شعبان کی پندرہ تاریخ شاہد ہے کہ رمضان المبارک کی
آمدقریب تر ہے ۔ رمضان المبارک کی آمدنہ صرف امت مسلمہ کے افراد کے لیے
بلکہ دنیا کے ہر فرد کے لیے عالمی پیمانہ پر خیر و برکت کی خبر ہوتی
ہے۔چونکہ رمضان المبارک نزولِ قرآن کا مہینہ ہے لہذا اس مہینہ میں تقویٰ
وپرہیزگاری اور راہِ خدا میں استقامت جیسی صفات ہر مسلمان میں پیدا ہو جاتی
ہیں۔اِسی کا نتیجہ ہے کہ اس ماہ میں ہمدردی و غمگساری، محبت و الفت اور
جذبہ خیر خواہی و خدمت ِ خلق میں بھی مسلمانوں کی عملی زندگیاں عام دنوں کے
مقابلہ زیادہ شواہد پیش کرتی ہیں ۔ساتھ ہی یہ مہینہ جذبۂ حمیت اور جذبۂ
اتحاد،اﷲ اور رسولؐ سے بے انتہا لو‘ لگانے کا مہینہ ہے لہذا اُس کے استقبال
کے لیے ہمیں اپنے قلب و فکر اور قول و عمل میں اُن اعلیٰ صفات کو پیدا کرنے
کے لیے شعوری طور پر تیار ہوجانا چاہیے جن کا تقاضہ یہ مہینہ کرتا ہے۔ہم
جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں :قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر
پیش آئی ، شب ِ قدر رکھی گئی،فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا، اِس کے عشروں اعلیٰ
ترین خصوصیات سے نوازا گیا۔ پھر اس ماہ میں زکوٰۃ،انفاق اور فطرے کا اہتمام
کیا گیا جس کے نتیجہ میں ماہِ رمضان المبارک کی عبادات کے درجات مزید بلند
کر دیے گئے۔لہذااس ماہ کی حیثیت کے شایانِ شان ہی اس کا استقبال بھی کیا
جانا چاہیے۔ قبل اس سے کہ رمضان کی آمد ہو ہم اپنے باطن و ظاہر کو اس کے
لیے تیار کر لیں۔ظاہر و باطن کو پاک کرنے اورتیار کرنے میں نیزتقویٰ کی روش
اختیار کرنے میں سب سے زیادہ جو مددگار عمل ہے وہ "روزہ"ہے۔اسی لیے اﷲ کے
رسول محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ماہِ رمضان کے بعد سب سے زیادہ روزے ماہِ
شعبان میں رکھے۔یہی اس کے استقبال کا بہترین ذریعہ بھی ہے!
یہ حقیقت ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس
منظر میں بنائے جانے والی حکمت عملی،پالیسی،لائحہ عمل اور تد ابیر وضع کرنے
کے نتیجہ میں ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود رمضان المبارک کے تین اہم واقعات
نے دنیا کی صورت بالکل ہی تبدیل کر دی۔یہ تین واقعات وہ مینارۂ نور ہیں جن
کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ امت بحیثیت پوری امت ِ مسلمہ اور
مسلمان بحیثیت فرد کامیابی سے ہمکنار ہوں۔پہلاواقعہ نزولِ قرآن ہے۔ قرآن نے
حیات ِ انسانی کو جلا بخشی اور دنیا کو تاریکی ،گمراہی اورشرک کی جڑوں سے
نجات دلائی۔لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی
کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں
نافذ کریں۔اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔اس کے
پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔اِس کے قیام کی سعی و جہد کریں اور
اِس کو وہ اہمیت دیں جو اُس کا حق ادا کر دے۔دوسرا واقعہ جنگ بدر ہے۔یہ
واقعہ اُس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علمبردار
سعی و جہد میں اپنی ان تمام نعمتوں کو اﷲ کے حوالے کر دیتے ہیں جو اس نے
عطا کی ہیں۔اﷲ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے ۔جس کے ذریعہ انسان
اور حیوان میں فرق نمایاں ہوتا ہے۔ اﷲ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعہ
جہالت،گمراہی اور باطل نظریۂ ہائے افکار و نظریات سے چھٹکارا پایااور دلایا
