عوام کے ساتھ اتنی بڑی بددیانتی

کچھ عرصہ پہلے قومی مرکز لاہور میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار، جس کا عنوان "مشرق وسطیٰ میں استعماری طاقتوں کی ناکامی اور موجودہ منظرعامہ"تھا، سے خطاب کرتے ہوۓ سید علی مرتضیٰ زیدی نے پاکستان میں بجلی کے بحران پر نہ صرف قابو پانے بلکہ بجلی میں ضرورت سے زیادہ خود کفیل ہونے کے بارے میں کچھ ایسے حقائق سے پردہ اٹھایا جس کو سننے کے بعد کف افسوس ملنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں بجلی کی کھپت 24،000 میگاواٹ ہے اور بجلی کی کمی 8،000 میگاواٹ ہے۔ جس کے لئے آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔ بڑے شہروں میں اگر لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم کر دیا جاتا ہے تو چھوٹے شہروں میں بارہ بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہونے لگتی ہے۔ ٪30 سے ٪33 ہم پانی سے بجلی پیدا کرتے ہیں جب کہ ٪20 سے ٪25 گیس جلا کر اور فیول سے، باقی کچھ فی صد نیوکلئیر وغیرہ سے۔

گلگت، بلتستان کے پانی میں بجلی بنانے کی اہلیت تقریباً دو لاکھ میگاواٹ ہے۔ یہ بجلی اتنی ہے کہ پاکستان جیسے دس اور ممالک کو یہ بجلی دی جاسکتی ہے۔

بجلی بنانے کا دوسرا اہم ذریعہ جو قدرت نے ہمیں دیا ہے وہ ہے ہوا کی راہداریوں سے بجلی بنانا۔ کراچی کے جنوب میں سمندر ہے اور کراچی سے دو ڈھائ سو کلومیٹر کے فاصلے پر صحرا ہے۔ ہوا جب گرم ہوتی ہے تو اوپر کی طرف اٹھتی ہے اور ٹھنڈی ہوا اس کی جگہ لے لیتی ہے تو اسی طرح جب کراچی کے قریب موجود صحرا سے گرم ہوا ہو کر اوپر اٹھتی ہے اور ایک خلا پیدا ہوجاتا اور اس خلا کو پورا کرنے کے لئے کراچی کے سمندر کی ٹھنڈی ہوا اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ اور پھر وہ بھی گرم ہو کر اوپر اٹھ جاتی ہے اور اس کی جگہ دوبارہ ٹھنڈی ہوا لے لیتی ہے۔ یہ عمل اسی طرح جاری رہتا ہے۔ یہ ہوا جس راستے سے بار بار گزرتی ہے اس راستے کو ونڈ کوریڈور یا ہوا کی راہداری کہا جاتا ہے۔ ہوا کی اس راہداری میں ونڈ ٹربائن لگاۓ جا سکتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کی ہوا کی راہداریوں میں بجلی پیدا کرنے کی طاقت تقریباً 50،000 میگاواٹ ہے۔ یعنی گلگت، بلتستان کے پانی سے ہمیں دو لاکھ میگاواٹ اور سندھ اور بلوچستان کی ہوا کی راہداریوں سے ہمیں 50،000 میگاواٹ بجلی مہیا ہو سکتی ہے ۔ جب کہ ہمیں صرف 24،000 میگاواٹ چاہیئے۔
یورپین ممالک کا کہنا ہے کہ اگر ایک سال میں 165 دن بھی سورج نکل آۓ تو سولر انرجی پیدا کی جا سکتی ہے۔ کراچی جیسے شہر میں 300 دن سورج نکلتا ہے تو پورے پاکستان میں سولر انرجی کتنی پیدا ہوسکتی یہ بس اللہ ہی جانتا ہے۔

یہ تھیں وہ معلومات جو مرتضیٰ زیدی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوۓ دیں۔ اس کے بارے میں عوام اتنی تفصیل سے نہیں جانتے۔

ذرا سوچیں اگر گلگت، بلتستان میں بجلی پیدا کرنے کے لئے ایک ڈیم بنا دیا جاۓ، کراچی، بلوچستان کی ہوا کی راہداریون میں ونڈ ٹربائنز لگا دئے جائیں اور آگ برساتے سورج سے سولر انرجی بنا لی جاۓ تو ہمارا ملک ترقی یافتہ کیا بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی رو میں کافی آگے ہی کھڑا ہوگا۔

