واقعات میں تیزی آ گئی
ہے۔ ان حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے جندال کا پاکستان آ کر نواز
شریف سے ملنا جانے مستقبل کی کس ریشہ دوانی کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ نواز
شریف ایک تاجر ہے اور تاجر کے آگے صرف تجارتی مفادات ہوتے ہیں، چاہے وہ
مُلک کے اندر ہوں یا دُشمن مُلک کے اندر۔ نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں جیسی
اصطلاحات اس کی نظر میں بہت بے معنی اور بیکار ہو تی ہیں۔ نواز شریف اور اس
کا خاندان، وزراء، مشیران اور اہم عہدوں پر فائز افراد سب کے سب نواز شریف
کی پاکستان کی سالمیت کی منافی سرگرمیوں کی بناء پر سیکیورٹی رسک بن چکے
ہیں۔
خیر، ڈان لیکس پر فوجی ترجمان کی جانب سے حکومت موقف کی نفی میں ٹویٹ آنے
کے بعد عوام بہت پُراُمید ہو گئے تھے کہ یقینا نواز شریف کو اپنے کیے کا
پھل مِلنے والا ہے۔ اور لوگوں کا یہ شک یقین میں بھی بدل گیا تھا کہ یقینا
حکومت کی جانب سے یکطرفہ نوٹیفکیشن جاری کر کے کسی خاص شخصیت کو بچانے کی
کوشش کی گئی ہے۔ مگر گزشتہ چند روز سے اخباروں میں خبر گردش کرنے لگی کہ
بالآخر حکومتی ٹیم نے عسکری قیادت کو ڈان لیکس پر ’متفقہ موقف‘ اختیار کرنے
پر راضی کر لیا ہے۔ یعنی ’مفاہمت‘ ہو گئی ہے۔ پتا نہیں مفاہمت ہوئی ہے یا
نہیں؟ مگر اس وقت سوشل میڈیا پر تمام تر توپوں کا رُخ فوج کی طرف ہو گیا
ہے۔ پہلے پاناما لیکس کے فیصلے پر عدلیہ کا وقار سوشل میڈیا پر رُل گیا اور
اب فوج جیسا معتبر ادارہ زیرِ عتاب آ چکا ہے۔ فوج کی اعلیٰ قیادت کے بارے
میں ایسی ایسی شرمناک باتیں کی جا رہی ہیں اُن کی اہلیت اور صلاحیت پر ایسے
ایسے تبرے کیے جا رہے ہیں کہ اُنہیں احاطۂ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ آج
نواز شریف نے اپنی جلاوطنی کا بدلہ پاک فوج سے لے لیا ہے۔ نواز شریف جیت
گیا ہے ، عوام اور اداروں کا وقار ہار گئے ہیں۔ مُلک کا چیف ایگزیکٹو ہونے
کے ناتے نواز شریف کی کرپشن اور مطلق العنانیت کے تلے دب کر تمام اداروں کی
ساکھ کا کچومر نکل گیا ہے۔
خاطر جمع رکھیے، یہ سب تو ابھی ایک شروعات ہے۔ شیر اب سب کو بھیڑ بکری بنا
کر نگل رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی پاناما کیس پر تاریخی فیصلہ سُنا کر جے
آئی ٹی بنوا دی۔ یقین مانیے پاناما کا کیس اب نواز اینڈ کمپنی کا کچھ بھی
بگاڑنے والا نہیں ہے۔ اگر مُلک کے مقتدر اور بااختیار ادارے ڈان لیکس اور
پاناما لیکس پر نواز شریف کا بال بیکا نہیں کر سکے تو جے آئی ٹی میں شامل
محکوم محکموں کے اٹھارویں اُنیسویں گریڈ کے افسروں کی کیا مجال ہے کہ
شہنشاہِ وقت کو کوئی نقصان پہنچا سکیں یا اُن کا احتساب کر سکیں۔ قوم کو
کسی خوش اُمیدی میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ
عوام کی ترقی اور خوش حالی کے خواب شریف خاندان کی جھولی میں یرغمال ہوئے
پڑے ہیں۔ افسوس اس مُلک میں تبدیلی اب صرف جابر اور مقتدر حکمران کے اختیار
و اقتدار میں مزید اضافے کا نام ہی بن کر رہ گئی ہے۔ |