جا سکتا ہے۔اﷲ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعہ خیر و فلاح کے کام انجام دیے
جاتے ہیں۔اﷲ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اﷲ کے کاموں میں
استعمال کیا جا سکتا ہے۔اﷲ نے جان دی ہے جس کے ذریعہ نظامِ باطل کو زیر کیا
جا سکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔لیکن اس آخری انتہا سے قبل بہت سے وہ کام
ہیں جن کا آغاز ہرشخص فرداً فرداً کر سکتا ہے لیکن اﷲ کی راہ میں جان دینے
کا کام اجتماعی ہوگا اور یہ اُسی وقت ہوگا جب اس کا تقاضہ ہو،فی الوقت اس
کی ضرورت نہیں ہے۔حاملِ قرآن جب قرآن پر عمل کرنے والے ہو جائیں گے تو ان
کو وہی کامیابی میسر ہوگی جوہمیشہ اور ہر دور میں مخالفین و معاندین کے
مقابلے ہوتی رہی ہے۔تیسرا واقعہ فتح ِ مبین ہے ۔ یہ واقعہ اس بات کی شہادت
پیش کرتا ہے کہ حق کے علمبردار دنیا میں بھی سرخروئی حاصل کریں گے اور آخرت
کی کامیابی تو ابدی ہے۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ اﷲ کا
گھر اور وہ مقام جو اﷲ کی عبادت کے لیے مختص کر لیا گیا ہو وہ شرک اور بت
پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔مساجد اﷲ کی عبادت کے لیے مخصوص ہیں لہذا اس میں
باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔یہ زمین وہ ہے جہاں اﷲ کے نام لینے والے
اﷲ کے آگے سربجود ہوتے ہیں،اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے
اپنی تمام توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں،اور
اسلامی نظام میں اجتماعیت کی روح پھونکتے ہیں۔یہ واقعہ اس بات کی بھی
نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل
کریں تو وہ مزید اﷲ کی بڑائی بیان کرنے والے بن جاتے ہیں، ان کی کمر غرور و
تکبرکے محرکات سے اکڑتی نہیں ہے بلکہ اﷲ کے آگے مزیدوہ جھکنے والے بن جاتے
ہیں ساتھ ہی ان میں انسانوں سے خیر خواہی کے جذبات بھی ابھرتے ہیں۔یہ تین
واقعات ہمیں اس جانب متوجہ کرتے ہیں کہ ماہ قرآن کے استقبال یعنی رمضان
المبارک کے استقبال میں ہمیں اپنے ظاہرو باطن میں وہ محرکات پیدا کر لینا
چاہیے اور اُن چیزوں پر عمل پیرا ہو جانا چاہیے جن کے اختیار کے نتیجہ میں
دنیا و آخرت میں لازماً کامیابی حاصل ہوگی۔
آج اگر ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ بحیثیت فرد و ملت اپنی بقا و تحفظ کے لیے
ان اقدامات کی ضرورت ہے جو دنیا میں رائج ہیں تو یہ نہ صرف ہماری کم عقلی
کہلائے گیبلکہ دین کی تعلیمات سے دوری بھی نمایاں کرے گی۔علمی میدان میں
ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی آزادی اور بالا دستی،صنعت و حرفت
میں پیش قدمی،سائنس و ٹیکنالوجی میں دریافتیں،چاند اور مریخ پر قلابیں، یہ
اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی دم نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام
کے سانچے میں نہ ڈھل جائیں۔ہم دینی مدارس کھولتے ہیں،کلمہ اور نماز کی
تبلیغ کرتے ہیں،فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین کرتے ہیں،اور گمراہ فرقوں
کے خلاف مورچے لگاتے ہیں۔ حاصل؟حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے دین مٹ رہا ہے
اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہے اس کے مٹنے میں ذرا سستی
آجائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے ذرا کچھ دن اور مل جائیں ۔لیکن یہ
امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اﷲ کا دین غالب آجائے گایا اﷲ کا کلمہعوام
الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے گا۔پھر یہ خیال کہ موجودہ نظام تو ان ہی
بنیادوں پر قائم رہے، مگراخلاق ، معاشرت،معیشیت،نظم و نسق یا سیاست کی
موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے گی، یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن
نہیں۔کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظامِ زندگی کی بنیادی خرابیوں کی
آفریدہ اور پروردہ ہیں اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل
رہا ہے ۔ ایسے حالات میں ایک جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے جامع پروگرام
ناگزیر ہے ، جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری
کرے۔اس پس منظر میں یہ سوال لازماً اٹھنا ہی چاہیے کہ وہ کامل پروگرام کیا
ہے جس کی بنا پر ہمہ جہت تبدیلی ممکن ہے؟لیکن اس سے قبل یہ سوال اہم بن
جاتا ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟اس موقع پر ہم یہ بھی بتا دینا
چاہتے ہیں کہ یہ اسلام اور جاہلیت کا ملا جلا مرکب، جو اب تک ہمارانظام
حیات بنا ہوا ہے ،زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں
بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں تو رسوائی ایسے لوگوں کے
لیے لکھی جا چکی ہے! ۔۔۔۔(جاری)
محمد آصف اقبال
[email protected]
maiqbaldelhi.blogspot.com
شعبان کی پندرہ تاریخ شاہد ہے کہ رمضان المبارک کی آمدقریب تر ہے ۔ رمضان
المبارک کی آمدنہ صرف امت مسلمہ کے افراد کے لیے بلکہ دنیا کے ہر فرد کے
لیے عالمی پیمانہ پر خیر و برکت کی خبر ہوتی ہے۔چونکہ رمضان المبارک نزولِ
قرآن کا مہینہ ہے لہذا اس مہینہ میں تقویٰ وپرہیزگاری اور راہِ خدا میں
استقامت جیسی صفات ہر مسلمان میں پیدا ہو جاتی ہیں۔اِسی کا نتیجہ ہے کہ اس
ماہ میں ہمدردی و غمگساری، محبت و الفت اور جذبہ خیر خواہی و خدمت ِ خلق
میں بھی مسلمانوں کی عملی زندگیاں عام دنوں کے مقابلہ زیادہ شواہد پیش کرتی
ہیں ۔ساتھ ہی یہ مہینہ جذبۂ حمیت اور جذبۂ اتحاد،اﷲ اور رسولؐ سے بے انتہا
لو‘ لگانے کا مہینہ ہے لہذا اُس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنے قلب و فکر اور
قول و عمل میں اُن اعلیٰ صفات کو پیدا کرنے کے لیے شعوری طور پر تیار
ہوجانا چاہیے جن کا تقاضہ یہ مہینہ کرتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک
میں :قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی ، شب ِ قدر رکھی
گئی،فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا، اِس کے عشروں اعلیٰ ترین خصوصیات سے نوازا
گیا۔ پھر اس ماہ میں زکوٰۃ،انفاق اور فطرے کا اہتمام کیا گیا جس کے نتیجہ
میں ماہِ رمضان المبارک کی عبادات کے درجات مزید بلند کر دیے گئے۔لہذااس
ماہ کی حیثیت کے شایانِ شان ہی اس کا استقبال بھی کیا جانا چاہیے۔ قبل اس
سے کہ رمضان کی آمد ہو ہم اپنے باطن و ظاہر کو اس کے لیے تیار کر لیں۔ظاہر
و باطن کو پاک کرنے اورتیار کرنے میں نیزتقویٰ کی روش اختیار کرنے میں سب
سے زیادہ جو مددگار عمل ہے وہ "روزہ"ہے۔اسی لیے اﷲ کے رسول محمد صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ماہِ رمضان کے بعد سب سے زیادہ روزے ماہِ شعبان میں رکھے۔یہی
اس کے استقبال کا بہترین ذریعہ بھی ہے!
