مالیگاؤں میں الیکشن کی تیاریاں زور وشور سے جاری
ہیں۔چاراُمیدواروں کے پینل سسٹم کا نیا طریقہ آیاہے۔کچھ پارٹیوں کے مابین
سانٹھ گانٹھ ٹوٹاتو کچھ نئے گٹھ بندھن کا وجود بھی ہوا۔سیاسی جماعتوں میں
بڑی اُتھل پُتھل ہورہی ہے،اُمیدواروں میں قدرے اضافہ ہواجس کے باعث رائے
دہندگان کے حقِ انتخاب میں اضافہ ہوا،مگر اس کے برعکس سبھی پارٹیوں کے لیے
الیکشنی مرحلہ دُشوار سے دُشوار تر ہوگیاہے، بڑے بڑے قدآور لیڈروں پر شکست
کا خطرہ منڈلانے لگاہے۔شکست کے خوف کے پیشِ نظر سبھی پارٹیوں نے کونے کونے
میں پارٹی کے قدآور لیڈروں کاانتخاب کیاہے تاکہ پارٹی کی شاخیں مضبوط کی
جائیں اورکم وقت میں لفظوں کے سہارے بھولی بھالی عوام کا اعتماددوبارہ حاصل
کیاجائے۔جن اُمیدواروں کو گزشتہ کئی سالوں سے اپنے علاقے میں چند لمحے
گذارنے کی فرصت نہ ملی،اس مرتبہ وہ حضرات ہر گھر پر ووٹ بینک کی خاطر دستک
دے رہے ہیں۔ماؤں اور بہنوں کا دل جیتنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی
ہے۔خاکساری وانکساری کا ایسا مظاہرہ کیاجارہاہے کہ دونوں لفظوں کا دل پانی
پانی ہوگیا۔اخلاق کاایسا نمونہ پیش کیاجارہاہے ہیں جیسے ہمدردی، انسانیت ،
رواداری،معافی تلافی اور صلہ رحمی ان کے دَر کی باندیاں ہوں۔تعریفوں کے
ایسے پُل باندھے جارہے ہیں کہ باندرہ وَرلی سی لنک کی وسعت کم محسوس ہورہی
ہے۔
بہرحال تمام پارٹیوں کے اجلاس کا بنیادی مقصد گذشتہ کاموں کو عوام کے سامنے
پیش کرنااور مستقبل میں عوام کی تعمیری ،رفاہی اور فلاحی کاموں کے منصوبوں
کواُجاگر کرناہے۔ اجلاس میں ماضی میں کیے گئے زمینی اورصرف کاغذی یعنی تمام
کاموں کو عوام کے روبروپیش کیاجارہاہے۔ساتھ ہی مستقبل کے لیے ایسے سنہرے
منصوبوں کو پیش کیاجارہاہے جن کاخواب مالیگاؤں کا ہر شہری دیکھتاہے۔کس
پارٹی کاکیاایجنڈہ ہے؟پارٹیاں فتح یابی کے لیے ایڑی چوٹی کاکتنا زور لگارہی
ہے؟ اور کیسے کیسے سیاسی ہتھکھنڈوں کا استعما ل کر رہی ہے؟ان تمام اُمور پر
بحث نہیں کرناہے بلکہ بلا تفریق تمام پارٹیوں کے ذمہ داران کی توجہ اس امر
پر دلاناچاہتاہوں کہ پانچ سال قبل الیکشن کی ہنگامی آرائیوں میں شہر کی
ترقی اور فلاح وبہبود کے لیے جتنے بھی وعدے کیے تھے، ان میں ایک عہدمشترک
تھا،وہ یہ کہ ہر کسی نے عوام سے یہ وعدہ کیاتھا کہ’’ ہمیں ستّہ ملے یانہ
ملے،بہر حال ہم اپنے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچاکررہیں گے‘‘۔
الیکشن کے نتائج کے اعلان کے تقریباًپانچ سالوں بعد تمام ذمہ داران کو ان
کا مذکورہ عہد یاددلانا چاہتاہوں کہ الیکشن کی گہماگہمی میں کیے گئے تمام
وعدوں پر عمل کرنے کا وقت آخر کب آئے گا؟ جس طرح الیکشن کی تیاری میں ہر