چھوٹا سا ملک ہے ہمارا جو ہمارے بڑے بڑے سیاست دانوں سے سنبھالا نہیں جارہا۔ حکمرانوں نے لوٹ لوٹ کر اس ملک کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ڈیم بنانے کے لئے پیسہ چاہئے جو ہمارے پاس ہے نہیں۔ آۓ بھی تو کہاں سے آۓ پیسہ؟ پہلے حکمران اپنی جیبیں تو بھر لیں۔ ایک گلگت، بلتستان کے پانی سے ہم دو لاکھ میگاواٹ بجلی حاصل کر کے نہ صرف یہ کہ بجلی میں خود کفیل ہوسکتے ہیں بلکہ پاکستان جیسے دس ممالک کو بجلی دے کر اتنا زرمبادلہ کما سکتے ہیں کہ سالوں نہیں مہینوں میں ہمارا ملک بے انتہا ترقی کر سکتا ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟ کیوں کوئ حکمران عوام کے درد اور تکلیف کو سمجھے؟ جب اسے خود کوئ تکلیف یا مسئلہ نہیں۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو وہ اس بادشاہ کی رعایا کی طرح اتنے بے حس ہوچکے ہیں جن کی بے حسی کی فکر بادشاہ کو لاحق ہو گئ تھی اور اس نے اپنے وزیر سے کہا تھا کہ جا کہ پتہ کرے کہ رعایا کو کیا ہوگیا ہے کہ کافی عرصہ گزر گیا دربار میں کوئ فریادی نہیں آیا۔ وزیر نے مشورہ دیا کہ بادشاہ سلامت آپ چوک پر اپنے کسی آدمی کو کھڑا کردیں اور منادی کرادیں کہ جو کوئ بھی صبح اپنے کام پر جاۓ یہاں سے گزر کر جاۓ۔ پھر جو بھی وہاں سے گزرے اسے دو جوتے بادشاہ سلامت کی طرف سے لگاۓ جائیں اور پھر وہ کام پر جاۓ۔ ایسا کرنے سے دربار ضرور فریادیوں سے بھر جاۓ گا۔ چناچہ اگلے ہی دن سے اس بات پر عمل درآمد شروع ہوگیا اور ملک بھر میں منادی کرا دی گئ۔ اب جو بھی کام پر جاتا، چوک سے گزر کر جاتا اور دو جوتے بھی کھا کر جاتا۔ چوک پر لوگوں کی کافی لمنبی قطار لگ جاتی تھی اس طرح کافی لوگ اپنے کام سے لیٹ ہوجاتے تھے۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ لوگوں کا ایک گروہ مل کر دربار میں فریاد لے کر آیا۔ بادشاہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ بہت خوش ہوا کہ آخر اسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہو ہی گئ اور اس کی رعایا آج فریاد لے کر دربار میں آ گئ ہے۔ بادشاہ خوش خوش دربار میں آیا اور فریادیوں سے اپنا مدعا بیان کرنے کو کہا۔ ایک فریادی نے سب کی نمائندگی کرتے ہوۓ کہا کہ بادشاہ سلامت آپ کے حکم کی تعمیل سر آنکھوں پر، بس اتنی عرض ہے ہماری کہ آپ نے جوتے لگانے کے لئے چوک پر ایک آدمی کھڑا کیا ہے جس کی وجہ سے بہت لمنبی قطار لگ جاتی ہے اور ہم اپنے کاموں سے لیٹ ہو جاتے ہیں تو بے شک ہمیں دو کے بجاۓ چار جوتے لگا دئے جائیں مگر مہربانی فرما کر وہاں کچھ اور لوگوں کو تعینات کر دیں تا کہ ہمیں کام سے دیر نہ ہو۔

ہمارے عوام کا بھی یہی حال ہے۔ اس بادشاہ کی رعایا کو تو پھر بھی دو جوتے پڑتے تھے مگر ہم تو نہ جانے کس کس بات کے جوتے کھا رہے ہیں۔ غربت، مہنگائ، کرپشن اور سب سے بڑھ کر جس ملک کی عوام کی بنیادی ضرورتیں ہی پوری نہ ہوں وہاں کی بات ہی کیا کرنی۔ آج تک اس قوم کو کوئ نہ جگا سکا۔ ہم وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن میں رب کریم نے فرمایا کہ اندھے، بہرے، گونگے اور جن کے دلوں پر خدا نے مہر لگا دی ہے۔

سنتے آۓ ہیں کہ جب کسی بھی حکومت میں کبھی بھی کوئ ظالم جابر یا ایسا حکمران آیاجس نے عوام کا جینا دوبھر کردیا، تو وہاں کے عوام نے متحد ہو کر اس کی حکومت کا تختہ ہی الٹ دیا۔ کاش کہ ہمارے ملک میں بھی جلد ایسا ہی کوئ واقعہ رونما ہو اور ہمارے عوام ایک بار مل کر لٹیروں کی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔

Shehla Khan
About the Author: Shehla Khan Read More Articles by Shehla Khan: 28 Articles with 30485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.