یہ حقیقت ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس
منظر میں بنائے جانے والی حکمت عملی،پالیسی،لائحہ عمل اور تد ابیر وضع کرنے
کے نتیجہ میں ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود رمضان المبارک کے تین اہم واقعات
نے دنیا کی صورت بالکل ہی تبدیل کر دی۔یہ تین واقعات وہ مینارۂ نور ہیں جن
کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ امت بحیثیت پوری امت ِ مسلمہ اور
مسلمان بحیثیت فرد کامیابی سے ہمکنار ہوں۔پہلاواقعہ نزولِ قرآن ہے۔ قرآن نے
حیات ِ انسانی کو جلا بخشی اور دنیا کو تاریکی ،گمراہی اورشرک کی جڑوں سے
نجات دلائی۔لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی
کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں
نافذ کریں۔اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔اس کے
پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔اِس کے قیام کی سعی و جہد کریں اور
اِس کو وہ اہمیت دیں جو اُس کا حق ادا کر دے۔دوسرا واقعہ جنگ بدر ہے۔یہ
واقعہ اُس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علمبردار
سعی و جہد میں اپنی ان تمام نعمتوں کو اﷲ کے حوالے کر دیتے ہیں جو اس نے
عطا کی ہیں۔اﷲ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے ۔جس کے ذریعہ انسان
اور حیوان میں فرق نمایاں ہوتا ہے۔ اﷲ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعہ
جہالت،گمراہی اور باطل نظریۂ ہائے افکار و نظریات سے چھٹکارا پایااور دلایا
جا سکتا ہے۔اﷲ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعہ خیر و فلاح کے کام انجام دیے
جاتے ہیں۔اﷲ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اﷲ کے کاموں میں
استعمال کیا جا سکتا ہے۔اﷲ نے جان دی ہے جس کے ذریعہ نظامِ باطل کو زیر کیا
جا سکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔لیکن اس آخری انتہا سے قبل بہت سے وہ کام
ہیں جن کا آغاز ہرشخص فرداً فرداً کر سکتا ہے لیکن اﷲ کی راہ میں جان دینے
کا کام اجتماعی ہوگا اور یہ اُسی وقت ہوگا جب اس کا تقاضہ ہو،فی الوقت اس
کی ضرورت نہیں ہے۔حاملِ قرآن جب قرآن پر عمل کرنے والے ہو جائیں گے تو ان
کو وہی کامیابی میسر ہوگی جوہمیشہ اور ہر دور میں مخالفین و معاندین کے
مقابلے ہوتی رہی ہے۔تیسرا واقعہ فتح ِ مبین ہے ۔ یہ واقعہ اس بات کی شہادت
پیش کرتا ہے کہ حق کے علمبردار دنیا میں بھی سرخروئی حاصل کریں گے اور آخرت
کی کامیابی تو ابدی ہے۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ اﷲ کا
گھر اور وہ مقام جو اﷲ کی عبادت کے لیے مختص کر لیا گیا ہو وہ شرک اور بت
پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔مساجد اﷲ کی عبادت کے لیے مخصوص ہیں لہذا اس میں
باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔یہ زمین وہ ہے جہاں اﷲ کے نام لینے والے
اﷲ کے آگے سربجود ہوتے ہیں،اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے
اپنی تمام توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں،اور
اسلامی نظام میں اجتماعیت کی روح پھونکتے ہیں۔یہ واقعہ اس بات کی بھی
نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل
کریں تو وہ مزید اﷲ کی بڑائی بیان کرنے والے بن جاتے ہیں، ان کی کمر غرور و
تکبرکے محرکات سے اکڑتی نہیں ہے بلکہ اﷲ کے آگے مزیدوہ جھکنے والے بن جاتے
ہیں ساتھ ہی ان میں انسانوں سے خیر خواہی کے جذبات بھی ابھرتے ہیں۔یہ تین
واقعات ہمیں اس جانب متوجہ کرتے ہیں کہ ماہ قرآن کے استقبال یعنی رمضان
المبارک کے استقبال میں ہمیں اپنے ظاہرو باطن میں وہ محرکات پیدا کر لینا