کسی نے ایڑی چوٹی کا زور لگایاتھا اسی طرح کیے گئے وعدوں کو مکمل کرنے کی
کوشش کی جانی چاہیے تھی۔مگر کیا ایساہوا؟یہ جاننے کے لیے کیے گئے مختصر
وعدوں کی فہرست قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(۱)شہر میں فلائے اوور کی
تعمیر(۲)یارن بینک کاقیام(۳)پاورلوم فیڈریشن اور ٹیکسٹائل پارک
کاقیام(۴)اُردواسکولوں کومنظوری اور گرانٹ(۵)مالیگاؤں کو اقلیتی ضلع ڈکلیئر
کروانا(۶)اُردوگھرکاقیام (۷) شہر کے تمام پولس اسٹیشنوں میں اُردوجاننے
والے آفیسروں کا تقرر(۸)بے قصور مسلم نوجوانوں کی رہائی کے لیے
اقدامات(۹)ایل بی ٹی اور آکٹرائے کا خاتمہ (۱۰)خواتین کے لیے بہتر روزگار
کے مواقع(۱۱)لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ (۱۲) پیرامیڈیکل کالج ،ٹیکنیکل کالج
اور گورنمنٹ انجینئر کالج کا قیام (۱۳)غریب بے گھر حقداروں کو مکانات
دلانا(۱۴)مقابلاجاتی امتحانات کی تیاری کے لیے اسٹڈی سینٹر وکمپیوٹر اکیڈمی
کا قیام (۱۵)اسپورٹس کمپلیکس بنوانا(۱۶)پیچیدہ امراض کے علاج کے لیے جدید
ترین مشینیں اور مہنگے ترین آپریشن کی سہولیات مہیاکرانا(۱۷)ریلوے لائن کی
آمد(۱۸)حکومت پر عوام کا دبدبہ واپس قائم کرنا(۱۹)OBCکے لیے علاحدہ منسٹری
کا قیام وغیرہ۔ اور بھی بہت سے وقت طلب اور کٹھن کاموں کا وعدہ کرسی کے
موجودگی اور عدم موجودگی میں عوام سے کیا گیا تھا۔
مذکورہ وعدوں کی تکمیل کہاں تک ہوئی؟ یہ اہلیان شہر بخوبی جانتے ہے۔ہمارے
نوجوان اداروں اور کلبوں کی چمک میں پانچ سالہ مستقبل فراموش کر دیتے
ہیں۔انھیں چاہیے کہ لمحاتی کلب بنانے ،ایل ای ڈی، کیرم، اسپورٹس ٹیم اور
نقدی لینے کی بجائے اپنے محلے کا سروے کریں،ایسے بوڑھوں،بیواؤں اور یتیموں
کی فہرست تیار کریں جن کا کوئی پُرسان حال نہیں اور اپنے کارپوریٹر کو وہ
فہرست دے کر ان سے کہوں کہ ہمیں ووٹ کاایک روپیہ بھی نہیں چاہیے اور نہ ہی
ادارے میں کسی قسم کی سہولت۔البتہ ان بوڑھے ،بیوہ اور یتیموں کوہزار روپے
ماہانہ متعین کردیا جائے تاکہ وہ اپنی کفالت خود کرسکیں۔ساتھ ہی ایسے بچوں
کی لسٹ تیار کریں جو تعلیم حاصل کرناچاہتے ہیں مگر زیادہ فیس ،ڈونیشن اور
شہر میں کالج کے نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پارہے ہیں،
کارپوریٹرحضرات سے گذارش کریں کہ جب تک ایسے تمام طلبہ کا ایڈمیشن نہیں
ہوجاتاآپ کو ایک بھی ووٹ نہیں مل پائے گا۔چند روپے لے کر اپنا مستقبل خراب
نہ کریں بلکہ روشن مستقبل بنانے میں جس قسم کی بھی دُشواری آرہی ہے ایسے
وقت میں حل کروانے کی فکر کریں۔راقم کو اُمید ہے کہ ہمارے کارپوریٹرحضرات
عوام کو ناراض نہیں کریں گے۔یہ بے چارے تو اس قدر مخلص ،دیانتدار اور قوم
کے بے لوث خادم ہیں جس کا احساس ان کی تقاریرسے بخوبی ہوتاہے۔
٭٭٭ |