چاہیے اور اُن چیزوں پر عمل پیرا ہو جانا چاہیے جن کے اختیار کے نتیجہ میں
دنیا و آخرت میں لازماً کامیابی حاصل ہوگی۔
آج اگر ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ بحیثیت فرد و ملت اپنی بقا و تحفظ کے لیے
ان اقدامات کی ضرورت ہے جو دنیا میں رائج ہیں تو یہ نہ صرف ہماری کم عقلی
کہلائے گیبلکہ دین کی تعلیمات سے دوری بھی نمایاں کرے گی۔علمی میدان میں
ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی آزادی اور بالا دستی،صنعت و حرفت
میں پیش قدمی،سائنس و ٹیکنالوجی میں دریافتیں،چاند اور مریخ پر قلابیں، یہ
اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی دم نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام
کے سانچے میں نہ ڈھل جائیں۔ہم دینی مدارس کھولتے ہیں،کلمہ اور نماز کی
تبلیغ کرتے ہیں،فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین کرتے ہیں،اور گمراہ فرقوں
کے خلاف مورچے لگاتے ہیں۔ حاصل؟حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے دین مٹ رہا ہے
اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہے اس کے مٹنے میں ذرا سستی
آجائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے ذرا کچھ دن اور مل جائیں ۔لیکن یہ
امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اﷲ کا دین غالب آجائے گایا اﷲ کا کلمہعوام
الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے گا۔پھر یہ خیال کہ موجودہ نظام تو ان ہی
بنیادوں پر قائم رہے، مگراخلاق ، معاشرت،معیشیت،نظم و نسق یا سیاست کی
موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے گی، یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن
نہیں۔کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظامِ زندگی کی بنیادی خرابیوں کی
آفریدہ اور پروردہ ہیں اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل
رہا ہے ۔ ایسے حالات میں ایک جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے جامع پروگرام
ناگزیر ہے ، جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری
کرے۔اس پس منظر میں یہ سوال لازماً اٹھنا ہی چاہیے کہ وہ کامل پروگرام کیا
ہے جس کی بنا پر ہمہ جہت تبدیلی ممکن ہے؟لیکن اس سے قبل یہ سوال اہم بن
جاتا ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟اس موقع پر ہم یہ بھی بتا دینا
چاہتے ہیں کہ یہ اسلام اور جاہلیت کا ملا جلا مرکب، جو اب تک ہمارانظام
حیات بنا ہوا ہے ،زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں
بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں تو رسوائی ایسے لوگوں کے
لیے لکھی جا چکی ہے! ۔۔۔۔(جاری)
محمد آصف اقبال
[email protected]
maiqbaldelhi.blogspot.com
شعبان کی پندرہ تاریخ شاہد ہے کہ رمضان المبارک کی آمدقریب تر ہے ۔ رمضان
المبارک کی آمدنہ صرف امت مسلمہ کے افراد کے لیے بلکہ دنیا کے ہر فرد کے
لیے عالمی پیمانہ پر خیر و برکت کی خبر ہوتی ہے۔چونکہ رمضان المبارک نزولِ
قرآن کا مہینہ ہے لہذا اس مہینہ میں تقویٰ وپرہیزگاری اور راہِ خدا میں
استقامت جیسی صفات ہر مسلمان میں پیدا ہو جاتی ہیں۔اِسی کا نتیجہ ہے کہ اس
ماہ میں ہمدردی و غمگساری، محبت و الفت اور جذبہ خیر خواہی و خدمت ِ خلق
میں بھی مسلمانوں کی عملی زندگیاں عام دنوں کے مقابلہ زیادہ شواہد پیش کرتی
ہیں ۔ساتھ ہی یہ مہینہ جذبۂ حمیت اور جذبۂ اتحاد،اﷲ اور رسولؐ سے بے انتہا
لو‘ لگانے کا مہینہ ہے لہذا اُس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنے قلب و فکر اور
قول و عمل میں اُن اعلیٰ صفات کو پیدا کرنے کے لیے شعوری طور پر تیار
ہوجانا چاہیے جن کا تقاضہ یہ مہینہ کرتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک
میں :قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی ، شب ِ قدر رکھی
گئی،فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا، اِس کے عشروں اعلیٰ ترین خصوصیات سے نوازا
گیا۔ پھر اس ماہ میں زکوٰۃ،انفاق اور فطرے کا اہتمام کیا گیا جس کے نتیجہ
میں ماہِ رمضان المبارک کی عبادات کے درجات مزید بلند کر دیے گئے۔لہذااس
ماہ کی حیثیت کے شایانِ شان ہی اس کا استقبال بھی کیا جانا چاہیے۔ قبل اس
سے کہ رمضان کی آمد ہو ہم اپنے باطن و ظاہر کو اس کے لیے تیار کر لیں۔ظاہر
و باطن کو پاک کرنے اورتیار کرنے میں نیزتقویٰ کی روش اختیار کرنے میں سب
سے زیادہ جو مددگار عمل ہے وہ "روزہ"ہے۔اسی لیے اﷲ کے رسول محمد صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ماہِ رمضان کے بعد سب سے زیادہ روزے ماہِ شعبان میں رکھے۔یہی
اس کے استقبال کا بہترین ذریعہ بھی ہے!
یہ حقیقت ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس
منظر میں بنائے جانے والی حکمت عملی،پالیسی،لائحہ عمل اور تد ابیر وضع کرنے
کے نتیجہ میں ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود رمضان المبارک کے تین اہم واقعات
نے دنیا کی صورت بالکل ہی تبدیل کر دی۔یہ تین واقعات وہ مینارۂ نور ہیں جن
کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ امت بحیثیت پوری امت ِ مسلمہ اور
مسلمان بحیثیت فرد کامیابی سے ہمکنار ہوں۔پہلاواقعہ نزولِ قرآن ہے۔ قرآن نے
حیات ِ انسانی کو جلا بخشی اور دنیا کو تاریکی ،گمراہی اورشرک کی جڑوں سے
نجات دلائی۔لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی
کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں
نافذ کریں۔اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔اس کے
پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔اِس کے قیام کی سعی و جہد کریں اور
اِس کو وہ اہمیت دیں جو اُس کا حق ادا کر دے۔دوسرا واقعہ جنگ بدر ہے۔یہ
واقعہ اُس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علمبردار
سعی و جہد میں اپنی ان تمام نعمتوں کو اﷲ کے حوالے کر دیتے ہیں جو اس نے
عطا کی ہیں۔اﷲ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے ۔جس کے ذریعہ انسان
اور حیوان میں فرق نمایاں ہوتا ہے۔ اﷲ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعہ
جہالت،گمراہی اور باطل نظریۂ ہائے افکار و نظریات سے چھٹکارا پایااور دلایا
جا سکتا ہے۔اﷲ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعہ خیر و فلاح کے کام انجام دیے
جاتے ہیں۔اﷲ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اﷲ کے کاموں میں
استعمال کیا جا سکتا ہے۔اﷲ نے جان دی ہے جس کے ذریعہ نظامِ باطل کو زیر کیا
جا سکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے۔لیکن اس آخری انتہا سے قبل بہت سے وہ کام
ہیں جن کا آغاز ہرشخص فرداً فرداً کر سکتا ہے لیکن اﷲ کی راہ میں جان دینے
کا کام اجتماعی ہوگا اور یہ اُسی وقت ہوگا جب اس کا تقاضہ ہو،فی الوقت اس
کی ضرورت نہیں ہے۔حاملِ قرآن جب قرآن پر عمل کرنے والے ہو جائیں گے تو ان
کو وہی کامیابی میسر ہوگی جوہمیشہ اور ہر دور میں مخالفین و معاندین کے
مقابلے ہوتی رہی ہے۔تیسرا واقعہ فتح ِ مبین ہے ۔ یہ واقعہ اس بات کی شہادت
پیش کرتا ہے کہ حق کے علمبردار دنیا میں بھی سرخروئی حاصل کریں گے اور آخرت
کی کامیابی تو ابدی ہے۔یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ اﷲ کا
گھر اور وہ مقام جو اﷲ کی عبادت کے لیے مختص کر لیا گیا ہو وہ شرک اور بت
پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔مساجد اﷲ کی عبادت کے لیے مخصوص ہیں لہذا اس میں
باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔یہ زمین وہ ہے جہاں اﷲ کے نام لینے والے
اﷲ کے آگے سربجود ہوتے ہیں،اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے
اپنی تمام توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں،اور
اسلامی نظام میں اجتماعیت کی روح پھونکتے ہیں۔یہ واقعہ اس بات کی بھی
نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل
کریں تو وہ مزید اﷲ کی بڑائی بیان کرنے والے بن جاتے ہیں، ان کی کمر غرور و
تکبرکے محرکات سے اکڑتی نہیں ہے بلکہ اﷲ کے آگے مزیدوہ جھکنے والے بن جاتے
ہیں ساتھ ہی ان میں انسانوں سے خیر خواہی کے جذبات بھی ابھرتے ہیں۔یہ تین
واقعات ہمیں اس جانب متوجہ کرتے ہیں کہ ماہ قرآن کے استقبال یعنی رمضان
المبارک کے استقبال میں ہمیں اپنے ظاہرو باطن میں وہ محرکات پیدا کر لینا
چاہیے اور اُن چیزوں پر عمل پیرا ہو جانا چاہیے جن کے اختیار کے نتیجہ میں
دنیا و آخرت میں لازماً کامیابی حاصل ہوگی۔
آج اگر ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ بحیثیت فرد و ملت اپنی بقا و تحفظ کے لیے
ان اقدامات کی ضرورت ہے جو دنیا میں رائج ہیں تو یہ نہ صرف ہماری کم عقلی
کہلائے گیبلکہ دین کی تعلیمات سے دوری بھی نمایاں کرے گی۔علمی میدان میں
ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی آزادی اور بالا دستی،صنعت و حرفت
میں پیش قدمی،سائنس و ٹیکنالوجی میں دریافتیں،چاند اور مریخ پر قلابیں، یہ
اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی دم نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام
کے سانچے میں نہ ڈھل جائیں۔ہم دینی مدارس کھولتے ہیں،کلمہ اور نماز کی
تبلیغ کرتے ہیں،فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین کرتے ہیں،اور گمراہ فرقوں
کے خلاف مورچے لگاتے ہیں۔ حاصل؟حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے دین مٹ رہا ہے
اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہے اس کے مٹنے میں ذرا سستی
آجائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے ذرا کچھ دن اور مل جائیں ۔لیکن یہ
امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اﷲ کا دین غالب آجائے گایا اﷲ کا کلمہعوام
الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے گا۔پھر یہ خیال کہ موجودہ نظام تو ان ہی
بنیادوں پر قائم رہے، مگراخلاق ، معاشرت،معیشیت،نظم و نسق یا سیاست کی
موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے گی، یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن
نہیں۔کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظامِ زندگی کی بنیادی خرابیوں کی
آفریدہ اور پروردہ ہیں اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل
رہا ہے ۔ ایسے حالات میں ایک جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے جامع پروگرام
ناگزیر ہے ، جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری
کرے۔اس پس منظر میں یہ سوال لازماً اٹھنا ہی چاہیے کہ وہ کامل پروگرام کیا
ہے جس کی بنا پر ہمہ جہت تبدیلی ممکن ہے؟لیکن اس سے قبل یہ سوال اہم بن
جاتا ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟اس موقع پر ہم یہ بھی بتا دینا
چاہتے ہیں کہ یہ اسلام اور جاہلیت کا ملا جلا مرکب، جو اب تک ہمارانظام
حیات بنا ہوا ہے ،زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں
بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں تو رسوائی ایسے لوگوں کے
لیے لکھی جا چکی ہے! ۔۔۔۔(جاری)
|